بدھ، 26 فروری، 2025

*کراچی میں لائنوں کا مرمتی کام مکمل ہونے پر پانی کی فراہمی شروع*

کراچی: لائنوں میں رساؤ کا کام رات گئے مکمل کرنے کے بعد مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی شروع کر دی گئی۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے ترجمان نے بتایا کہ بلاک لائنوں کو چارج کیا جا رہا ہے جس کے بعد ڈسٹری بیوشن لائنوں میں پانی کی فراہمی شروع ہوگی۔ترجمان نے بتایا کہ آج شہر میں معمول کے مطابق پانی کی فراہمی بحال ہو جائے گی، 12 مختلف مقامات پر لیکیجز تھیں، رساؤ کے وجہ سے لائن کا پریشر کم کرنا پڑ رہا تھا جبکہ اس کے باعث یومیہ 10 ملین گیلن پانی ضائع بھی ہو رہا تھا۔کارپوریشن کے مطابق لیکیجز کے باعث مختلف علاقوں میں پانی کی کمی کی شکایات تھی، رساؤ ختم ہونے سے لیاری، صدر، کلفٹن، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد سمیت ضلع وسطی میں فراہمی میں بہتری آئے گی۔

*حادثات میں جاں بحق افراد کو انصاف دلوائیں گے،آفاق احمد*

کراچی :چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے کہا ہے کہ حادثات میں جاں بحق تمام افراد کی تفصیلات جمع کررہے ہیں، وکلا کی ٹیم بنائی ہے، جاں بحق افراد کو انصاف دلوائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ شہر کے مسائل پر لسانیت کے نام پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی، ہم ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو جانتے تھے، آج پیپلز پارٹی سے سندھی بولنے والے بھی پریشان ہیں۔

رینجرز کو سندھ بھر میں پولیسنگ کے اختیارات دیئے جائیں، الطاف حسین نے میرے حق میں بات کی تو مجھے لگا ہم 1986میں واپس آ چکے ہیں۔


*یکم رمضان المبارک کو بینک اکاؤنٹ میں کتنی رقم پر زکوٰۃ کٹوتی ہوگی؟ نصاب جاری*

*وفاقی وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے سال 2025 کے لیے زکوٰۃ کا نصاب جاری کر دیا ہے۔*

*وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ کی جانب سے بینکوں کو مراسلہ بھیجا گیا ہے جس کے مطابق یکم رمضان کو اگر آپ کے سیونگ اکاؤنٹ میں ایک لاکھ 79 ہزار 689 روپے یا اس سے زائد رقم ہوئی تو زکوٰۃ کٹوتی ہوگی۔*

*وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ کے مطابق بچت اکاؤنٹ، نفع ونقصان اور اس طرح کے اکاؤنٹس پر زکوٰۃ لاگو ہوگی۔کرنٹ اکاؤنٹس سے زکوٰۃ نہیں کاٹی جائے گی۔*

*بینکوں کو بھیجےگئے مراسلے میں کہا گیا ہےکہ زکوٰۃ کی مد میں کٹوتی یکم یا 2 مارچ کو رمضان کی پہلی تاریخ کی مناسبت سے ہوگی۔*

*زکوٰۃ و عشر آرڈیننس 1980 کے مطابق یکم رمضان المبارک کو 1 لاکھ 79 ہزار689 روپے سے کم بیلنس کے اکاؤنٹس زکوٰۃ کٹوتی سے مستثنٰی ہوں گے اور ان سے زکوٰۃ منہا نہیں کی جائے گی۔*


*افغان ٹیم نے بتا دیا کہ کیسے جیتا جا سکتا ہے، عامر خاکوانی کا تجزیہ*

بدھ کی شام لاہور کے مشہور قذافی سٹیڈیم میں افغانستان نے کرشمہ دکھایا نہیں بلکہ کرشمہ تخلیق کیا۔
انہوں نے بہت اچھے ٹیم ورک کے ساتھ میچ جیتنے کے لیے جان لڑا دی اور انگلینڈ جیسی مضبوط اور تگڑی ٹیم کو ایک بیٹنگ کے لیے موزوں پچ پر شکست دی۔ یہ ہر اعتبار سے ایک شاندار فتح تھی۔
افغان بولنگ کو انگلینڈ کے سپرسٹار بلے بازوں کا چیلنج درپیش تھا، فل سالٹ، بین ڈکٹ، جو روٹ، ہیری بروکس، جوز بٹلر یہ سب بہت اچھے بلے باز ہیں اور ان میں سے بیشتر بھرپور فارم میں تھے۔ 
 بین ڈکٹ نے ابھی ایک میچ قبل آسٹریلوی بولنگ لائن کے سامنے ڈیڑھ سو پلس رنز بنائے۔ آج میچ میں ڈکٹ کا ایک کیچ بھی ڈراپ ہوا، چند لمحوں کے لیے لگا کہ افغان کھلاڑیوں کا مورال ڈاؤن ہوگیا، مگر انہوں نے پھر سے حوصلہ باندھا اور راشد خان نے ایک خوبصورت گیند پر بین ڈکٹ کو ایل بی ڈبلیو کر کے پھر سے امید کی کھڑکی کھول دی۔

جو روٹ کی شاندار سنچری، بٹلر کی اچھی کوشش، اورٹن اور جوفرا آرچر کی مختصر فائٹ بھی افغان ٹیم کو نہ روک پائی۔ 
افغان ٹیم نے حیران کن فائٹ کی۔ افغان ٹیم کے کئی کھلاڑی ٹی 20 فارمیٹ کے حوالے سے خاصا تجربہ رکھتے ہیں، وہ انٹرنیشنل ٹی 20 لیگز بھی کھیلتے ہیں، مگر بڑی ٹیموں کےساتھ ون ڈے کرکٹ کھیلنے کا انہیں زیادہ تجربہ نہیں۔ اس کے باوجود انہوں نےجان لڑا دی اور اپنے سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور تگڑی انگلینڈ کی ٹیم کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔  
 انگلینڈ کی جانب سے جو روٹ نے غیر معمولی اننگ کھیلی۔ جوروٹ بہت تجربہ کار اور تکنیکی اعتبار سے بہترین بلے باز ہیں، انہیں دنیا کے تین چار بڑے بلے بازوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
روٹ نے اپنے کیریئر کی ایک بہترین اننگز کھیلی، دفاع اور جارحیت کا یہ بہترین امتزاج تھی۔ روٹ نے سرتوڑ کوشش کی بلکہ ایک طرح سے وہ میچ لے ہی گئے تھے۔ ان کی بدقسمتی کہ عظمت اللہ عمرزئی کا ایک گیند توقع سے زیادہ تیز اور زیادہ اونچا آیا اور یوں روٹ جو اپر کٹ کھیلنے گئے تھے، گیند بلے کے بجائے گلوز پر لگا اور وکٹ کیپر کی جانب کیچ چلا گیا۔
روٹ نے میچ بنا دیا تھا اور اگر ان کے بعد آنے والے کچھ ہمت کرتے تو شائد انگلینڈ میچ جیت جاتا، مگرانگلش لوئر آرڈر اور ٹیل دراصل افغان ٹیم کی ہمت اور جرات مندانہ فائٹ کے ہاتھوں ہار گئے۔ 

افغان ٹیم نے اچھا فائٹنگ ٹوٹل کیا تھا، مگر بدقسمتی سے ان کا آخری اوور ضائع گیا، دونوں سیٹ بلے باز اس میں آوٹ ہوگئے اور صرف دو رنز بنے، حالانکہ انہیں 15 رنز بنانے چاہیے تھے کیونکہ بولنگ بھی لیگ سپنر لیونگ سٹون کر رہا تھا۔ وہ اوور ضائع نہ ہوتا تو افغان ٹیم کا ٹارگٹ 340 کے لگ بھگ ہوجاتا جس سے انگلینڈ پر مزید دباؤ پڑ جاتا۔ آخری اوورز میں لگ رہا تھا کہ وہ دس پندرہ رنز جو نہیں بنے، وہی مہنگے پڑ سکتے ہیں، تاہم عمرزئی نے بہت اچھا اوور کرایا اور کوئی موقع نہیں دیا۔ 
پچ بیٹنگ کے لیے بہت شاندار تھی، پرفیکٹ بیٹنگ پچ جہاں بولروں کو بالکل مدد نہیں مل رہی تھی، سپنرز کے لیے بھی اس میں کچھ نہیں تھا، آوٹ فیلڈ تیز تھی۔ افغانستان کے لیے برا یہ کہ ڈیو فیکٹر بھی بروئے کار آیا یعنی اوس پڑی اور اس کی نمی سے گیند بھی گیلا ہوا اور گیند گرپ کرنے میں بولروں کو مدد نہیں ملی۔ 
 لاہور میں پچھلے دو دن سے موسم خوشگوار اور بھیگا بھیگا ہے، سرشام ہی اوس پڑنا شروع ہوجاتی ہے، 10 گیارہ بجے باہر نکل کر دیکھیں تو گاڑی کی چھت باقاعدہ بھیگ چکی ہوتی ہے۔ اس منفی فیکٹر کے باوجود دباؤ میں افغان بولروں نے اچھی بولنگ کرائی اور آخر اپنے ٹارگٹ کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

اس سے بھی پہلے افغان ٹیم کی اصل فائٹنگ سپرٹ تب نظر آئی جب ابتدائی تین وکٹیں گر جانے کے بعد ابراہیم زادران ڈٹ گئے اور ایک تاریخ ساز اننگ کھیل ڈالی۔ جوفرا آرچر پچھلے کچھ عرصے میں اپنی فارم کھوج رہے ہیں، آج میچ کے ابتدا میں انہوں نے تباہ کن بولنگ کی اور تجربہ کار افغان اوپنر رحمن اللہ گرباز کو بولڈ کرنے کے بعد صدیق اللہ اور رحمت شاہ کی وکٹیں لے لیں۔ 
 37 رنز پر تین وکٹیں گر گئی تھیں۔ پھر ابراہیم زادران اور حشمت اللہ شاہدی کی 100 رنز پارٹنر شپ اہم رہی۔ اس کے بعد آنے والے عظمت اللہ عمرزئی اور محمد نبی نے بہت اچھی ہٹنگ کی۔ دونوں نے تین تین چھکے لگائے۔ عمرزئی نے 41 رنز جبکہ محمد نبی نے 40 رنز بنائےمگر محمد نبی کا سٹرائیک ریٹ 166 رہا۔ نبی نے روٹ کے ایک اوور میں دو چھکے لگائے، اس اوور میں 23 رنز بنے۔ 
حقیقی مرد بحران ابراہیم زادران رہے، وہ سات ماہ تک انجری کا شکار رہنے کے بعد اپنی قومی ٹیم میں واپس آئے، ظاہر ہے زیادہ اچھی فارم میں نہیں تھے، مگر زادران نے ایک غیر معمولی اننگ کھیلی،141 کے سٹرائیک ریٹ سے 177 رنز بنائے۔ یہ اب تک چیمپینز ٹرافی میں کھیلی جانے والی سب سے بڑی اننگز ہے۔

زادران نے چھ چھکے اور بارہ چوکے لگائے۔ جوفرا آرچر کے ایک اوور میں زادران نے جو چھکا لگایا اسے ٹورنامنٹ کے بہترین شاٹس میں سے ایک کہا جا رہا، اس اوور میں جوفرا آرچر کی خاصی پٹائی ہوئی اور تین چوکے بھی لگے۔

زادران نے اپنی اننگز کے بعد انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بنیادی چیزوں پر کام کیا اور اس کا ثمر ملا۔ زادران نے پاکستان کے نامور بلے باز یونس خان کا تذکرہ کیا جو آج کل افغان ٹیم کے مینٹور ہیں۔
ابراہیم زادران کے مطابق انہوں نے یونس خان کے مشوروں پر عمل کیا۔ جب وہ یہ کہہ رہے تھے تو ہم لوگ دل مسوس کر رہ گئے۔

یہ خیال آیا کہ یونس خان جیسے بلے باز سے افغان ٹیم فائدہ اٹھا رہی ہے، مگر بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستانی ٹیم اپنے عظیم سپوت سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے سیاست ہی ہے۔ نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ افغانستان نے میدان مار لیا جبکہ پاکستان بہت برے انداز میں اپنے دونوں میچ ہار گیا۔ 

افغانستان کا پول مشکل ہے۔ وہاں سے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا اپنا ایک ایک میچ جیت چکے ہیں جبکہ ان کا باہمی میچ ڈرا گیا۔ دونوں کے تین تین پوائنٹس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان اگر آسٹریلیا سے اپنا اگلا میچ جیت گیا تو وہ سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ البتہ میچ ہارنے کی صورت میں وہ باہر ہوجائے گا۔ میچ بارش کی وجہ سے نہ ہوسکا پھر بھی آسٹریلیا کو ایک پوائنٹ مل جائے گا۔ 
افغانستان کے لیے ہر حال میں اگلا میچ جیتنا ضروری ہے، تب اس کے چار پوائنٹس ہوں گے۔ ایسی صورت میں جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کا میچ اہم ہوجائے گا۔ جنوبی افریقہ جیت گیا تو وہ پانچ پوائنٹ کےساتھ اپنے گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لے گا۔ جنوبی افریقہ ہار گیا تب اس کا آسٹریلیا کے ساتھ رن ریٹ کا چکر شروع ہوجائے گا۔ 
انگلینڈ بہرحال اس دوڑ میں نہیں، وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرح چیمپینز ٹرافی سے باہر ہوچکا ہے۔ پچھلے میچ میں بین ڈکٹ کی سنچری اور اس میچ میں جوروٹ کی سنچری بیکار چلی گئی۔ 
آج کے میچ میں دوتین باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ دباؤ میں آنے کے باوجود کس طرح کھلاڑی بنیادی چیزوں پر عمل کرتے ہوئے جرات کے ساتھ اپنی ٹیم کو میچ میں واپس لے آتے ہیں جیسا کہ ابراہیم زادران نے کیا۔ 
دوسرا یہ کہ کیسے اوس اور بیٹنگ پچ ہونے اور روٹ ، بٹلر کی عمدہ بیٹنگ کے باوجود کیسے جان لڑا کر فائٹ کی جاتی ہے۔ تیسرا یہ کہ افغان کھلاڑی کیسے متحدہو کرکھیلے۔ یہ ایک حقیقی ٹیم کی جنگ تھی۔ راشد خان سے لے کر حشمت اللہ اور محمد نبی سے فاروقی اور نوراحمد سے لے کر آخری اوور کرانے والے عظمت اللہ عمرزئی سب نے شیروں کی طرح فائٹ کی۔

عظمت اللہ عمرزئی کی بولنگ بھی شاندار رہی، اہم مواقع پر اس نے وکٹیں لیں، جوروٹ کو ایک بہت اچھی گیند پر آوٹ کیا۔ بٹلر اور اوورٹن کی وکٹیں بھی لیں۔ آخری اوور ایسا نپا تلا کرایا کہ انگلینڈ کے آخری بلے بازوں کے پاس کوئی موقعہ نہیں تھا۔ عمرزئی نے پاکستانی ٹیم کو یہ بتایا ہے کہ ایک حقیقی آل راؤنڈر کیسا ہوتا ہے۔ جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 41 رنز اور 10بہترین اوورز کی باولنگ۔ 
افغانستان نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ کیسے میچ لڑ کر جیتا جا سکتا ہے۔ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کے لیے سبق موجود ہے۔ ان سے بہت زیادہ ناتجربہ کار اور نئی ٹیم جو پہلی بار چیمپینز ٹرافی کھیلنے آئی ہے، اس نے کیسی شاندار کارکردگی دکھائی۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ سیمی فائنل میں پہنچ جائے اور پھر ایک اچھا دن انہیں آگے بھی لے جائے۔ ویل ڈن ٹیم افغانستان۔ 
  آج کے میچ میں قذافی سٹیڈیم میں لاہور کے کراؤڈ نے افغان ٹیم کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کیا۔ یوں لگا جیسے خاصے افغان بھی میچ دیکھنے آئے ہیں، مگر لاہوریوں نے بھی ان کے کھیل کر دل کھول کر سراہا۔

*وہ بے چاری بھوک سے مر گئی*

*✒️جاوید چوہدری*

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج سے نیچے اتریں تو آپ کو دائیں جانب تھانہ نیلہ ملے گا‘ اس تھانے میں یکم فروری کو ایک گم نام خط موصول ہوا جس میں انکشاف کیا گیا گھکھ گاؤں کی ایک حویلی میں ایک لڑکی اور لڑکا دو سال سے بند ہیں‘ کوئی خاتون ہر دوسرے دن کھڑکی کے ذریعے انھیں کھانا دے جاتی ہے‘ یہ دونوں آخری سانسیں لے رہے ہیں‘ یہ خط بارہ دن پولیس کی فائلوں میں گردش کرتا رہا‘ بہرحال قصہ مختصر 12 فروری کو پولیس گاؤں پہنچ گئی‘ گھکھ تھانہ نیلہ سے 25 کلومیٹر دور ہے‘ جنرل فیض حمید کی مہربانی سے گاؤں تک سڑک بن گئی تھی‘ پولیس حویلی تک پہنچی تو اسے حویلی کے ایک کمرے میں بستر پر ایک لڑکی کی نو دس دن پرانی لاش ملی۔

 لاش کے اوپر رضائیاں اور دریاں پڑی تھیں‘ لڑکی کی موت بظاہر بھوک اور سردی کی وجہ سے ہوئی تھی‘ وہ مکمل طور پر ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی‘ اس کا کل وزن 10 سے 15 کلو تھا‘ کمرے میں روٹی کے ٹکڑے بھی پڑے تھے جب کہ کونے میں لڑکی کا پاخانہ تھا، جو ثابت کرتا تھا وہ کمرے میں بول وبراز کرتی تھی‘ اس کے جسم پر پھٹے پرانے اور بدبودار کپڑے تھے، جن سے محسوس ہوتا تھا کہ اس نے سال ڈیڑھ سال سے کپڑے نہیں بدلے‘ بال اور ناخن بھی بڑھے ہوئے تھے اور لڑکی نے مدت سے غسل بھی نہیں کیا تھا‘ پولیس نے دوسرا کمرہ کھلوایا تو اس سے ایک نوجوان لڑکا ملا‘ وہ پولیس کو دیکھ کر چھپنے کی کوشش کرنے لگا‘ پولیس نے بڑی مشکل سے اسے یقین دلایا ہم تمہاری مدد کے لیے آئے ہیں‘ لڑکے کی حالت بھی خستہ تھی‘ جسم سے بدبو آ رہی تھی‘ بال گندے اور لمبے تھے اور ان میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں‘ اس کا جسم بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا‘ وہ نقاہت سے کھڑا تک نہیں ہو پا رہا تھا‘ یہ بھی بول وبراز کمرے میں کرتا تھا‘ اس کا کمرہ انتہائی خراب اور گندہ تھا‘ بستر بھی غلیظ تھا‘ پولیس فوری طور پر لاش اور نوجوان کو تھانے لے گئی۔

نوجوان کو گرم پانی سے غسل دیا گیا‘ بال اور ناخن تراشے گئے اور اسے نئے کپڑے پہنائے گئے‘ اسے اچھی خوراک بھی دی گئی‘ یہ برسوں کا بھوکا تھا ۔ لہٰذا یہ جانوروں کی طرح خوراک پر پل پڑا‘ نوجوان کی طبیعت ذرا سی سنبھلی تو اس نے ہول ناک اسٹوری سنائی‘ اس کے والد کا نام چوہدری زرین تاج تھا‘ وہ شریف آدمی تھے‘ گاؤں کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے‘ دو سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا‘ والدہ کا انتقال ان سے پہلے ہو چکا تھا‘ نوجوان کا نام حسن رضا ہے‘ اس کی عمر 32 سال ہے‘ لڑکی اس کی بہن تھی اور اس کا نام جبین تھا‘ عمر 25 سال تھی‘ لڑکی نے بی ایس سی کر رکھا تھا اور میٹرک میں اس نے راولپنڈی ریجن میں ٹاپ کیا تھا‘ وہ انتہائی محنتی اور ذہین بچی تھی‘ دونوں بہن بھائیوں کو وراثت میں 950 کنال زمین ملی‘ زمین زرخیز اور قیمتی تھی‘ والدین کے بعد بہن بھائی اکیلے رہ گئے۔

 ان کے تایا کے بیٹے تعداد اور اثر ورسوخ میں زیادہ تھے ۔ لہٰذا تایا زاد چوہدری عنصر محمود نے اپنے بھائیوں اشرف اور شکیل کی مدد سے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا اور دونوں بہن بھائی کو پاگل مشہور کر کے حویلی میں بند کر دیا‘ یہ علاج کے نام پر انھیں ایسی دوائیں بھی دیتا رہتا تھا جس سے ان کا ذہنی توازن بگڑ جائے یا یہ فوت ہو جائیں‘ دونوں بہن بھائی کو دو سال دو مختلف کمروں میں بند رکھا گیا‘ انھیں کپڑے دیے جاتے تھے اور نہ گرمیوں میں پنکھا اور سردیوں میں رضائی‘ کھڑکی سے ان کے کمرے میں روزانہ ایک ایک روٹی اور تھوڑا سا سالن اندر پھینک دیا جاتا تھا‘ یہ بول وبراز بھی کمرے میں کرتے تھے‘ ملزم بااثر تھے‘ مسلم لیگ ن کے ایم این اے ذوالفقار دلہہ کے رشتے دار بھی تھے اور سپورٹر بھی، چناں چہ گاؤں کے لوگوں نے ڈر کر ہونٹ سی لیے اور خاموشی سے یہ ظلم دیکھتے رہے‘ اس دوران زمین تایا زاد بھائیوں کے قبضے میں رہی‘ یہ اس پر کھیتی باڑی بھی کراتے رہے اور انھوں نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بھی بیچ دیے۔

 لڑکی جبین طویل ظلم برداشت نہ کر سکی ‘ یہ فروری کے شروع میں فوت ہو گئی اور اس کی لاش 9 دن کمرے میں پڑی رہی، جب کہ لڑکا زندگی کی سرحد پر بیٹھ کرموت کا انتظار کر رہا تھا‘ یہاں تک کہ گاؤں کے کسی شخص کو ان پررحم آ گیا اور اس نے تھانے میں گم نام خط لکھ دیا‘ بہن بھائی کی دوسری خوش نصیبی نیا ڈی پی او تھا‘ احمد محی الدین ٹرانسفر ہو کر چکوال آ گیا‘ یہ ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکر بھی ہے۔


 احمد محی الدین کے نوٹس میں جب خط آیا تو اس نے فوری طور پر پولیس ایکشن کا حکم دے دیا۔ یوں دونوں بہن بھائی مل گئے‘ ڈی پی او اب علاقے کے بااثر لوگوں کا دباؤ برداشت کر رہا ہے‘ نوجوان حسن رضا پولیس کی حفاظت میں ہے‘ یہ ٹراما کا شکار ہے ‘ پولیس اس کا علاج بھی کرا رہی ہے اور اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے‘ یہ اس واقعے کا واحد گواہ اور مدعی ہے ۔ اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہو گیا تو پھر ملزمان بڑی آسانی سے بری ہو جائیں گے‘ پولیس نے پہلے مرکزی ملزم عنصر محمود اور پھر اس کے دونوں بھائیوں اشرف اور شکیل کو گرفتار کر لیا‘ ملزم اس وقت ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔

چکوال کے اس واقعے کے دو ورژن ہیں‘ پہلا ورژن میں بیان کر چکا ہوں‘ یہ ورژن جب سامنے آیا تو میڈیا گھکھ گاؤں پہنچ گیا‘ رپورٹرز اور کیمرے دیکھ کر گاؤں کے لوگوں نے گھروں کے دروازوں پر باہر سے تالے لگائے اور چھپ کر اندر بیٹھ گئے‘ اس کا مطلب ہے لوگ ملزموں کے اثر میں ہیں اور کسی میں ان کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں ۔ اگر ملزموں پر غلط الزام تھا تو لوگوں کو گواہی دینی چاہیے تھی اور اگر الزام سچا تھا تو بھی لوگوں کو بولنا چاہیے تھا لیکن لوگ غائب ہو گئے‘ ان کا غائب ہو جانا بھی ایک ثبوت ہے‘ دوسرا ورژن یہ دونوں بہن بھائی پاگل ہیں‘ یہ لوگوں پر حملے کر دیتے تھے‘ پتھر بھی مارتے تھے اور ڈنڈوں سے بھی لوگوں پر حملہ کرتے تھے، لہٰذا ان کے کزنز نے انھیں حویلی میں بند کر کے ان کا علاج شروع کرا دیا‘ یہ ان کی ٹیک کیئر بھی کرنے لگے‘ یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔


اگر یہ لوگ ذہنی مریض تھے تو پھر لڑکی نے میٹرک میں پوزیشن کیسے لے لی اور یہ اچھے نمبروں سے بی ایس سی کیسے کر گئی‘ دوسرا اگر کزنز ان کا علاج کر رہے تھے یا ان کی ٹیک کیئر کر رہے تھے تو پھر یہ کس قسم کا علاج اور کیئر تھی جس میں دونوں کو حویلی کے کمروں میں بند کر دیا گیا تھا اور انھیں کپڑے اور ضروریات کا سامان تک نہیں دیا جا رہا تھا‘ یہ کمرے ہی میں بول وبراز کرتے تھے‘ دو سال پرانے‘ گندے اور بدبودار کپڑے پہنتے تھے اور انھیں کھڑکی سے خشک روٹی اور تھوڑا سا سالن ملتا تھا ۔ اگر یہ علاج اور کیئر ہے تو پھر ظلم اور زیادتی کیا ہو گی؟ آپ لڑکی کی لاش کو بھی اس سوال میں شامل کر لیں‘ لڑکی کو مرے ہوئے سات سے نو دن ہو گئے تھے لیکن کیئر اور علاج کرانے والوں نے اس کی تدفین مناسب سمجھی اور نہ انھیں اس کی موت کی اطلاع ملی۔

 ان بے چاروں کو غسل تک نہیں کرایا جاتا تھا اور ان کے بال اور ناخن بھی نہیں تراشے جاتے تھے‘ کیا اس کو کیئر کہا جا سکتا ہے؟ اور تیسرا سوال علاج اور اس کیئر کے دوران ان کی جائیداد اور زمین کس کے قبضے میں رہی‘ وہ کون تھا جس نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بیچ دیے اور ان کی 950 کنال زمین پر کاشت کاری کرتا رہا‘ میرا خیال ہے اگر ان سوالوں کے جواب تلاش کر لیے جائیں تو کیس کا فیصلہ ہو جائے گا‘ میں یہاں ایک اور بات کا اضافہ بھی کرتا چلوں‘ آپ کسی بھی نارمل شخص کو سال چھ ماہ کسی کمرے میں بند کر دیں وہ پاگل ہو جائے گا، لہٰذا ملزمان کے لیے حسن رضا کو پاگل ثابت کرنا بہت آسان ہے اور یہ لوگ کسی بھی وقت اچھا وکیل کر کے اس بے چارے مظلوم کو عدالت میں پاگل ثابت کر کے رہا ہو جائیں گے۔

ہم اگر اس واقعے کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں‘ اول ہم انسانوں کا معاشرہ نہیں ہیں ۔ یہاں انسانی شکل میں ایک سے بڑھ کر ایک درندہ پھر رہا ہے اور جب اس کے اندر سے جانور باہر آتا ہے تو یہ جنگلوں کو بھی شرما دیتا ہے‘ دوم‘ والدین صاحب جائیداد اور رئیس ہوں تو پھر انھیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی تگڑا بنانا چاہیے‘ حسن رضا اور جبین کے والد کو اگر احساس ہوتا تو یہ ان کے سروں پر کوئی ایسا آسرا چھوڑ جاتا جو ان کی حفاظت کرتا رہتا‘ میرا خیال ہے والد اپنے بھتیجوں کے عزائم کا ادراک نہیں کر سکا ہو گا جس کے نتیجے میں اس کی اولاد کزنز کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہ گئی اور سوم ہماری پولیس اور حکومت کے سسٹم میں بے شمار خرابیاں ہیں‘ ہم آج تک کوئی ایسی ہیلپ لائن‘ پورٹل یا کوئی ایسا ایڈریس تخلیق نہیں کر سکے جہاں لوگ گم نام خط لکھ کر دائیں بائیں ہونیوالے مظالم یا جرائم کی اطلاع دے سکیں۔

مریم نواز کو چاہیے یہ فوری طور پر جبین کے نام سے ایک ہیلپ لائین تخلیق کر دیں اور تمام موبائل فون کمپنیوں کو پابند کر دیں۔ یہ ہیلپ ایپ ان کے پیکیج کا حصہ ہو گی‘ حکومت یہ بھی ڈکلیئر کر دے اس ہیلپ لائن پر فون کرنے والے شخص کا نام‘ نمبر اور پتہ ہمیشہ راز رہے گا‘ اسے کسی جگہ گواہی کے لیے بھی نہیں بلایا جائے گا تاکہ لوگ ظلم کے خلاف بے خوف ہو کر سیٹی بجا سکیں اور آخری بات‘ یہ ہیں ہم اور ہمارا سماج لیکن ہم اس سماج کے ساتھ اس ملک میں فرشتوں کی حکومت چاہتے ہیں‘ کیا یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

*🔴لیجنڈز لیگ: بھارتی ہٹ دھرمی برقرار، پاکستان کیخلاف سیمی فائنل کھیلنے سے انکار*BBC PK News

انگلینڈ میں جاری ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز (ڈبلیو سی ایل) کے میچز کے ساتھ ساتھ بھارت کی ہٹ دھرمی کا سلسلہ بھی برقرار ہے، بھارت نے...