اتوار، 1 جون، 2025

انجنیئر جئدیو مھیشوری ایگزیکٹو بیورو چیف ڈیلی بی بی سی پاک نیوز ماہرین حیاتیات کی ایک نئی تحقیق سے یہ حقیقت ایک پھر ابھر کر سامنے آئی ہے کہ انسان مسلسل ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے اور یہی ارتقائی تبدیلیاں لمبے ٹائم اسکیل پر ایک نوع کو بالکل تبدیل کرکے نئے انواع میں ڈھالتی ہیں۔ BBC PK News Karachi Jaidev baeruo chief executive Report

یہ تحقیق اس حیاتیاتی ڈیٹا کی مدد سے مکمل کی گئی ہے جو تبت کے سطح مرتفع کی انسانی آبادیوں سے لی گئی ہیں، جہاں آکسیجن کی مقدار سمندر کی سطح کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہے۔ یہاں کے مقامی باشندوں کے جسموں نے ہزاروں سال کے دوران کچھ حیرت انگیز تبدیلیاں اختیار کرلی ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ تبت کے لوگوں کی جینز میں خاص قسم کی تبدیلیاں (EPAS1 اور EGLN1 جینز) وقوع پذیر ہوئی ہیں جو خون میں آکسیجن کی مقدار کو متوازن رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کی تولیدی کامیابی نے ان مفید جینیاتی خصوصیات کو آنے والی نسلوں تک پہنچایا ہے۔ یہ منفرد ارتقائی عمل صرف تبت تک محدود نہیں۔ بحیرہ سولاوسی کے غوطہ خور باجاؤ قبیلے اور آرکٹک کے انوئٹ باشندے بھی اپنے ماحول کے مطابق ڈھل چکے ہیں۔ یہ تمام مثالیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انسان کا ارتقائی سفر ابھی اختتام کو نہیں پہنچا، بلکہ ہم اپنے ماحول کے مطابق ڈھلنے کی دوڑ میں ہنوز سرگرم عمل ہیں۔ قدرت کا یہ نرالا کرتب جاری و ساری ہیں۔منقول ۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں