منگل، 15 اپریل، 2025

بارش کے پانی کے تحفظ کا موثر ۔نظام انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف بی بی سی پاکستان ملاحظہ فرمائیں:

بنگلور کے سافٹ ویئر انجینئر اور ماحولیاتی ماہر گنیش شنبھگ نے اپارٹمنٹ کمپلیکسز کی مدد کی ہے تاکہ وہ مہنگے پانی کے ٹینکروں پر انحصار کم کر سکیں، اس کے لیے انہوں نے مؤثر بارش کے پانی کے تحفظ (Rainwater Harvesting - RWH) کے نظام متعارف کروائے ہیں۔ ان کے اس انقلابی طریقے نے کئی کمیونٹیز کے لیے پانی کی بچت اور مالی لحاظ سے فائدہ مند نتائج حاصل کیے ہیں۔گنیش کا پانی کی بچت میں سفر 2018 میں شروع ہوا جب ان کے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے بور ویل خشک ہو گئے، جس کے نتیجے میں رہائشیوں کو مہنگے پانی کے ٹینکروں پر انحصار کرنا پڑا۔ ایک پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے انہوں نے بارش کے پانی کے تحفظ کا نظام اپنایا۔ شروع میں پڑوسیوں نے اس کی قیمت اور پیچیدگی کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا، لیکن گنیش نے اپنے 100 فلیٹ والے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے لیے ₹3 لاکھ سے کم قیمت پر RWH سسٹم کامیابی سے لگایا۔ اس کے نتائج شاندار رہے: دو مہینوں کے اندر، انہوں نے پانی کے بلوں میں ₹2 لاکھ کی بچت کی اور ٹینکروں پر انحصار میں کمی کی۔ گنیش کا RWH ماڈل بارش کے پانی کو جمع کرکے فلٹر کرتا ہے تاکہ اسے روزمرہ کے استعمال کے لیے قابل بنایا جا سکے۔اس عمل میں شامل ہیں:جمع اور ذخیرہ: بارش کا پانی چھتوں سے جمع کیا جاتا ہے اور PVC گٹرز کے ذریعے ڈاؤن پائپس میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ معتدل بارش میں بھی زیادہ سے زیادہ پانی جمع ہو سکے۔پہلا فلٹر: 'فرسٹ فلاش' سسٹم ابتدائی پانی کو ہٹاتا ہے جس میں مٹی اور ملبہ شامل ہوتا ہے، اس کے بعد ایک جال سے بڑے ذرات صاف کیے جاتے ہیں۔اعلیٰ فلٹریشن: ایک سلسلے کے ڈسک فلٹر پانی کو مزید صاف کرتے ہیں، اور ایٹموسفیرک اوزون جنریٹر یہ یقینی بناتے ہیں کہ پانی معیاری ہو۔ذخیرہ اور تقسیم: صاف پانی زیرِ زمین ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے اور گھریلو استعمال کے لیے اوور ہیڈ ٹینکوں میں پمپ کیا جاتا ہے۔زیرِ زمین پانی کا تحفظ: اضافی پانی کو دوبارہ بھرنے کے لیے مخصوص جگہوں پر منتقل کیا جاتا ہے تاکہ مقامی پانی کی سطح دوبارہ بحال ہو سکے۔اپنے اپارٹمنٹ میں کامیاب تجربے کے بعد، گنیش نے اپنی مہارت کو بنگلور کے دوسرے رہائشی کمیونٹیز میں بھی منتقل کیا۔ اب تک، انہوں نے 300 سے زائد اپارٹمنٹ کمپلیکسز میں اس طرح کے RWH سسٹمز کو متعارف کروایا ہے اور اس کے لیے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ ان کی کوششوں سے نہ صرف ان کمیونٹیز کو مالی فائدہ پہنچا بلکہ شہر کے زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا۔کمیونٹی کی شمولیت اور پہچانگنیش کی محنت کو سراہا گیا ہے۔ وہ "آئی لِو سمپلی" تحریک کے بنگلور چیپٹر کے بانی رکن اور "ورلڈ آف واٹر ایکشن فورم" کے اہم ایگزیکٹو رکن ہیں، جہاں وہ موسمیاتی تبدیلی اور خاص طور پر پانی کی بچت کے مسائل پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کام اس بات کی مثال ہے کہ کیسے انفرادی کوششیں شہری پانی کی کمی کو حل کر سکتی ہیں اور وسیع کمیونٹی کی تحریک کو جنم دے سکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی پانی کا مسئلہ دن بدن بڑھ رہا ہے، خاص طور پر شہروں میں جہاں پانی کی فراہمی اور ذخیرہ کرنے کے طریقے محدود ہیں۔ گنیش کے ماڈل کو اپنانا پاکستان کے مختلف شہروں میں، خاص طور پر بڑے شہروں میں، ایک بہت اچھا حل ہو سکتا ہے۔ پانی کے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے اس طرح کے بارش کے پانی کے تحفظ کے نظام متعارف کروا کر ہم نہ صرف پانی کی بچت کر سکتے ہیں بلکہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو بھی بھر سکتے ہیں۔ یہ ایک قابل عمل، کم لاگت اور پائیدار حل ہے جس سے نہ صرف مالی بچت ہو سکتی ہے بلکہ ماحولیاتی مسائل کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔منقول ۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں