جمعرات، 27 مارچ، 2025

پنجاب کی گواہی، لاہور کی گواہی عامر خاکوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنجاب گیارہ کروڑ آبادی پر مشتمل صوبہ ہے، BBC PK

اس میں کم از کم بھی کروڑ کے لگ بھگ لوگ فیس بک پر ہوں گے ، یہ سب لوگ ایک جگہ بیٹھ کر پلاننگ کر کے پوسٹیں نہیں کیا کرتے۔ یہ بات پنجاب سے باہر دوسرے صوبوں کے لوگوں کو سمجھنا ہوگی۔ پنجاب چونکہ بڑا صوبہ ہے، یہاں پر مختلف سیاسی، مذہبی، مسلکی ، گروہ رہتے ہیں، سیاسی جماعتیں بھی کئی ہیں، ہر ایک کا اپنا ووٹ بینک، حمایتی، مداحین ہیں۔ پنجاب میں بہت زیادہ برادریاں بھی ہیں، مختلف زبانیں بولنے والے بھی۔ اس لئے اگر کسی ایشو میں کچھ لوگ متنازع پوسٹیں کریں تو انہیں پورے پنجاب کا نمائندہ نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ پنجاب میں ایک پنجابی شاونسٹ گروہ بھی ہے جنہیں سرائیکی شناخت سے بھی مسئلہ ہے اور وہ ان کے خلاف بھی زہریلی پوسٹیں لگانے سے باز نہیں آتے ۔ پنجاب کی ایک سیاسی جماعت نے ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی کمپین چلائی اور گھٹیا غیر شائستہ حملے کرتے رہے، وہ بھی پنجاب کا یا پنجابیوں کا حملہ نہیں تھا۔ وہ صرف اس جماعت کی ڈرٹی میڈیا کمپین تھی۔ پھر جب عمران خان وزیراعظم تھے تو ان کی اہلیہ کے بارے میں بھی ویسے ہی ڈرٹی کمپین چلائی گئ، وہی پنجاب کی جماعت اس میں پیش پیش تھی، حتیٰ کہ ان کی خواتین رہنمائیں بھی۔ وہ کمپین بھی مگر پنجاب کی نمائندہ نہیں۔ اب آج کل ایک اور جماعت کے بعض حامی پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کے خلاف بھی اسی انداز کی ڈرٹی کمپین چلاتے ہیں، غیر شائستہ جملے، ناموزوں حملے، گھٹیا سکینڈل وغیرہ۔ یہ بھی غلط ہے۔ بے شک ماضی میں اسی خاتون سیاستدان نے بھی غیر شائستگی کی انتہا کر دی تھی اور عمران خان کی اہلیہ کے بارے میں غیر ضروری ذاتی اٹیک کئے تھے، تاہم غلط غلط ہی ہے۔ مظلوم کو بھی یہ حق نہین کہ وہ ظلم کرے۔ جس طرح بی بی کے خلاف ذاتی حملے غلط تھے، جس طرح بشریٰ بی بی کے خلاف ذاتی حملے غلط تھے، اسی طرح مریم نواز شریف کے خلاف ایسی حرکتیں بھی غلط ہیں۔ بالکل اسی طرح ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خلاف بھی ایسی ڈرٹی کمپین، ٹرول کرنے کے حربے ، ذات اور شخصیت پر غیر شائستہ حملے غلط ہیں۔ ہر اعتبار سے غلط ہیں۔ اس کی کھل کر غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے ۔ ہم ہر قسم کی غیر شائستہ، ڈرٹی کمپین کے خلاف ہیں۔ یہ مردوں کے خلاف بھی نہ ہوں،خواتین کے خلاف تو ہرگز نہیں۔ ہم پنجاب کے لوگ خواتین کا احترام کرتے ہیں۔ بلوچ خواتین تو مزید قابل احترام ہیں کہ وہ ایک مشکل اور پریشان کن حالات والے صوبے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے اگر کچھ خواتین سیاست کرتی ہیں، باہر آ کر آواز بلند کرتی ہیں تو انہیں اس کا حق ہے۔ پرامن سیاسی جدوجہد کرنا ان کا حق ہے۔ البتہ ان کے سیاسی موقف، ان کی طرز سیاست کا ہم تجزیہ کر سکتے ہیں، اس پر تنقید کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارا حق ہے۔ ان کا احترام مگر ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی پالیٹکس سے مجھے اختلاف ہے، شدید اختلاف، تاہم ان کی پرامن سیاست کرنے کے حق کا میں احترام کرتا ہوں، اس کی وکالت کروں گا۔ ماہ رنگ بلوچ کے ٹرولنگ کی میں غیر مشروط اور کھلی مذمت کرتا ہوں۔ یہ غلط ، ناجائز اور شرمناک ہے۔ ایسے لوگوں کو کچھ شرم اور حیا کرنی چاہیے ۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ایسی کمپین چلانے والے پنجاب کے نمائندہ نہیں۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ جس کسی نے اپنے مخالف کی خواتین کو ہدف بنایا، پنجاب میں اسے ناپسند کیا گیا، اس سے بیزاری اختیار کی گئی۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو والے معاملے میں ہوا، بشریٰ بی بی والے معاملے میں ہوا، حتیٰ کہ مریم نواز کے خلاف ایسی پوسٹوں کو بھی ناپسند کیا گیا۔ یہی رویہ اب ماہ رنگ بلوچ کے حوالے سے بھی پنجاب میں پایا جاتا ہے۔ اس لئے براہ کرم، کچھ لوگوں کی پوسٹوں کو، چند شاونسٹوں کے زہریلے حملوں کو کروڑوں پنجاب واسیوں کی نمائندگی نہ سمجھیں۔ پنجاب پولیس میں بہت سی خامیاں ہوسکتی ہیں، پنجابی اشرافیہ پر تنقید ہوسکتی ہے، پنجاب کا عام آدمی مگر خواتین کا احترام کرتا ہے۔ پنجاب کا روایتی کلچر، لاہور کا کلچر، خاص کر اندرون لاہور اور پرانے لاہوریوں کا کلچر اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ خواتین کی ٹرولنگ کی جائے، ان کی تضحیک ہو۔ میں جس کا بچپن، جوانی احمد پورشرقیہ، بہاولپور میں گزری، لاہور کی جم پل نہیں، مگر لاہور میں گزرے پچھلے اٹھائیس انتیس برسوں میں یہی دیکھا ہے اور میں اس کی گواہی دینا چاہتا ہوں۔ اسے لاہور کی گواہی، پنجاب کی گواہی سمجھا جائے ۔ (عامر خاکوانی، پچیس مارچ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں