یہ حقیقت پر مبنی دردناک داستان، ظلم اور خودغرضی کے سیاہ الفاظ سے لکھی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت دلوں کی زمین پر اگتی ہے، لیکن اس کے پھل کے لیے خلوص، سچائی اور قربانی کی آبیاری ضروری ہوتی ہے۔ مگر جب دل زنگ آلود ہو جائیں تو وہاں چاہتیں نہیں، سانحات جنم لیتے ہیں۔
یہ کہانی بھی ایسی ہی ایک ادھوری خواہش کی ہے، جو محبت کے بستر پر نہیں، مفاد پرستی کی چھری کے نیچے ذبح ہو گئی۔
پانچ سال قبل ایک اکیڈمی میں دو نوجوان دل ایک دوسرے میں کھو گئے۔
ایک طرف تھا عثمان، جذبات سے عاری، بے رحم نوجوان… اور دوسری جانب تصویر میں نظر آنے والی یہ بے رحم لڑکی، جس کا نام شاید اس لیے پردے میں ہے کہ کبھی کبھی جرم سے زیادہ ندامت کا بوجھ سنگین ہوتا ہے۔
ان دونوں نے خواب دیکھے تھے: ہمسفر بننے کے، دنیا کو ساتھ چھوڑنے کے۔ لیکن تقدیر کے دھاگے ہمیشہ سچے جذبوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتے، اکثر وہ انا کی مٹھی میں جکڑے ہوتے ہیں۔
عثمان کے والدین نے صاف کہہ دیا:
"ہم خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔"
یوں جذبات کی دنیا کو رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ عثمان کی شادی اس کی تایا زاد سے ہوئی، اور لڑکی کو چچا زاد کے ساتھ باندھ دیا گیا۔
نئی زندگیاں شروع ہو گئیں، مگر ماضی کے لمس دل سے مٹ نہ سکے۔ اور پھر… شاید محبت نفرت کا زہر بن کر اندر ہی اندر پھیلنے لگی۔
عثمان نے درندگی کی آخری حد پار کرتے ہوئے اپنی بیوی کو بے ہوشی کی دوا دے کر غسل خانے میں لے جا کر اس کے سر پر وار کیا۔
ایک دلدوز چیخ، آخری سانس… اور ایک بے گناہ جان ظلم کی بھینٹ چڑھ گئی۔
مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔
وہ لڑکی بھی خاموش نہ رہی۔ اس نے انتقام کی راہ چنی، اور ایک دن اپنے شوہر کے کھانے میں زہر ملا دیا۔
دو جنازے اٹھے، دو خاندان صف ماتم پر بیٹھے، اور دو زندگیاں وقت کی بے رحم لہروں میں بہہ گئیں۔
لوگ سمجھے شاید کہانی تمام ہو گئی…
مگر سازش ابھی باقی تھی، زہر ابھی مکمل طور پر بہا نہیں تھا۔
لڑکی کے والدین نے اُسے دوسری بار بیاہ دیا۔
لیکن پرانی آگ دل میں جلتی رہی، پرانا عشق ابھی بھی سانسیں لے رہا تھا۔
نئی سازش کی بنیاد رکھی گئی — ایک تفریحی سفر کی آڑ میں مری کی برفانی وادیوں میں دوسرے شوہر کو سابقہ عشق کی بھینٹ چڑھانے کا منصوبہ۔
لیکن تقدیر نے ایک بار پھر مداخلت کی۔
شاید ضمیر نے آواز دی، یا کسی قریبی نے شک کیا — اور یوں اس راز نے تھانے کی فائل میں جگہ بنا لی۔
اعتراف جرم ہوا، اور وہ لڑکی آج سلاخوں کے پیچھے ہے۔
ایک ایسی عورت جو کبھی محبت کی علامت تھی، آج بربادی کی مثال بن چکی ہے۔
اگر یہ سب کچھ سچ ہے، تو مجھ پر اختیار ہوتا تو صرف قاتلوں کو نہیں بلکہ ان کے والدین کو بھی قانون کے کٹہرے میں لاتا، جن کی ضد اور انا نے دو بے گناہ جانوں کو قبر میں اتار دیا۔
ذرا سوچیے…
اگر والدین اُس وقت اپنی انا کو دفن کر دیتے، بچوں کے جذبات کو سمجھ لیتے، تو شاید دو گھر آج سلامت ہوتے۔
دو نوجوان زندگی کے سفر پر ہوتے، اور یہ لڑکی عبرت کا نمونہ نہ بنتی۔
یاد رکھیں:
محبت کو قید میں مت ڈالیے۔
اولاد کی مرضی کو جکڑ کر جرم کی بنیاد مت رکھیے۔
ان کی پسند کو تھوڑی سی عزت دے دیجیے،
کیونکہ اکثر وہ لوگ جو محبت کی زمین پر زبردستی کی فصل اگانے کی کوشش کرتے ہیں،
ان کے آنگن میں جنازے اگ آتے ہیں۔
تحریر نو: از چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور بازگشت کے ساتھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں