از🖋 زرش نور
قسط نمبر ا
وہ اس وقت تیز تیز قدموں کے ساتھ چل رہی تھی وہ آفس کے لئے لیٹ ہو رہی تھی۔ اسے اس کمپنی میں کام کر تے ہوۓ ابھی ایک ماہ ہوا تھا۔ اس لئے وہ کسی قسم کی کو تائی کر کے یہ جاب کھونا نہیں چاہتی تھی۔
وہ ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی جہاں پر الیکٹرونکس کی اشیاء تیار کی جاتی تھی اس کا کام روزانہ کی بنیاد پر بننے والی چیزوں میں استعمال ہونے والے چھوٹے بڑے پرزوں کی روزانہ کی فائل تیار کرنی ہوتی ہے۔ اس لئے یہاں چھٹی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پر اسے جاب اس کی ایک انڈین دوست نیدی سیکسینا کی وجہ سے ملی ہے جو کے یہاں پچھلے سات سال سے کام کر رہی ہے۔
***********
یشال کیسا رہا آج کا دن ؟؟
بس یار ٹھیک تھا ایک تو میں صبح صبح لیٹ ہو گئی ہوں اوپر سے مینیجر کی ڈانٹ بھی کھائی۔
چلو خیر کوئی بات نہیں جہاں کام کرتے ہیں وہاں ایسی چھوٹی موٹی باتیں تو برداشت کرنی پڑھتی ہیں نہ۔
ہمم کہہ تو تم صیح رہی ہو۔
جلدی چلو نیدی سالار بھیا گھر پہنچ چکے ہیں اور میں نے ان کے لئے کھانا بھی بنانا ہے۔
اوکے چلتےہیں ۔ اب اپنا سالار نامہ نہ کھول دینا۔
یشال کھلکھلا کر ہنس دی نیدی تم سالار بھیا سے جیلس ہوتی ہو۔
یہ لو جی تم میرا بواۓ فرینڈ تھوڑا ہی ہو جو میں تم اور اس سے جیلس ہوں گی۔
میں نہ سہی سالار بھیا تو ہو سکتے ہیں نہ۔
توبہ کرو تمہارے بھائی نے تمہارے منہ سے یہ سب سن لیا نہ تو ہماری خیر نہیں وہ تو تمہیں ہمارے ساتھ پتہ نہیں کیسے بیٹھنے دیتا ہے تو۔
نہیں جی سالار بھیا بہت آچھے ہیں اور جیسا تم ان کا نقشہ کھینچ رہی ہو وہ ایسے بالکل بھی نہیں ہیں۔
ہاں جی ایک دن میں گئی تھی تم لوگوں کے فلیٹ پر دروازہ کھول کر روکھا پھیکا سا پوچھتا ہے۔
جی کس سے ملنا ہے آپ کو؟
جب میں نے تمہارا نام لیا تو مجھے سر سے پاؤں تک اےسے دیکھنے لگا جیسے میں کوئی چڑیل ہوں۔
یشال نے ہنسنا شروع کر دیا!
پتہ ہے مجھے کیا کہہ رہے تھے؟
کیا؟
یشی تم نے کب سے ایسی دوستیں بنانا شروع کی ہیں۔
پھر تم نے کیا کہا۔
میں نے کہا آچھی بھلی تو ہے بےچاری بس تھوڑی سی بونگی ہے۔
نیدی کو پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی جب آئی تو اس نے ہاتھ میں پکڑی فائل سے یشال کو مارنا چاہا لیکن یشال پہلے ہی سمجھ گئی تھی اس نے اس کے نشانہ لگانے سے پہلے ہی بھاگنا شروع کر دیا۔
یشال بھاگتے ہوۓ کسی سے ٹکرائی اور اسےایسے لگا جیسے کسی پتھر سے سر پھوڑ لیا ہو۔
اگلا بندہ بھی بہت ہی کوئی کھڑوس تھا بولا میڈم ہوش سے یہ آپ کا گھر نہیں ہے جو ادھر ادھر ٹکراتی پھر رہی ہیں۔
میرا گھر نہیں ہے تو آپ کا بھی گھر نہیں ہے روڈ ہے یہ اور یہاں جس کاجیسے دل کرے گا وہ چلے گایشال نے بھی کوئی لحاظ کیے بنا کہا۔
رونی اس وقت جلدی میں تھا نہیں تو وہُ اس لڑکی کا دماغ ٹھکانے لگاتا۔
تھوڑا سا آگے جا کر پلٹا اور اپنی جیب سے ایک ماسک نکال کے اس کی طرف بڑایا ۔ ماسک پہن کے باہر نکلو کرو لڑکی۔
یہ کہہ کے وہ چلا گیا! اور ماسک یشال نے جلدی سے پہن لیا ۔
اپنی گاڑی میں بیٹھ کر رونی نے ایک نظر اپنے سائیڈ مرر میں اس لڑکی پر ڈالی اور بولا جلد ہی دوبارہ ملیں گے
ناول ""روح رایان "
از 🖋 زرش نور
قسط نمبر ۲
رونی اگلے آدھے گھنٹے میں تم مجھے گھر پر ملو
its your last warning
لیکن ماشہ میں اس وقت میٹنگ میں ہوں ۔
رونی تم پہنچ رہے ہو یا نہیں "ہاں اور نہ" میں جواب دو۔"
اوکے پہنچ رہا ہوں ۔
کال بند کر کے رونی انگلی سے اپنی پیشانی سہلانے لگا ۔
کیا ہوا سر؟ سالار نے رونی کو سوچ میں ڈوبا دیکھا تو پوچھ لیا۔
سالار مجھے کسی کام سے جانا ہے ۔ تو تم یہ میٹنگ اٹینڈ کرو گے۔
اوکے سر نو پرابلم۔
***********
رونی اس وقت ماشہ کے فلیٹ کے باہر کھڑا تھا اس نے ابھی گھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کے دروازہ کھل گیا۔رونی سلام کر کے اندر داخل ہوا۔ سلام کا جواب عفان کی طرف سے آیا تھا۔ وعلیکم سلام سالے صاحب ! آج کیسے راستہ بھول گئے؟
یار تُو تو آگ نہ لگا پہلے ہی جلنے کی بو آ رہی ہے۔
اس کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کے ایک کشن اڑتا ہوا آ یا جسے رونی نے کیچ کر لیا۔عفان سے مغداد کو لے کر رونی کچن میں چلا آیا ۔ جہاں ماشہ کھانا بنا رہی تھی۔
آج کیا بنا ہے؟ رونی نے خود ہی ایک پین کا ڈھکن اٹھا کر دیکھنے لگا۔یار بہت بھوک لگ رہی ہے جلدی سے کھانا دو۔
رونی اپنی عادت کے خلاف بہت سے سوالات کر چکا تھا ماشہ سے لیکن جواب ندارد۔
اب رونی خاموش ہو کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
آجاؤ آپ لوگ کھانا کھا لو۔ ماشہ نے اسے مخاطب کیے بغیر کہالیکن اب رونی کی باری تھی وہ اٹھ کر نہیں گیا اور عفان کو مخاطب کر کے بولا میں نے کھانا نہیں کھانا۔
اب ماشہ کو بھی احساس ہوا کے بہت ہو گئی ناراضگی وہ آ کر رونی کے پاس بیٹھ گئی۔
کیوں نہیں آۓ اتنے دن سے؟"ماشہ نے نرمی سے پوچھا۔"
یار بہت بزی تھا تم جانتی ہو نہ۔
اور کال کیوں نہیں کی؟
اس کے لئے سوری۔
جانتے ہو نہ ماں باپ نہ ہوں تو بہنوں کے لئے سب کچھ بھائی ہی ہوتے ہیں۔
جی رونی نے اثبات میں سر ہلایا وہ کوئی وضاحت نہیں دینا چاہتا تھاکیوں کے پھر اسے آدھا گھنٹہ اور لیکچر سننا پڑتا۔
وہ رونی کو بازو سے پکڑ کر کھانے کے ٹیبل پر لے آئی۔
ماشہ اور رونی دوہی بہن بھائی تھے۔ ان کا باپ پاکستانی جب کے ماں سنگاپورین تھی۔وہ دونوں پاکستان کبھی نہیں گئے ان کا باپ ان کی ماں کو چھوڑ کر جو پاکستان گیا تو واپس لوٹ کر نہیں آیا۔ پانچ سال پہلے ان کی ماں بھی فوت ہو گئی۔
عفان ایک پاکستانی تھا جو کے روزگار کی تلاش میں سنگاپورآیا وہ رونی کی کمپنی کی ایک برانچ سنبھال رہا ہے۔ماشہ اور عفان ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے جب اس بات کا پتہ رونی کو چلا تو اس نے صاف انکار کر دیا کے وہ ماشہ کی شادی کسی پاکستانی سےنہیں کرے گا۔لیکن وہ ماشہ کے آگے مجبور ہو گیا کیونکہ ماشہ نے کہہ دیا تھا کے وہ شادی کرے گی تو عفان سے ہی کرے گی۔
رونی راضی تو ہو گیا لیکن اس نے عفان کو بتا دیا کے اگر کبھی وہ اس کی بہن کو چھوڑ کر گیا تو وہ اسے جہاں بھی چلا جاۓ دنیا کے کسی کونے میں بھی تو وہ اسے ڈھونڈ لے گا اس لئے کبھی میری بہن کو چھوڑ کر جانے کے بارے میں سوچنا بھی مت۔
دونوں بہن بھائی میں بہت پیار ہے عفان رونی کے سامنے تو کچھ بھی نہیں بولتا لیکن ماشہ کو کہتا ہے میں تم دونوں بہن ھائی کے پیار سے بہت جیلس ہوتا ہوں۔
***************
سالار آج گھر آیا تو بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا۔۔بھیا کیا ہوا آج تو کچھ زیادہ ہی لگتا ہے کام کیا ہے۔
جی گڑیا بس آج سائیڈ پہ بھی کچھ کام تھا اس لئے تھک گیا ہوں۔
سالار اور یشال اور مازیہ تینوں بہنُ بھائی ہیں ان کے ماں باپ فوت ہو گئے ہیں مازیہ سب سے بڑی ہے اس کی شادی اپنے ماموں کے بیٹے کاشف سے ہوئی ہی وہ پاکستانُ میں ہی ہوتے ہیں ۔یشال جب دس سال کی تھی تو وہ لوگ پاکستان سے یہاں اپنے ماں باپ کے ساتھ آۓ تھے لیکن تین سال پہلے پاکستان میں یہ لوگ مازیہ کی شادی کے لئے گئے تھے شادی کے دوسرے دن ایک ایکسڈنٹ میں ان کے ماں اور باپ دونوں فوت ہو گئے ۔اس صدمے کا یشال نے بہت گہرا اثر لیا۔ مازیہ نے بہت کہا کے وہ یشال کو اپنے پاس رکھے گی لیکن سالار نہیں مانا اور یشال کو ساتھ لے آیا یہاں آ کر وہ کافی چینج ہوگئی اب پہلے کی طرح ہنستی کھیلتی نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہی ہے۔
***************
آج سالار آفس آیا تو ابھی اپنی سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کے اسے پیغام ملا کے اسے باس اپنے آفس میں بلا رہے ہیں۔
سالا ردستک دے کراندر داخل ہوا تو رونی نے اسے بیٹھنے کے لئے بولا !مسٹر سالار کل آپ نے میری جگہ پر ایک میٹنگ اٹینڈ کی تھی۔
یس سر !
کیسی رہی میٹنگ؟
سر بہت آچھی۔
آپ کے لئے یا میرے لئے؟
سر ظاہر سی بات ہے یہ کمپنی آپ کی ہے تو اس کا فائدہ بھی آپ کو ہی ہوگااور چونکہ ہم لوگ اس کمپنی سے جڑے ہیں تو کہیں نہ کہیں اس کا فائدہ ہمیں بھی ہو گا۔
رونی نے ایک فائل اٹھا کر سالار کے آگے پھنکی پھر یہ کیا ہے مسٹر سالار میری کمپنی کی یہ اتنی اہم فائل ان لوگوں تک کیسے پہنچی۔اس سے پہلے کے سالار کوئی جواب دیتا رونی نے سالار کے منہ پر ایک طماچہ رسید کیا۔اور اس کے بعد اس نے سالار پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش کر دی۔سالار نڈھال ہو کر نیچے گر گیا تو رونی اپنی سیٹ پر آگیا اور احمر کو بلایا۔
احمر اسے لے جاؤ اور جب تک یہ سب سچ سچ بتا نہ دے اسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں دینا۔ لے جاؤ اسے یہاں سے۔
*********
یشال کو آے دو گھنٹے ہو چکے تھے لیکن سالار کا کہیں کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا یشال کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔وہ بار بار اس کا نمبر ٹرائی کر رہی تھی لیکن اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا ۔صوفے پر بیٹھے بیٹھے نہ جانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگی ۔صبح اس کی آنکھ سورج کی کر نیں آنکھوں پر پڑنے سےکھلی۔وہ ہڑ بڑا کر اٹھی اور کمرے میں جا کر سالار کو دیکھنے لگی کے شاید وہ آگیا ہو لیکن اسے کمرے میں نہ پا کر اب کی بار اس نے نیچےُفرش پر بیٹھ کر رونا شروع کر دیا تھاوہ نہیں جانتی تھی کے وہ کہاں کام کرتا ہے۔ اس نے اس کے کمرے میں جا کر اس کی سٹڈی ٹیبل پر کچھ ڈھونڈنا شروع کیاکے وہاں سے اسے اس کے آفس کا پتہ مل جاۓ۔
**********
سالار کی حالت بہت بری تھی لیکن اسے اپنی حالت سے زیادہ یشال کی فکر تھی۔وہ سوچ رہا تھا میری غیر موجودگی میں اس کی کیا حالت ہوگی۔احمر نےُاسےُ صاف صاف کہہ دیا تھا جب تک تم سچ نہیں بتا دیتے تب تک تم یہی قید رہو گے۔سالار سوچ رہا تھا کے کس نے ایسا کیا ہے پھر اس کے دماغ میں ایک دھماکہ ہوا جس وقت وہ واپس جا رہا تھا اس کے ساتھ ایک آدمی ٹکرایا تھا اور دونوں کے ہاتھ سے فائلز گری تھیں اسی وقت فائلز ایکسچینج ہوئیں ہوں گی۔
اسے اب بس احمر سے ملنا تھا۔
***********
یشال کام پر بھی نہیں گئی آج دو دن ہو گئے تھے سالار کو غائبےےہوۓ اس نے رو رو کر آنکھیں سوجھا لیں تھیں۔آج اس نے نیدی اور حسن کو کال کی اور سالار کے بارے میں بتایا وہ دونوں بھی پریشان ہو گئے اور اسے کچھ حوصلہ دیا کے پریشان نہ ہو ۔شام کو وہ لوگ اس کے فلیٹ پر آئے اور پھر بہت سوچ بچار کے بعد حسن نے یشال کو مشورہ دیا کے وہ رونی سر سے ملے وہُ اس شہر کا سب سے اثر رسوخ والا بندہ ہے اور اگر یشال اس سے مل سکے تو وہ اس کی مدد کر دے گا۔لیکن سب سے مشکل کام اس سے ملنا ہے اس کے آفس بہت ساری جگہ پر ہیں کسی کو بھی نہیں پتہ ہوتاا کے وہ کس وقت کہاں ہوتاہے لیکن ہاں اگر تمُ اس کے گھر میں اس سے مل سکو تو بات بن سکتی ہے۔
*********
سالار نے احمر سے کہا کے اسے رونی سے ملنا ہے لیکن احمر نے اسے بتایا کے رونی ملک سے باہر گیا ہوا ہے وہ تین دن کے بعد آۓ گا اب سالار کو اس کے آنے تک انتظار کرنا پڑے گا۔
یشال آج حسن کے ساتھ رونی کے گھر آئی تھی بہت انتظار کے بعد اس کے سیکیورٹی گارڈز نے انہیں بتایا کے کے وہ ملک سے باہر گیا ہوا ہے اور وہ دو دن کے بعد آۓ گا۔
یشال مایوس ہو کر واپس گھر آ گئی۔
*********
سر آپ سے کوئی لڑکی ملنے آئی ہے نام بھی نہیں بتا رہی اور یہاں سے جا بھی نہیں رہی کہہ رہی ہے جب تک وہ آپ سے نہیں ملے گی یہاں سے نہیں جاۓ گی۔
اوکے بھیجو اسے!
یس سر!
وہ سست قدموں سے اس عالی شان گھر میں داخل ہوئی اس کچھ پتہ نہیں تھا کے وہ کہاں کہاں سے گزر کر یہاں تک پہنچی تھی ۔ اس نے نظر اوپر اٹھائی وہ اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا وہ صرف جینز میں ملبوس تھا اس کے جسم سے پانی کی بوندیں گر رہی تھی۔
بولو لڑکی!
لگتا تھا اس کی دو آنکھیں پیچھے کی طرف بھی ہیں۔
دیکھئے سر مجھے میرے ایک دوست نے آپ کے بارے میں بتایا ہے ۔ میرا ایک ہی بھائی ہے اس کا نام سالار ہے وہ پیچھلے سات دن سے گھر نہیں آیا ۔ یہ اس کی تصویر ہے اس نے تصویر سامنے پڑے ٹیبل پر رکھی ۔ اگر آپ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کر دیں۔
سر آپ کے سگنیچر چاہیے ہیں ایک آدمی فائل اٹھاۓ مودب انداز میں اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ رونی نے سگنیچر کر کے نظر اوپر اٹھائی تو واپس پلٹنا بھول گیا۔
کیا نام ہے تمہارا؟؟
جی یشال!
اس لڑکی کا ایڈریس اور نمبر نوٹ کر لو اور اسے گھر چھوڑ کر آؤ۔
ناول " روح رایان"
از🖋زرش نور
قسط نمبر۳
یشال کے جانے کے بعد رونی نے احمر کو بلایا ! احمر سالار کی کیا نیوز ہے؟سر وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
اوکے چلیں پھر وہ شرٹ پہنتے ہوۓ بولا۔
جی سر!
احمر اور وہ وہاں پہنچے تو سالار نڈھال سا بیٹھا ہوا تھا رونی کو دیکھ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
رونی ایک چئیر لے کر سالار کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ سے سالار کا سر اونچا کر کے بولا ! اب جلدی سے بولو۔
سر میں میٹنگ ختم کر کے جب گھر جا رہا تھا تو باہر نکلتے ہوۓ ایک شخص مجھ سے ٹکرایا تھا اس کی اور میری فائلز نیچے گری تھیں اسی وقت اس شخص نے ہی فائل اٹھائی ہے۔ سر آپ جا کر دیکھ سکتے ہیں میرے کیبن میں وہ فائل پڑھی ہے ۔ میں نہیں جانتا تھا کے یہ نقلی فائل میرے پاس آ گئی ہے۔
احمر اس کا کچھ کھانے کو دو اور اسے اس کے گھر پہنچا دو۔
مسٹر سالار کہیں بھاگنے کی کوشش نہیں کرنا معمول کے مطابق آفس آنا اور ابھی میں خود انوسٹیگیٹ کروں گا مجھے ابھی تم پر یقین نہیں ہے ۔لیکن میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں کیونکہ تمہاری بہن مجھ تک پہنچی ہے ۔ میں نہیں چاہتا کےوہ کل کسی اور تک پہنچے تمہیں بازیاب کروانے کے لئے۔
وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور تھوڑا سا آگے جا کر مڑا اور بولا گھر جا کر کیا کہو گے کہاں تھا اتنے دن؟
سالار نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی بات سمجھ کر اثبات میں سر ہلایا کے میں ہینڈل کر لوں گا۔
************
احمر چھوڑ آۓہو سالار کو ؟
جی سر۔
اس پر نظر رکھنااور تمہیں جو دوسرا کام سونپا تھااس کا کیا ہوا؟
سر وہ ہماری ہی کمپنی کی ایک برانچ میں ورکر ہے۔
ہے؟
مطلب سر ہیں!
اوکے ! آگے
سر ان کے تین دوست ہیں وہ تینوں انڈین ہیں ان میں ایک لڑکی اور دو لڑکے ہیں۔
اور بواۓ فرینڈ؟
نہیں سر سالار بہت سخت طبعیت کا ہے اس معاملے میں وہ اسے زیادہ کہیں نہیں جانے دیتا ۔
اوکے!کون سی برانچ میں کام کرتی ہے؟
سیونتھ سکاۓ سر۔
عفان کی برانچ میں ۔
یس سر!
اوکے عفان کو پتہ چلے بغیر مینجر سے بات کر کے اسے مین برانچ میں شفٹ کر دو۔
میں سالار کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتا اور سالار کو عفان والی برانچ میں بھیج دو۔
اوکے سر!
*********
سالار گھر پہنچا تو وہاں نیدی بھی موجود تھی۔یشال بھاگ کر سالار کے گلے لگی اور رونا شروع کر دیا سالار کی اپنی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔
بھیا آپ کہاں تھے اتنے دن گڑیا میں کسی کام سے شہر سے باہر گیا تھااور میرا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا میرا موبائل بھی ٹوٹ گیا تھا اس لئے میں تم سے کونٹکٹ نہیں کر سکا۔
یشال اور پریشان ہو گئی وہ سالار کو پکڑ کر بیڈ روم تک لے کر گئی اور پھر اس نے دو دن اسےُآفس نہیں جانےدیا۔اور خود بھی نہیں گئی دوسرے دن سالار آفس کے لئے تیار ہوا تو اسے زبردستی واپس کمرے میں لے کر گئی سالار نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کے اس کاجانا بہت ضروری ہے۔
*لیکن وہ نہیں مانی اور سالار کے نمبر پر رونی کی کال آئی تو سالار سے یشال نے فون کھینچ لیا۔
ہیلو!
جی سر میں سالار مصطفی کی بہن بات کر رہی ہوں وہ دو دن تک آفس نہیں آئیں گے ان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اگر آپ نے انہیں کام سے نکالنا ہے تو نکال دیں لیکن وہ کام پر نہیں آئیں گے ۔
اوکے رونی نے مختصر جواب دے کر کال ڈسکنکٹ کر دی ۔ اس نے سالار کو وارن کرنے کے لئے کال کی تھی لیکن کال یشال نے اٹھائی۔
********
کال ڈسکنکٹ کر کے رونی نے احمر کو بلایا۔
احمر میں نے تمہیں کہا تھا کے تم نے سالار کی نگرانی کرنی ہے ۔
جی سر اس کام پہ میں نے ایک خاص آدمی لگایا ہوا ہے ۔
اوکے پھر شام کو ہم سالار کے گھر چلیں گے۔
اوکے سر۔
**********
شام کو گھنٹی کی آواز پر سالار نے دروازہ کھولا تو اس نے سوچا کے نیدی ہو گی لیکن آگے رونی اور احمر کو دیکھ کر وہ حیران اور پریشان ہوگیا۔
سر آپ؟
راستہ دو گےاندر آنے کے لئے۔
جی سر سالار دروازے سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
احمر اندر نہیں آیا۔
کچن کے دروازے پر کھڑی یشال رونی کو دیکھ کر حیران ہوئی۔
سر یہ میری چھوٹی بہن ہے اور یشال یہ میرے باس ہیں ۔
جی بھیا میں جانتی ہوں انہیں ۔
رونی نے ایک نظر یشال پر ڈالی اور سالار سے بولا اب آپ بہتر لگ رہے ہیں مسٹر سالار کل سے آفس آ جائیے گا ۔
جی سر۔
وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی کھڑا کھڑا واپس چلا گیا۔
جانے سے پہلے اس نے ایک خاص نظر یشال پر ڈالی لیکن یشال اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔
دوسرے دن سالار آفس پہنچا تو اسے بتایا گیا کے اسے دوسری برانچ میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔اس نے برانچ کا نام پوچھا تو وہ مطمئن ہو گیا کے چلو وہاں یشال بھی ہے۔لیکن یہ خوش فہمی اس کی جلد ہی ختم ہو گئی جب دوسرے سالار نے تیار ہوتے ہوئے یشال سے کہا یشال آج ساتھ ہی چلیں گے میں اب جس برانچ میں تم ہوتی ہو اسی برانچ میں میں بھی اب جاؤں گا۔
لیکن بھیا میں اب اس برانچ میں نہیں جاؤں گی کیونکہ مجھے تو مین برانچ میں شفٹ کر دیا گیا ۔
کب ؟سالار نے حیرانگی پوچھا۔
کل ہی بھیا۔
اب سالار کا صبر جواب دے گیاوہ یشال کو چھوڑنے کے بہانے آیا اور سیدھا رونی کے آفس پہنچا۔
مسٹر رایان سوری جو بھی معاملہ ہوا ہے وہ آپ کے اور میرے درمیان ہوا ہے آپ میری فیملی کو درمیان میں نہ لائیں تو بہتر ہے ۔
نہیں میں اور میری بہن یہاں سے استعفی دے دیں گے۔سالار بہت غصے میں تھا اس وقت۔
رایان آرام سے اٹھ کر سالار کے پاس آیا مسٹر سالار میں آپ پر بہت بھروسہ کرتا تھا اسی لئے آپ میرے ساتھ کام کر رہے تھی۔اگر یہ حرکت آپ نے نہیں بھی کی تب بھی آپ جانتے ہیں آپ کی وجہ سے میرا کتنا نقصان ہوا ہے اگر آپ یہاں سے استعفی دیں گے تو کیا خوشی خوشی پاکستان چلے جائیں گے۔میں آپ کو ساری زندگی یہاں کی جیل میں زندگی بھیک مانگتے رہیں گے۔اب آپ جا سکتے ہیں یہاں سے۔
سالار بہت بےبس ہو کر وہاں سے نکل آیا۔
***************
سالار لانچ کے بعد سائیڈ ایریا پر آیا کچھ نئی مشینری آئی تھی وہی دیکھنے کے لئے۔وہ جہاں جہاں سے گزر رہا تھا سب لوگ کھڑے ہو رہے تھے لیکن ایک ٹیبل کے پاس سے گزرتے ہوۓ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔وہ یشال تھی جو دوسری طرف مڑی کوئی سکرو ٹائیٹ کر رہی تھی۔ سالار نے اسے یہاں لیبر پر رکھا تھااور کام بھی بہت مشکل تھا۔وہ چلتا ہوا یشال کے پاس آیا۔ مس کیا کر رہی ہیں آپ یہاں ؟
جی کام
جی وہ مجھے بھی نظر آ رہا ہے۔کیا کام کر رہی ہیں جی یہ سکرو ٹائیٹ کر رہی ہوں۔ مس میڈی آپ آئیں یہاں یہ سکرو آکر ٹائیٹ کریں۔
وہ آئی اور ایک منٹ میں وہ کام کر کے چلی گئی تھی۔یشال نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔
آپ کا کیا نام ہے؟
جی یشال۔
اوکے۔
احمر مس یشال کو کام کرنا نہیں آتا اگر ایک ہفتے میں انہوں نے کام نہ سیکھا تو انہیں فائر کر دیں۔
یشال حیران تھی یہ کیا چیز ہے۔
وہ یہ جاب کھونا بھی نہیں چاہتی تھی نیدی سے اسے پتہ چل گیا تھا کے سالار کو اب بہت کم تنخواہ مل رہی ہے۔اس لئے وہ سالار پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔
ناول ""روح رایان""
از زرش نور
قسط نمبر ۴
یشال گھر پہنچی تو وہ بہت تھک چکی تھی ایک تو سارا اتنا سخت کام اور اوپر سے نوکری سے نکالے جانے کا خوف وہ تھکن اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا تھی۔ سالار نے اس کا چہرہ دیکھتے ہی اس سےپوچھا۔
کیا ہوا یشی آج بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو؟
کچھ نہیں تھکی ہوئی تو نہیں ہوں ۔
آچھا! اس نے کچھ سوچا اور پھر بولا تم کام کیا کرتی ہو وہاں ؟
کام ۰۰۰۰۰۰۰ وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر سالار کے دیکھنے پر بولی کام وہی جو یہاں کرتی تھی ۔
سالار نے مطمئن ہو کر سر اثبات میں ہلا دیا۔
بھیا کل سنڈے ہے کل میں نیدی لوگوں کے ساتھ فانہ فوڈ سٹریٹ جاؤں گی ۔آپ چلیں گے؟
نہیں آپ لوگ جانا مجھے کچھ کام ہے۔
اوکے۔
*********
وہ چاروں اس وقت گہری سوچ میں ڈوبے ہوۓ تھے یشال نے انہیں اپنے کام کی نوعیت اور باس کے رویے کےبارے میں بتایا۔
تم ریزائن کر دو حسن نے اسے مشورہ دیا۔
نہیں چھوڑ سکتی۔
تم اسے اپنے پیار کے جال میں پھنسا لو۔نیدی نے اپنا نادر مشورہ دیا۔
یہ لو جی ان کی سنو تم تو نہ ہی بولو اسے جواب گرپیت نے دیا تھا۔اور یشال گرپیت سے اتفاق کرتی تھی۔
آچھا چھوڑو آپ لوگ ان باتوں کا ۔
چلو کچھ اور باتیں کرتے ہیں میں نے اپنے ساتھ آپ لوگوں کو بھی پریشان کر دیا۔
حسن انڈیا جا رہا ہے۔نیدی نے بتایا۔
آچھا کب جا رہے ہو؟
جمعہ کو۔
تمہاری بہن کی شادی ہے نہ؟
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
حسن غور سے یشال کو دیکھ رہا تھا ۔ نیدی جو کے حسن کے برابر بیٹھی ہوئی تھی حسن کو چٹکی کاٹی۔
حسن نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
یشال اور گرپیت اس وقت انڈیا میں ہو رہے کسان احتجاج کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
نیدی نے آہستہ آواز میں حسن کو کہا لگتا ہے انڈیا تو جا رہے ہو لیکن دل یہی چھوڑےجا ر ہے ہو۔
حسن نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اس کی ڈارک براؤن آنکھوں میں جگنو سی چمک تھی ۔
یشال نیدی نے یشال کو پکارا تو وہ اور گرپیت دونوں اس کی طرف متوجہ ہوۓ ۔ یشالیہ حسن کہہ رہا ہےاس کی اتنی سی بات پہ ہی حسن کا سانس رک گیا وہ زور سے کھانسنے لگا۔گرپیت نے جلدی سے اسے پانی دیا حسن نے پانی پیتے ہوۓ نیدی کو آنکھوں سے منع کیا۔
نیدی کی بات درمیان میں ہی رہ گئی۔
********
سالار یشال کے جانے کے بعد اس دن والے ہوٹل میں آیا اس نے ریسیپشن پر موجود آدمی سے اس دن ٹکرانے والے آدمی کا حلیہ بتا کر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
تھوڑی دیر وہ وہاں بیٹھا رہا جب جانے کے لئے مڑا تو اس نے اپنے پیچھے والے ٹیبل پر ایک آدمی کو منہ کے آگے ٹوپی رکھے بیٹھا ہوادیکھا۔سالار ہوٹل سے باہر تھوڑا سا آگے جا کر ایک گاڑی کی اوٹ میں ہو کر کھڑا ہو گیا۔تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے مطلوبہ آدمی کو باہر نکلتے دیکھا۔وہ آدمی بہت احتیاط سے آگے بڑھ رہا تھا تھوڑا سا آگے جا کر وہ ایک درخت کی اوٹ میں ہو گیا وہاں سے وہ سالار کو نظر نہیں آ رہا تھا۔
سالار ابھی سوچ ہی رہا تھا کے وہ اب کیا کرے اس نے اس آدمی کو درخت کی اوٹ سے نکل کر آگے بڑھتے دیکھا جب وہ تھوڑا آگے بڑھ گیا تو سالار بھی گاڑی کی اوٹ سے نکل آیا اور اپنے اور اس آدمی کے درمیان تھوڑا فاصلہ رکھ کر آگے بڑھنے لگا۔ تھوڑا آگے جا کر وہ دائیں طرف مڑ گیا دائیں طرف ایک زیر تعمیر عمارت تھی وہ اس کے اندر چلا گیا سالار بھی اس کے پیچھے اندر داخل ہوا لیکن اندر جا کر اسے وہ آدمی کہیں نظر نہیں آیا اسے دوسری منزل پر تھوڑی روشنی نظر آئی وہ احتیاط سے آگے بڑھنے لگا دوسری منزل کی آخری سیڑھی پر پہنچ کر اس نے جھانک کر دیکھا لیکن وہ حیران رہ گیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ سالار ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن اسے کہیں کوئی نظر نہیں آیا اب اسے اس جگہ سے عجیب خوف سا محسوس ہوا وہ جانے کے لئے مڑا لیکن تبھی کسی نے اس کی کنپٹی پر پسٹل رکھی۔ سالار سمجھ گیا کے اسے پھنسایا گیاہے۔سالار ہاتھ اوپر اٹھا کر اس شخص کی طرف مڑا تو دیکھ کر حیران رہ گیا وہ اور کوئی نہیں احمر تھا۔
تم سالار کے منہ سے حیرت سے بس اتنا ہی نکلا۔
ہاں میں ! میں جانتا تھا کے تم مجھ تک پہنچ جاؤ گے اس لئے میں نے سوچا کیوں نہ تمہیں خود ہی خاطر تواضع کے لئے لے آؤں ۔
تم نے یہ سب کیا اور پھنسا مجھے دیا ۔
اا خالی عمارت میں اس کا قہقہہ گونجا تم جیسے بیوقوفوں کو میں نوکری پر رکھتا ہی اسی لئے ہوں ۔تم کوئی پہلے شخص تو نہیں ہو تم سے پہلےبھی بہت آۓ لیکن تم پہلے شخص ہو جسے رونی نے چھوڑ دیا ورنہ با قی سب تو جیل میں چکی پیس رہے ہیں۔میرے پاس زیادہ باتوں کا وقت نہیں ہے اب تم کلمہ پڑ لو ۔اس نے اپنی پسٹل کا رخ سالار کی طرف کیا اور پسٹل پر دباؤ ڈالا لیکن اس سےپہلی ہی ایک لات احمر کے ہاتھ پر پڑھی اور اس کے ہاتھ سے پسٹل دور جا گرا ۔احمر آنے والے کو دیکھا تو اس کا سانس رک گیا وہ رونی تھا۔
رونی دیکھو یہ یہاں آج پھر کسی سے ملنے آیا تھا میں نے اسے یہاں پیسے لیتے پکڑ لیا تو یہ مزاحمت کرنے لگا۔
آچھا پھر تو میں خود اس سے حساب چکتا کرتا ہوں ۔رونی نے لفظ چبا چبا کر بولے اور سالار کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
سالار نے اسے جوابا ایک مسکراہٹ پاس کی اور ہاتھ جھاڑتا ہوا جا کر رونی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
مسٹر احمر اس بار نہیں اس بار آپ ہمارے جال میں پھنسے ہیں ۔
احمر کا حیرت سے منہ کھل گیا۔
جاننا چاہو گے کیسے؟
جاننے سے پہلے ان سے ملو یہ ہے ہیرا بیسٹ فرینڈ سالار حیات اور اس بار انہوں میری مدد کی تم جیسے گیڈر کو پکڑنے کے لئے۔
سالار کچھ لوگ حیات نہیں واہیات ہوتے ہیں اور تا حیات ہوتے ہیں یہ بات رونی نے سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہی۔مجھے تو تم پر کافی عرصے سے شک تھا اس بار میں نے بھی پلاننگ کر لی تمہیں پکڑنے کی اور ہاں تمہارا ساتھی وہ نیچے رسیوں میں جکڑا پڑا ہے اور تھوڑی دیر میں یہاں پولیس بھی آتی ہوگی ۔یہ کام تو ہم دو تین دن پہلے ہی کر لیتے لیکن سالار کی بہن کی وجہ سے رہ گیا۔میں اس دن سالار کے گھر بھی اسی لئے گیا تھا جب تم اندر نہیں گئے تھے کیونکہ تم تو مطمئن تھے نہ کے سب کچھ تمہاری پلان کے مطابق ہو رہا ہے۔
*************
سالار یار شکریہ بہت بہت۔
نہیں یار شکریہ کی کیا بات ہے۔
یار میری وجہ سے تمہارے گھر میں بھی سب پریشان ہوۓ ہیں ۔
آچھا کل ماشہ کے فلیٹ پر آنا وہاں مغدادکی برتھ ڈے ہے اس نے تمہیں بھی انوائٹ کیا ہے اور اپنی بہن کو بھی لانا۔
چلو سہی ہے پھر کل ملتے ہیں ۔
اوکے گڈ نائٹ۔
*******
ناول "" روح رایان ""
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۵
رونی تو مغداد کی سالگرہ کسی ہوٹل میں منعقد کرنا چاہتا تھا لیکن ماشہ نہیں مانی ۔
دیکھو رونی زیادہ کسی کو تو بلانا نہیں ہے ۔ ویسے بھی عفان ان چیزوں کے حق میں نہیں لیکن بس میں اپنی خوشی کے لئے یہ سب کر رہی ہوں جو خرچا ہوٹل میں ہو گا اتنے پیسے ہم چیریٹی کر دیں گے۔آچھا بتاؤ تم نے سالار کو انوائٹ کیا ہے۔
رونی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
چلو پھر آ جاؤ کیک تم بیک کرو گے جیسے آپ کہیں میڈم ۔
ماشہ کے منع کرنے کے باوجود رونی نے ڈیکوریشن بھی کروائی تھی اور باہر سے کیک بھی منگوایا تھا۔
سالار جب یشال کے ساتھ وہاں پہنچا تو رونی ماشہ کے ساتھ کچن میں مصروف تھا جب کے عفان مغداد کو ڈریس چینج کروا رہا تھا۔ وہ سالار کے ساتھ بہت تپاک سے ملا کچن اے رونی کو نکلتے دیکھ کر یشال چونکی کیونکہ سالار نے اسے رونی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ رونی بھی یشال کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا کالے رنگ کا کوٹ ساتھ میں کالی جینز شانوں تک آتے کھلے بال ہلکا سا میک اپ وہ پیاری لگ رہی تھی ۔ وہ سالار کے پاس آیا اس سے بغل گیر ہو کر وہ واپس مڑ گیا ۔ یشال کو وہ بہت برا لگا اکڑوکہیں کا نہ ہو تو یشال نے دل ہی دل میں اسے بہت ای باتیں سنائی۔
ماشہ اور رونی نے سب کچھ ٹیبل پر سیٹ کیا اور پھر ماشہ اور عفان نے مغداد کو اٹھا کر کیک کٹوایا لیکن مغداد رونی کی طرف بھاگ رہا تھا۔ تنگ ہو کر ماشہ اور عفان نے مغداد کو رونی کو ہی دے دیا۔ اور وہ بھی اس کے پاس جاتے ہی کھلکھلا کر ہنس دیا۔کیک کے بعد کھانے کا دور چلا کھانا کھاتے ہوۓ رونی اور یشال ساتھ ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے۔یشا ل بے دلی سے کھانا کھا رہی تھی عفان سالار اور ماشہ پرانی باتیں یاد کر رہے تھے۔رونی اور سالار کی دوستی بہت پرانی تھی وہ دونوں نائنتھ کلاس سے ساتھ پڑھتے آ رہے ہیں اور اس کے بعد پھر کالج یونیورسٹی میں بھی ساتھ رہے ہیں ان لوگوں کی باتوں سے پتہ چل رہا تھا کے وہ رونی کے گھر بھی آتا جاتا رہا ہے کیونکہ جس طرح سے وہ ماشہ اور عفان سے باتیں کر رہا تھا اس سے تو ایسا ہی لگ رہا تھا۔رونی نے یشال کو خالی پلیٹ میں چمچ چلاتے دیکھا تو بریانی کی ڈش اس کے آگے رکھ دی۔ یشال نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو اسے شکریہ کہا لیکن وہ اس کے منہ میں ہی رہ گیا کیونکہ وہ دوسری طرف موجود سالار سے باتوں میں مصروف ہو چکا تھا۔عجیب بندہ ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی اس کی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی تھی جو رونی کی سماعتوں تک پہنچ چکی تھی۔اس نے مڑ کر اسے گھورنا چاہا لیکن اب تلملانے کی باری رونی کی تھی کیونکہ وہ اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
اب ماشہ یشال کی طرف متوجہ ہوئی یشال کیا کر رہی ہوآپ؟
جی کچھ نہیں بس جاب کر رہی ہوں۔
بہت آچھی بات ہے کہاں کر رہی ہو جاب۔
اب کی بار یشال گڑبڑا گئی جی ایک الیکٹرونکس کی کمپنی ہے۔
آچھی بات ہے۔
جی!
رات دیر سے جب وہ گھر کے لئے نکلے تو ان کے ساتھ ہی رونی بھی نکلا وہ سالار اور یشال کو ڈراپ کر کے آگے بڑھ گیا۔
بھیا یہ تو بہت امیر آدمی ہےُآپ کی اور اس کی دوستی کیسے ہو گئی۔
بہت پرانی دوستی ہے یشی۔
آچھا ویسے یہ ہے بہت مغرور سا بندہ ۔
نہیں ایسا تو نہیں ہے تمہیں کیوں ایسا لگا ؟بس ویسے ہی کہہ رہی ہوں۔
تم سے نہیں ملا اس لئے کہہ رہی ہو وہ لڑکیوں سے زرا دور ہی رہتا ہے۔
*********
دوسرے دن یشال سالار کے ساتھ ہی کام پر نکلی وہ نہیں جانتی تھی کے سالار بھی اب واپس وہی پہ ہی کام کرے گا۔
سالار اسے ساتھ لے کر رونی کے آفس میں داخل ہوا یشال اس کا آفس دیکھ کر حیران رہ گئی بہت ہی کشادہ قیمتی سامان سے آراستہ اس کی سربراہی کرسی کے پیچھے بہت ہی گریس فل سی عورت کی تصویر لگی تھی۔ رونی کے ساتھ اس وقت سالار اور رونی کا مشترکہ دوست سعد موجود تھا۔ سعد کی ان دونوں کی طرف پشت تھی سالار کے سلام کرنے پر وہ تیزی سے مڑا اور سالار سے بہت گرمجوشی کے ساتھ بغل گیر ہوا ۔ سالار سے گلے ملتے ہوۓ اس کی نظر سالار کے پیچھے کھڑی یشال پر پڑی وہ تھوڑی دیر اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ سالار سےالگ ہو کر اس نے یشال کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا سالار نے اس کا تعارف کروایا تو سعد نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا یشال نے تھوڑا تامل سے ہاتھ آگے بڑھایا اور جلدی ہی واپس کھینچ لیا۔ان دونوں کے ہاتھ ملانے پر رونی اپنی جگہ پر پہلو بدل کر رہ گیا۔ یشال بھی وہی ایک طرف صوفے پر بیٹھ گئی رونی نے دیکھا کے سعد بہانے بہانے سے اس طرف دیکھ رہا تھا جس طرف یشال بیٹھی تھی۔ آخر رونی کا صبر جواب دے گیا۔
مس یشال آپ باہر میری سیکرٹری کے پاس جائیں وہ آپ کو آپ کا کام سمجھا دے گی۔یشال نے سالار کی طرف اجازات طلب نظروں سے دیکھا اور باہر نکل گئی۔رونی کو اس کی یہ بات بہت آچھی لگی ۔
یشال نے باہر نکل کر شکر کیا اسے وہ آدمی بہت ہی عجیب لگ رہا تھا۔اس نے دل ہی دل میں رونی کا بھی شکریہ ادا کیا۔
*******
آج یشال نے آفس سے چھٹی کی تھی تو اسے نیدی کی کال آئی کے آج وہ بھی نہیں گئی تو یشال نے نیدی کو گھر پر ہی بلا لیا۔ وہ نیدی کے لئے کافی بنا رہی تبھی نیدی نے ایک انڈین نیوز چینل لگایا جہاں پر کسان احتجاج کے بارے میں بتایا جا رہا تھا ۔یشال کافی لے کر آئی تو نیدی نے چینل چینج کر دیا۔ نیدی یار یہ آپ لوگوں کا کیا قصہ ہے یہ کیا ہو رہا ہے کسانوں کے ساتھ اور یہ آپ لوگ سنگر ریانہ کے پیچھے کیوں پڑے ہوۓ ہو ۔
بس یار مجھے نہیں پتا کوئی بل پیش کیا گیا راجیاسبھا میں جو کے کسان کہتے ہیں کے ہمارے حقوق کے خلاف ہے لیکن کوئی نہیں یار ٹھیک ہو جائے گا ۔
کب ٹھیک ہو گا دو ماہ تو گزر چکے ہیں ۔
نہیں ابھی کچھ پروگرس ہوئی ہے اس نے ٹالنے والی بات کی ۔
تبھی ٹی وی چلنے والی نیوز پراس نے چونک کردیکھا اور بولی یشال آج ویمن ڈے ہے نہ یہ تم لوگوں کے ہاں کیا چل رہا ہے عورتیں کیوں باہر نکل آئی ہیں اور یہ کیا کہہ رہی ہیں میرا جسم میری مرضی یار ہمارے ہاں بھی عورتوں کو بہت آزادی حاسل ہے اب تو ساری دنیا گروم ہو چکی ہے آپ لوگ بھی گروم ہو جاؤ عورتوں کو ان کے حقوق دو عورتوں کو پہننے اوڑھنے کی آزادی ہونی چاہئے آپ باۓ فورس کسی کو برقعہ نہیں اوڑھا سکتے۔
نیدی نے اپنی بات ختم ک تو یشال نے ایک گہرا سانس لیا ۔ نیدی ہمارے دین نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو آزادی اور حقوق دئیے نہ وہ اس وقت کی عورت تصور بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ جہاں تک ان عورتوں کا تعلق ہے جو تمہیں سکرین پر نظر آ رہی ہیں یہ ہمارے معاشرے کی پانچ فیصد عورتوں کی نمائندگی بھی نہیں کرتی ۔ ہماری عورت گھر کے اندر محفوظ ہے ۔ تم مجھے بتاؤ تم کہتی ہو ہندوستان میں عورتوں کو پہننے اوڑھنے کی آزادی ہے صرف آپ لوگوں کے پہناوے کی وجہ سے روز کتنے ریپ کیس ہوتے ہیں ۔ انڈیا اس وقت ریپ ہونے والے ممالک میں کہاں کھڑا ہے اس وقت ۔ بات یہ نہیں ہے کے عورت کو آزادی پہننے اوڑھنے کی دی جاۓ ۔ اگر تم پاکستان کی ۹۰ فیصد عورتوں اے پو چھو تو وہ بہت خوش ہیں اپنی زندگی سے مرد اے عورت کو تحفظ کااحساس ہوتا ہے۔اگر عورت مرد کے بغیر چل سکتی تو کتنی عورتیں ہیں جو یہ عونا روتی ہیں کاش ان کا بھی کوئی بھائی ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں میں مے دیکھا ہے ایک بھائی نو نو اور دس دا بہنوں کی کفالت کرتا ہے ان کی شادیاں کرتا ہے اور پھر اس کے بعد بھی ان کے لئے میکے کا مان بھی ہوتا ہے۔ کیا مرد اور عورت برابر ہو سکتے ہیں ۔ بالکل بھی نہیں مرد عورت کے لئے ایک بہت بڑا سہارا ہے۔ تم اپنی بات کرو تم سے چھوٹی تمہاری چار بہنیں ہیں اگر تم سے چھوٹا کوئی بھائی ہوتا تو وہ آج تمہیں اکیلےُ اتنی دور آنے دیتا کبھی نہیں بلکہ خود سختیاں جھیلتا لیکن تم پر آنچ بھی نہآنے دیتا۔میںان عورتوں سےاتفاق نہیں کرتی جو کہتی ہیں "" میرا جسم میری مرضی۔""
میری کیا مرضی جوبھی ہے میرے خدا کی مرضی۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
اپنے گھر کا کام کرنا اپنے بچوں کے کام کرنے سے آپ نوکر نہیں بن جاتے یہ کام کرنے سے تو دل کو سکون ملتا ہے۔میرے رب نے آپ
کو اتنا بڑا مقام دے دیا ہے تو آپ کو اور کیا چائیے آپ کے قدموں
کے نیچے جنت رکھ دی ہے۔
ناول "" روح رایان""
از🖋 قلم زرش نور
قسط نمبر ۶
نیدی لاجواب ہو کر یشال کے پاس سے اٹھ آئی اور بہت سے نئے سوالوں نے بھی جنم لے لیا تھا اس کے دماغ میں اسے لگ رہا تھا وہ ان دونوں بہن بھائی سے بہت متاثر ہو رہی ہے۔ سالار کا یشال کا خیال رکھنا یشال کا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سالار کو بتانا نماز کے وقت جتنا بھی ضروری کام کر رہے ہوں اٹھ کر نماز پڑھنا ایک بار یشال نے نیدی کے سامنے نماز پڑھی تو نیدی پہ بہت ہی عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔وہ لوگ جب بھی کسینو جاتے تھے تو یشال کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے وہ جب یشال سے کہتے کے وہ سالار سے اجازات کیں گے تو سختی سے منع کر دیا کہا اگر آج کے بعد ہم نے اسے کوئی ایسی آفر کی تو وہ اس کا اور ہماری دوستی کا آخری دن ہو گا۔عہ بہت الجھی ہوئی وہاں سے گھر پہنچی گھر پہنچ کر اسے اور بے چینی نے گھیر لیا۔
*************
رونی کی سیکرٹری میکی ایک چائنیز تھی اور بہت سے چائنیز کے برعکس بہت روانی نے انگریزی بولتی تھی۔جب اسے پتہ چلا کے وہ پاکستان سے ہے تو اس کا یشال کے ساتھ لگاؤ بھی کچھ زیادہ ہوگیا۔وہ رونی کی بہت تعریفیں کرتی تھی جبکے یشال حیرانگی سے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔ تم اس کی اتنی تعریفیں کر رہی ہو مجھے تو بہت ہی مغرور سا بندہ لگا ہے اپنے علاوہ کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے۔
یشال کی دروازے کی طرف پیٹھ تھی وہ اپنے پیچھے کھڑے رونی کو نہیں دیکھ سکی میگی کے اشارہ کرنے پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کو سینے میں سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔رونی آگے آیا یشال کے پاس سے گزر کر میگی کے پاس رکا اسے کچھ ہدایات دےکر اپنے آفس کی طرف قدم بڑھاتے ہوۓ بولا مس یشال آپ میرے آفس میں آئیے۔
یشال کی مانو تو جان ہی نکل گئی۔
میگی آج میرا اس آفس میں میرے خیال میں آخری دن ہے ۔میگی اس کی حالت پر اپنی مسکراہٹ ُچھپا گئی۔
یشال دستک دے کر اس کے آفس میں داخل ہوئی یشال اپنی متوقع ڈانٹ کے بارے میں سوچتے ہوۓ مناسب الفاظ سوچنے لگی کو اسے اپنے دفاع میں کہنے تھے۔
وہ اندر داخل ہوئی تو رونی نے ایک گہری نظر یشال پر ڈالی جو کھلے بالوں میں گلے میں سکارف ڈالے لونگ کوٹ ساتھ جینز پہنے پیاری لگ رہی تھی لیکن رونی کو اس کی ڈریسنگ بالکل بھی آچھی نہیں لگی۔ اسے تو خود کو چھپاۓ ہوۓ لڑکیاں آچھی لگتی ہیں۔اس نے اپنا سر جھٹکا وہ بھی کیا سوچ رہا ہے۔یشال سر جھکاۓ کھڑی تھی متوقع جھاڑ کھانے کے لئے تبھی اسے آواز آئی مس یشال یہ فائل لے کر جائیں اور ایک گھنٹہ ہے آپ کے پاس اسے پڑھنے کے لئے اور اپنی پریزنٹیشن تیار کر لیں آپ میرے ساتھ چل رہی ہیں میٹنگ میں۔
یشال نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصادق اٹھ کر وہ فائل اٹھائی اور باہر نکل آئی اپنے کیبن میں آ کر اس نے سکھ کی سانس لی لیکن اب ایک نئی پریشانی میں گیر چکی تھی وہ ایک گھنٹے میں کیسے یہ کرے گی۔
ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد اسے رونی کا بلاوا آ گیا تھا وہ اپنا بیگ اور کمپنی کی طرف سے ملا لیپ ٹاپ اٹھا کر تیار ہو گئی۔
رونی اس کے پاس آ کر بس ایک پل کے لئے رکا چلیں اور آگے بڑھ گیا یشال کو اس تک پہنچنے کے لئے بھا گنا پڑ رہا تھا وہ کمبے لمبے ڈگ بھرتا بہت آگے نکل گیا تھا پارکنگ میں پہنچ کر وہ گاڑی کے پاس رک کر اس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور دوسری نظر بھاگتی ہوئی آتی یشال پر جب وہ پاس پہنچی اس نے اس کے لئے دروازہ کھولا اس کو بٹھا کر دوسری سائیڈ سے آ کر خود بیٹھا اور ڈرائیور کو چلنے کے لئے بولا۔گاڑی کے چلنے کے بعد وہ یشال کی طرف متوجہ ہوا اور اسے پریزنٹیشن کے مین پوائنٹ بتانے کے لئے بولااسکے ساتھ بیٹھ کر یشال نے جو پوائنٹس نوٹ کیے تھے وہ بھی بھول گئی۔
رونی منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ آدھے گھنٹے کے بعد گاڑی ایک آفس کے سامنے رکی رونی کے ساتھ یشال بھی اتر آئی ۔ وہ دونوں لفٹ کی طرف بڑھ گئے لفٹ میں داخل ہو کر رونی نے اسے فلور نمبر بتایا تو یشال نے بٹن پش کر دیا لفٹ ایک جھٹکے کے ساتھ چلی اور اگلے ہی منٹ رک بھی گئی وہ دونوں لفٹ سے نکل کر بائیں طرف مڑ گئے ۔ یشال نے نوٹ کیا کہ اس بار اس کی رفتار کم تھی وہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔ اس کمپنی کے عہدیدارن نے اس کا استقبال کیا رونی کا وہی اکڑو سا انداز نوٹ کیا سب سے ملتے اور بات کرتے ہوۓ ایک خاص قسم کا فاصلہ رکھا ہوا تھا۔
میٹنگ روم وہ زیادہ تر خاموش ہی رہا اور باقی لوگ بولتے رہے۔ سب کی باتیں سننے کے بعد اس نے بولنا شروع کیا اور چند ایک ضروری باتوں کے بعد یشال سے فائل لے کر خود ہی ہروجیکٹر کے پاس گیا اور دو چار سلایئڈز چلا کر اور چند پوائنٹ بتانے کےبعد وہ آ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ میٹنگ کامیاب رہی واپسی میں یشال خاموش ہی رہی اسے لگا وہ اس کی خوب انسلٹ کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا وہ اسے ڈراپ کر کے آگے بڑھ گیا۔
****************
رونی کا آج گھر جانے کا دل نہیں کر رہا تھا اس لئے وہ ماشہ کی طرف چلا آیا دروازہ کھولنے پر ماشہ نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔
تمہیں آج خود سے کیسے ہماری یاد آ گئی؟
ماشہ نے پہلا سوال یہی کیا۔
رونی صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور آگے بڑھ کر مغداد کو باہوں میں بھر لیا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگاوہ بھی اسے دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا اور اپنی توتلی زبان میں ماما کہنے لگا۔
ماشہ کچن کی طرف بڑھ گئی جہاں عفان آج مینچورین بنا رہا تھا اور ماشہ اس کے ہیلپر کے طور پر کام کر رہی تھی۔ وہ مغداد کو لے کر لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا عفان نے مصروف سے انداز میں وہاں سے ہی رونی سے ہاۓ ہیلو کی ۔ ماشہ عفان کو واپس آنے کا کہہ کر آ کر رونی کے ساتھ بیٹھ گئی۔
رونی کیسی ہے وہ؟
مجھے کیا پتہ وہ جلدی وہ بول گیا اور پھر جلدی سے بات بدل گیا کس کی بات کر رہی ہو تم ۔
اسی کی جس کی تم سمجھ رہے ہو۔
وہ چپ ہو گیا ۔
رونی میں جانتی ہو جب ایک بار میں اور تم سالار کے گھر گئے تھے واپس جب ہم جا رہے تھے ۔ہم لوگ گاڑی میں بیٹھے ہوۓ تھے تبھی وہ کالج سے آئی تھی اور میں نے تمہاری آنکھوں میں اس کے چلو تب وہ چھوٹی تھی لیکن اب تو وہ بڑی ہو گئی ہی اس کی سٹدیز بھی اب مکمل ہو چکی ہیں اگر تم کہو تو میں سالارسے بات کروں ۔
نہیں ابھی نہیں مجھے کچھ وقت چاہئے اور شاید اسے بھی وہ میرے بارے میں بہت بدگمان ہے اس کے خیال میں میں بہت مغرور ہوں ۔
آچھا کہو تو میں اسے بتا دوں کہ میرا بھائی جس چیز سے سب سے زیادہ لاپروائی دیکھاتا ہے اصل میں اس کا سب سے زیادہ دھیان اسی چیز پر ہوتا ہے۔
تم مجھے کچھ زیادہ نہیں جاننے لگی۔
بہن کس کی ہوں۔بھائی کی طرح جاسوسی کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔
تم کچھ زیادہ ہی جان گئی ہو۔
جی ہاں میری دوست کی بہن یشال کے کالج میں ہی پڑھتی تھی اور اس نے بتایا تھاکے وہ اکثر تمہاری گاڑی کالج کے باہر دیکھتی تھی۔وہ جو تمہیں اکڑو سمجھتی ہے اگر اسے پتہ چل جائے کے تم تو اس کی محبت میں پاگل ہو تو پھراس کا کیا ردعمل ہو گا۔
اب کی بار رونی مسکرا دیا۔
یشال گھر پہنچی تو سالار کھانا بنا چکا تھا ۔ بھیا آپ کہاں چلے گئے تھے ۔
یشی میں رونی کی کمپنی کی ایک برانچ کا ہیڈ ہوں جیسے عفان ہے۔
آپ مجھے لینے کیوں نہیں آۓ؟
کیونکہ مجھے رونی نے بتایا تھا کے تم اس کے ساتھ کسی میٹنگ میں جا رہی ہو تو وہ تمہیں خود ہی چھوڑ دے گا۔مبارک ہو تمہاری پہلی پریزنٹیشن کامیاب رہی۔
آپ کو کس نے بتایا؟ یشال نے حیرانگی سے پوچھا۔
رونی کو کال کی تھی میں نے میٹنگ کے بعد اس نے ہی بتایا تھا۔
آچھا! یشال الجھی ہوئی ۔
********
یشال صبح سے بہت مصروف تھی اسے صبح صبح میگی نے بہت ساری فائلز دیں اور اسے سارا دن سر اٹھا کر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہوئی۔چار بجے میگی اس کے پاس آئی تو یشال نے اس سے پوچھا کہاں تھی تم صبح سے؟
میں میٹنگ روم میں تھی جن کلائنٹ کے ساتھ کل میٹنگ تھی نہ وہی آج یہاں آۓ ہوۓ تھے نہ۔
یشال نے شکر ادا کیا کے اسے نہیں بلا لیا وہ پہلے ہی بہت شرمندہ تھی اور اس کی پوری کوشش تھی کے اس کا رونی سے آمنا سامنا نہ ہو۔
آفس ٹائم ختم ہوتے ہی یشال نے سالار کا کال کی ! بھیا مجھے ساتھ لے کر چلنا۔
یشی میں ڈرائیور کو کہتا ہوں وہ تمہیں چھوڑ دے گا۔
کتنی دیر لگے گی ؟
میں بتاتا ہوں تمہیں دوبارہ کال کر کے۔
تھوڑی دیر کے بعد سالار کی کال آ گئی یشی تم جاؤ پارکنگ میں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰"
اوکے یشال نے سالار کی پوری بات سنی ہی نہیں اور کال کاٹ کر اپنا بیگ اٹھایا اور چل دی اس کی بس کوشش تھی کے وہ کسی طرح آج رونی سے اس کا آمنا سامنا نہ ہو۔
وہ نیچے آئی تو آگے ڈرائیور کھڑا تھا میم یشال!ڈرائیور نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
یشال اس کے پیچھے چل پڑی اور اپنے موبائل میں مصروف گاڑی میں بیٹھ گئی۔
گاڑی تھوڑا سا آگے گئی تو یشال کو یاد ایا کے اسے گھر کے لئے کچھ سامان لینا ہے اس نے ڈرائیور کو کہا کہ آگے کوئی حلال فوڈ کی شاپ دیکھی تو گاڑی روکنا بات کرتے کرتے یشال نے سر اوپر اٹھایا تو اپنے ساتھ بیٹھے رونی کو دیکھ کر ڈر گئی ۔ اس نے ایک زوردار چیخ ماری کے ڈرائیور نے بھی اسی جگہ پر گاڑی روک دی۔
رونی نے بھی حیران ہو کر اسے دیکھا اور ڈرائیور کو گاڑی آگے بڑ ھانے کے لئے بولا۔
مس یشال آپ یہ بچوں والی حرکتیں ختم کریں ۔
نہیں میں ڈر گئی تھی وہ سالار بھیا نے کہا تھا کہ ڈرائیور ہے تو میں نے سوچا صرف ڈرائیور ہی ہوگا۔
مس یشال سالار ہر جگہ آپ کے ساتھ نہیں ہاگا خود کو بدلئے۔
کوئی بات نہیں میں شوہر بھی سالار بھیا جیسا ہی ڈھونڈوں گی۔جلدی میں اس کے منہ سے نکل گیا جب سمجھ آئی تو اپنی زبان دانتوں تلے داب لی۔
*************
ناول "" روح رایان""
از🖋زرش نور
قسط نمبر۷
سالار اور رونی اس وقت ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوۓ تھے تبھی وہاں حسن آگیا سالار سے مل کر وہ رونی کی طرف متوجہ ہوا رونی یہ حسن ہے اور حسن یہ......
جی ان کو کون نہیں جانتا ؟
رونی نے مصحافہ کے لئے ہاتھ بڑھایا دونوں نے حسن کو بھی جوائن کرنے کے لئے بولا۔
اور حسن کب آئے واپس ؟
مجھے ایک ہفتہ ہو گیا ہے آۓ ہوۓ۔
آچھا!
سالار بھیا میں آپ سے کافی دنوں سے ملنا چاہتا تھا ۔ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔حسن نے سالار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
جی بولا حسن میں سن رہا ہوں۔
وہ مجھے اس نے رونی کی طرف دیکھا سالار بھیا مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔
اوکے سالار مجھے اجازات دو میں چلتا ہوں رونی نے فورا سے پہلے جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
ارے تم کہاں چل دئے بیٹھو یہاں ساتھ ہی چلتے ہیں ۔
نہیں یار میں چلتا ہوں تم دونوں بات کر لو۔
آچھا اس لئے جا رہے ہو بیٹھو یہاں سالار نے ساتھ اسے کھینچ کے چئیر پر بٹھا دیا۔
حسن بات شروع کرو رونی میرے لئے بھائیوں کی طرح ہے تم بولو۔
سالار بھیا حسن کے لئے بہت مشکل ہو دہا تھا لیکن اسے بات تو کرنی تھی میری امی آنا چاہتی ہیں یہاں آپ سے ملنے۔
مجھ سے ملنے کیوں؟سالار کچھ سمجھ تو گیا تھا لیکن وہ حسن کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
سالار نے اسے اور مشکل میں ڈال دیا تھا۔
سالار بھیا وہ میر ے لئے آپ سے یشال کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہیں میری خواہش پر۔
سالار تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ اور رونی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ حسن کو ابھی کے ابھی یہاں سے اٹھا کے کہیں پھینک دے۔اسنے دونوں مٹھیاں بھینچی ہوئیں تھی اور بظاہر ان کی باتوں سے لاپروا نظر آنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
کافی دیر کے بعد سالار بولا حسن تم بہت آچھے لڑکے ہو لیکن میں یشال کو اتنی دور کبھی نہیں تم اپنے ملک کی کسی لڑکی سے شادی کر لو کوئی اور ملک ہوتا تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن ہمارے اور آپ کے ملک کے تعلقات آۓ روز خراب ہوتے رہتے ہیں پھر آنے جانے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔اس لئے میری طرف سے نہ ہے۔
پلیز ایسا مت کہیں میں یشال کو انڈیا کبھی نہیں لے کر جاؤ گا ہم یہی رہیں گے۔حسن نے بہت لجاجت سے کہا وہ کسی بھی
طر ح سالار کو منانا چاہتا تھا۔
اسی دوران رونی نے سالار سے اجازات چاہی اور آگے بڑھ گیا سالار نے اس بار اسے نہیں روکا کیوں کہ وہ خود الجھ گیا تھا۔
رونی نے باہر نکل کر سب سے پہلے سیگریٹ جلائی اور اپنی فرسٹیشن نکالنے کی کوش کی اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
دوسری طرف ریسٹورنٹ میں بیٹھا سالار الگ الجھن کا شکار تھا۔
اس نے ایک بار پھر سے کہنا شروع کیا دیکھو حسن وقت اور حالات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا تم یہاں تب تک ہی جاب کر سکتے ہو کب تک تمہیں تمہاری کمپنی ویزا دے رہی ہے پھر اس کے بعد تم واپس اپنے ملک لوٹ جاؤ گے۔ شادی صرف لڑکی اور لڑکے کے درمیان میں نہیں ہوتی بلکہ دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے تم اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے ہو تم ہمیشہ کے لئے یہاں نہیں رہ سکتے۔
حسن سالار کی بات پر خاموش ہو گیا۔
طویل خاموشی کے بعد بس اتنا بولا آپ اگر ایک بار یشال سے پوچھ لیں تو۔
اس کی بات پر سالار نے جلدی سے حسن کی طرف دیکھا ۔ سالار کو یشال پر خود سے زیادہ یقین تھا لیکن پھر بھی حسن کے کہنے پر وہ تھوڑی دیر کے لئے وہمی سا ہو گیا اور سوچنے لگا اگر یشال نے کہہ دیا کے وہ حسن سے ہی شادی کرے گی تو وہ کیا کرے گا وہ کسی بھی صورت یشال کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ آخر میں اس نے حسن کی بات پر ہتھیار ڈالتے ہوۓ اثبات میں سر ہلا دیا۔میں اس سے بات کر کے تمہیں جواب دوں گا۔
حسن کو بھی تھوڑا حوصلہ ہوا اسے پتہ تھا کے یشال کبھی بھی اس کے حق میں فیصلہ نہیں دے گی لیکن وہ پھر بھی ایک امید کے سہارے اٹھ کر چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد بھی سالار کرنی دیر وہاں بیٹھا یشال کے بارے میں سوچتا رہا اور جوں جوں سوچتا جا رہا تھا اور پریشان ہوتا جا رہا تھا۔
********
رونی ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے گھر پہنچا اپنے کمرے میں داخل ہو کر اسے نے اپنا کوٹ اتار کر ایک سائیڈ پر پھینکا ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور کمرے میں ادھر ادھر چکر لگانے لگا۔ اسے لگا تھا کے یشال کو حاصل کرنا اس کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن آج اس لگ رہا تھا وہ اس کی دسترس سے بہت دور ہے۔اس نے اپنا سر اپنے ہاتھوں پر گرا لیا اور پھر کچھ خیال آنے پر موبائل پر نمبر ملانے لگا۔
**********
ماشہ سوئی ہوئی تھی موبائل کی رنگ سےاس کی آنکھ کھلی اس نے وقت دیکھا رات کے دو بج رہے تھے اس نے موبائل میں رونی کی کال دیکھی تو جلدی سے کال ریسیو کی رونی کیا ہوا خیریت ہے تم نے اس وقت کیوں کال کی۔کافی دیراس کی آواز نہیں آئی ماشہ کے ہیلو ہیلو کہنے پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔ ماشہ صبح سب سے پہلے سالار کے گھر جانا یشال کا رشتہ لے کر۔"ماشہ کو اس کی آواز بھیگی ہوئی لگی۔"
کیا ہوا ہے رایان ؟
کچھ نہیں ماشہ اس سے پہلے وہ کسی اور کی ہو جائے تم سالار سے بات کرلو۔
ٹھیک ہے۔
اس کے ساتھ ہی رونی نے کال ڈسکنکٹ کر دی۔
*************
سالار گھر پہنچا تو یشال ابھی تک جاگ رہی تھی۔سالار ریسٹورنٹ سے ایک فیصلہ کر کے اٹھا تھا۔یشال نے سالار سے کھانے کے بارے میں پوچھا اس کا جواب سن کر وہ اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔
یشی سالار کے پکارنے پر وہ کمرے خے دروازے پر رک گئی اور مڑ کر سوالیہ انداز میں سالار کو دیکھنے لگی۔
میرے پاس آکر بیٹھو۔
وہ دھیرے سے چلتی ہوئی آئی آکر سالار کے ساتھ بیٹھ گئی۔
سالار سوچ رہا تھا کے بات کا آغاز کیسے کرے۔
یشال منتظر نظروں سے سالار کی طرف دیکھ رہی تھی۔
سالار نے ایک نظر یشال کی طرف دیکھا اور بات شروع کرنے کے لئے مناسب الفاظڈھونڈنے لگا۔
یشال حسن کیسا لڑکا ہے؟
جی بہت آچھا ہے محنتی ہے ہر کسی کی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے جب آپ جب شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا تو وہی مجھے رونی سر کے گھر لے کر گیا تھا۔
ویسے کیوں پوچھ رہے ہیں آپ؟
کچھ نہیں تم جاؤ سو جاؤ۔
یشال کے جواب نے سالار کے لئے فیصلہ کرنا آسان کر دیا۔
**********
اطلاعی گھنٹی کی آواز پر سالار نے جا کر دروازہ کھولا تو عفان اور ماشہ تھے ۔ سالار کو انہیں اپنے گھر دیکھ کر خوشگوار احساس ہوا ۔ یار تم لوگ اتنے سویرے سویرے؟
با ہم نے سوچا تمہیں آج چل کر سرپرائز دیں ۔
سالار کو دروازے پر ایستادہ دیکھ کر ماشہ نے جھانک کر اندر دیکھا اور بولی اندر آنے کے لئے نہیں بولو گے؟
سالار نے جلدی سے راستہ دیا آجاؤ اندر ۔
وہ دونوں اندر آۓ تو سامنے ہی ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا اسے دیکھ کر رک گئے وہ جلدی سے اٹھا اور دونوں کو ایک ساتھ سلام کیا۔
وعلیکم سلام!
ارے آؤ نہ تم لوگ بیٹھو پلیز ۔ یشال جلدی سے باہر آؤ دیکھو کون آیا ہے؟
یشال جلدی سے باہر آئی اور ماشہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اس کی گود سے مغداد کو لیتے ہوئے انہیں بیٹھنے کے لئے بولا۔
ارے ماشہاس سے ملو یہ حسن ہے یشال کا فینسی۔
عفان اور ماشہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔
یشال کے لئے بھی یہ نیوز نئی تھی۔
سالار نے حسن کو صبح صبح اسی لئے بلایا تھا تاکہ وہ اسے پوچھ سکیں کے وہ جتنی جلدی ہو سکے وہ اپنی والدہ کو بلا سکتا ہے بلا لے۔وہ جلد سے جلد یشال کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔
سب سے پہلے عفان ہی اس جھٹکے سے باہر آیا تھا اس نے سالار کو مبارک دی۔
************
ناول ""روح رایان"
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۸
رایان کمرے میں داخل ہوا تو پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی وہ اس خوشبو کو اپنے اندر اتراتا ہوا بیڈ کی طرف بڑھا جہاں اس کی زندگی تھی۔
اس نے یشال کا لہنگا ہٹا کر بیٹھنا چاہا تو وہ پرے کھسک گئی ۔رونی کی پیشانی پر سلوٹیں نمودار ہوئیں لیکن وہ صبر کر گیا۔
اس نے یشال کا گھونگھٹ اٹھایا تو سانس لینا بھول گیا وہ اس کی سوچ سے بھی ذیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو یشال نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رونی اس کے پاس سے اٹھا اور بولا چینج کر لو یہ کہہ کر وہ بالکنی کی طرف بڑھ گیا۔
بالکنی میں ٹھنڈی ہوا نے اس کا استقبال کیا۔اس نے ایک سیگریٹ سلگایا اور لمبے لمبے کیش لینے لگا۔اس کے ہونٹوں پر بڑی گہری مسکراہٹ تھی۔
اس کا موبائل رنگ ہوا اس نے سکرین پر نمبر دیکھا اور فون کان سے لگا لیا۔دوسری سائیڈ کی بات سن کر بولا "چھوڑ دو اسے۔"
آج اسے کے رواں رواں میں اک سرشاری تھی اس نے جسے شدت سے چاہا اسے پا لیا۔
************
حسن تھوڑی دیر باہر سے آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا جب کافی دیر اسے کوئی آواز سنائی نہیں دی تو وہ دروازے کی طرف بڑھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کے دروازہ کھلا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کے وہ وہاں کتنی دیر سے ہے اسے ہوش آیا تو وہ اس کمرے میں تھا ۔پہلے تو اس میں اتنی طاقت ہی نہیں تھی کے وہ اٹھ سکے پھر ایک گھنٹے کے بعد وہ اپنے حواسوں میں لوٹا اور اپنے اندر تھوڑی توانائی محسوس کی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
باہر نکل کر اس نے دیکھا کے وہ ایک ہوش علاقے میں تھا لیکن یہ علاقہ اس کے گھر اور یشال کے گھر سے بہت دور ۔وہ اپنا بٹوہ کریڈٹ کار ڈ موبائل سب کچھ کھو چکا تھا۔
رات کافی ہو چکی تھی اس نے ایک آدمی سے موبائل لے کر گرپیت کو کال کی اا نے چھوٹتے ہی پوچھا یار تو کہاں ہے ہم کتنا پریشان ہیں تو جانتا ہے۔
حسن نے اسے بتایا کے وہ فلاں جگہ پر ہےوہ اور وہ اپنی ساری چیزیں کھو چکا ہے۔گرپیت نے اسے کہا کے وہ ٹیکسی کر کے آ جائے وہ اسے سالار کے گھر کے باہر ملے۔
ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد وہ ان سے آ کر ملا اور جو نیوز گرپیت اور نیدی نے اسے سنائی اس کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی۔اسے یہاں آ کر پتہ چلا کے یہ رات بھی گزر چکی ہے اور اس کی زندگی میں بہت کچھ بہا کر لے گئی ہے۔
*********
رایان کو جب ماشہ نے بتایا کے سالار حسن کو زبان دے چکا ہے اب تم اسے بھول جاؤ رایان نے کچھ بولے بغیر کال بند کر دی۔
وہ اس وقت بہت طیش میں تھااگر سالار اس کا دوست نہ ہوتا تو وہ اسی وقت یشال کو لے آتا لیکن وہ دوستی کا بھرم رکھنا چاہتا تھا۔
اس نے سب سے پہلے کوشش کی کےحسن کی والدہ کو ویزہ نئ مل سکے اس کے لئے اس نے اپنےکنٹیکٹ استعمال کیے اور ویسا ہی ہوا جیسا وہ چاہتا تھا۔اس کا خیال تھا کے اس طرح کرنے سے شادی کچھ عرصے کے لئے رک جاۓ گی۔لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی کیونکہ حسن نے سالار کو راضی کر لیا تھا کے وہ لوگ یہاںشادی کے بعد ان ڈیا چلیں جائیں گے اور پھر وہاں ان کا ولیمہ ہو گا۔پھر اس نے اگلا پلان ترتیب دیا شادی والے دن جب حسن گھر سے اپنی مختصر ہی بارات جس میں گرپیت نیدی اور کچھ اور اس انڈین اور پاکستانی دوست تھے ان کے ساتھ گھر سے نکلا تو راستے میں وہ سگنل بند ہونے پر پھول لینے کے لئے گاڑی سے اترا اور گرپیت کو گاڑی تھوڑی آگے لے جا کر کھڑی کر کے آنے کے لئے کہا لیکن وہ جب واپس اس جگہ پر پہنچا جہاں اسے لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔
حسن جب مال کے اندر داخل ہونے لگا تو اسے کسی لڑکے نے آکر کہا کے آپ کو وہاں آپ کے دوست آپ کو بلا رہے ہیں حسن بھی اس طرف چل پڑھا وہ جس جگہ پر پہنچا وہاں سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں تھا وہاں سے اس کے منہ پہ کسی نے کوئی چیز رکھی اور پھر اسے کوئی ہوش نہیں رہا۔
**********
رونی ماشہ مغداد اور عفان کے ساتھ ہوٹل پہنچا۔سالار نے شادی کا انتظام ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کیا تھا اس نے اپنے بہت سے جاننے والوں کو بھی بلایا تھا مازیہ اور اس کا شوہر امان بھی پاکستان سے آۓ تھے ۔رایان ایک سائی ڈ پر آکر بیٹھ گیا تبھی مازیہ اور ماشہ یشال کو لے کر آئیں تو رایان کے لئے سب کچھ پس منظر میں چلا گیا ری ڈ لہنگے میں جس پر گول ڈن نفیس موتیوں کا کام کیا ہوا تھا اس کے ساتھ بھاری جیولری اور میک اپ کے ساتھ وہ آج کوئی پری لگ رہی تھی۔یہ ڈریس رایان کے کہنے پر ماشہ نے گفٹ کیا تھا یشال کو اور اصعار کیا تھا کے وہ یہی ڈریس پہنے ۔آگے سب کچھ رایان کے پلان کے مطابق ہوا گرپیت اور نیدی نے آ کر حسن کی گمشدگی کے بارے میں بتایااور پھر اس وقت ماشہ نے سالار کے آگے عایان کا نام رکھ دیا جسے تھوڑی بحث مباحثے اور سالار کا رایان سے کنفرم کرنا کے اسے کوئی اعتراض تو نئیں ہے کے بعد قبول کر لیا گیا اور اب وہ یشال کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھا۔
آگے کا اگر کسی کو پتہ چل بھی گیا تو اسے پروا نہئں تھی وہ سب سے نپٹ لے گا یہ اسے یقین تھا۔وہ سیگریٹ ختم کر کے واپس کمرے میں آیا تو دیکھا یشال صوفے پر بیٹھی تھی اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی ۔رایان نے اس کی طرف ایک نظر دیکھا ۔کیا ہوا کچھ کہناہے تمہیں؟
جی وہ میں آپکا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔
کس بات کے لئے؟
آپ نے جو آج سب کچھ کیا اس کے لئے۔
تم یہ شکریہ کسی اور طرح بھی ادا کر سکتی ہو۔
اس کی اس بات پر یشال پریشان ہو گئی اسے رایان سے اس بے باک گفتگو کی امید نہیں تھی۔
اب یشال کے ہاس کوئی جواب نہیں تھا۔ رایان تھوڑی دیر اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا اور پھر بولا سو جاؤ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔
**********
حسن سالار کے فلیٹ پر پہنچا اسے اپنےساتھ ہوئیے سارے واقعے کی تفصیل بتائی تو سالار کا سب سے پہلا شک رایان پر ہی گیا اور حسن نے بھی یہی کہا کے اسے رایان پر ہی شک ہے کیونکہ کوئی اور یہاں ایسا پلان نہیں بنا سکتا اور سالار رایان کے ان پلانز کے بارے میں آچھی طرح سے جانتا تھا ۔ وہ دونوں اپنی سوچوں میں غرق تھے تبھی وہاں رایان پہنچا اور بولو جو تم دونوں سوچ رہے ہو وہ صیح ہے یہ سب میں نے ہی کیا ہے۔
**********
ناول "" روح رایان""
از🖋زرش نور
قسط نمبر ۹
رونی کو دیکھ کر وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔
رایان حیدر کیا بکواس کر رہے ہو تم سالار کی آنکھوں میں اس وقت خون اترا ہوا تھا۔
جو تم سن رہے ہو وہی کہہ رہا ہوں ۔رایان سالار کے روبرو ہو کر بولا۔
سالار حیات تم جانتے ہو میں اپنی چیزیں کسی قیمت پر بھی حاصل کر کے رہتا ہوں۔
وہ چیز نہیں میری بہن ہے ایک جیتی جاگتئ انسان ۔سالار پھنکار کے بولا وہ اس وقت غصے میں پاگل ہو رہا تھا۔
سالار حیات وہ میری زندگی ہے اور تم نے میری زندگی کسی اور کو دینے کا فیصلہ کر لیا۔تم کیا چاہتے ہو میں خاموش رہتا۔سن لو تم دونوں یشال حیات اب رایان حیدرکی ہے ۔
میں اسے سب کچھ بتا دوں گا رایان حیدر تم نےہم سب کے ساتھ ساتھ اسے بھی بے وقوف بنایا ۔
جی اسے اپنا بنانے کے لئے۔
حسن خاموشی سے وہاں سے نکل گیا اور اس نے اپنے آنسو کو بہنے دیا کیونکہ وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔وہ اب کسی کی بیوی بن چکی تھی۔
میں نے تم سے دھوکہ کیا ہے یشال کے ساتھ بھی اور مجھے اس بات کا احساس ہے اسی لئے میں رات کے اس پہر یہاں تمہارے پاس موجود ہوں۔
رایان حیدر چلے جاؤ یہاں سے۔
لیکن سالار میں!
چلے جاؤ یہاں سے رایاں ۔سالار نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی اور دروازہ کھول کر خود منہ دوسری طرف کر کے کھڑا ہو گیا۔
رایان تھوڑی دیر اس کی پشت کو دیکھتا رہا اور پھر وہاں سے نکل گیا۔
سالار نے اس کے نکلتے ہی زور سے دروازہ بند کیا اور پاس پڑا کرسٹل واز اٹھا کر زور سے فرش پر دےمارا ایک چھنکےکی آواز کے ساتھ وازکئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
************
رایان فجر کے وقت کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا یشال جاۓ نماز پر بیٹھی تھی رایان نے ایک نظر اس پر ڈالی اور واش روم میں گھس گیا وہ باہر آیا تووہ قرآن مجید ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی۔رایان سٹڈی میں چلا گیا نماز ادا کر کے وہ وہاں پر پڑے صوفے پر ہی سو گیا۔اس کی آنکھ کسی کے ہلانے پر کھلی اس نے آنکھ کھولی تو پاس کھڑی یشال کو دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔یشال نے موبائل اس کی طرف بڑھایا کسی کی کال آ رہی ہے ایک ہی نمبر سے کافی دفعہ کال آ چکی ہے۔
وہ موبائل لے کر کال بیک کرنے لگا جب تک یشال اس کے پاس ہی کھڑی رہی وہ بہت محویت سے اسے دیکھ رہی تھی سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس بازو کہنیوں تک فولڈ کیے ہوۓ پیشانی پر بکھرے بال آنکھوں میں نیند کی خماری رایان نے بات کرتے کرتے یشال کی طرف دیکھا تو وہ سٹپٹا گئی اور باہر کی طرف نکل گئی ۔رایان کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ رینگ گئ۔
وہ بات کر کے اپنے کمرے میں آفس کے لئے تیار ہونے چلا گیا یشال اسے کمرے میں نظر نہیں آئی وہ تیار ہو کر اپنا لیپ ٹاپ اٹھاۓ نیچے لاؤنج میں ہہنچا تو معمول کے مطابق ملازم نے اس کے ہاتھ سے اس کی فائلز اور لیپ ٹاپ گاڑی میں رکھنے کے لئے لے گیا وہ تھوڑی دیر کھڑا ادھ ادھر دیکھتا رہا پھر کچن کی طرف بڑھ گیا اور دیکھ کر حیران ہوا وہ چولہے کے آگے کھڑی پراٹھے بنا رہی تھی۔یہ تم کیا کر رہی ہو؟
سر میں نے میم کو منع کیا تھا۔ باورچی نے اپنی صفائی دی۔یشال نےاسے چپ رہنے کے لئے کہا اورخود
رایان کی طرف مڑ کر بولی ںاپنے گھر میں بھی کچن کا کام خود ہی کرتی تھی اگر یہ میرا گھر نہیں ہے تو میں چھوڑ دیتی ہوں اس نے ساتھ میں چولہا بند کر دیا۔
اوکے جیسے تمہاری مرضی میں جا رہا ہوں آفس سے پہلے ہی لیٹ ہو گیا ہوں۔
رکئے ناشتہ بنا ہوا ہے کر کے جائیے اس نے ساتھ ہی باورچی کو ناشتہ ٹیبل پر لگانے کے لئے بولا اور رایان کے ساتھ کچن سے باہر نکل آئی۔
سامنے ہی سالار کھڑا تھا۔
بھیا آپ یشال بھاگنے کے انداز میں اس تک پہنچی اور اس کے گلے لگ گئی۔
سالار کے تیور دیکھ کر رایان کے دل کو کچھ ہوا اسےلگا کے وہ ابھی یشال کو سب کچھ بتاۓ دے گا ۔
سالار آیا تو اسی لئے تھا لیکن یہاں اپنی بہن کو خوش وخرم دیکھ کر اس بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کرے۔
آپ ٹھیک وقت پر آۓ ہیں بھیا آئیں ساتھ ہی ناشتہ کرتے ہیں۔یشال سالار کا ہاتھ پکڑ کر اسے ڈائنگ ٹیبل تک لے گئی رایان بھی ان کے پیچھے گیا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ یشال سالار اور رایان دونوں کو باری باری کوئی نہ کائی چیز دیتی جا رہی تھی۔اور سالار سوچ رہا تھا کے اس کی بہن کی زندگی میں اب سالار کے ساتھ ساتھ رایان بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔یشال کو خوش دیکھ کر سالار کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ یشال کو کچھ بتاتا۔یشال کو سالار کے ساتھ باتوں میں مصروف دیکھ کر رایان اٹھ کھڑا ہوا میں چلتا ہوں مجھے آفس کے لئے دیر ہو رہی ہے۔ یشال نے مسکرا کر سالار کو اللہ حفظ کہا اور پھرسے سالار کی طرف متوجہ ہوگئی۔
************
رایان کا آفس جانے کا دل تو نہیں کر رہا تھا ۔اسے سالار کی طرف سے ڈر ہی تھا کہ کہیں وہ یشال کو ساتھ ہی نہ لے جائے۔
وہ الجھا ہوا آفس پہنچا تو اس کی سیکریٹری میگی نے اسے بتایا کے سالار آفس آیا تھا اور ایک لفافہ رایان کی طرف بڑھایا یہ آپ کے لئے دے گئے ہیں۔رایان نے میگی کو جانے کے لئے بولا اور خود وہ لفافہ چاک کر کےدیکھا تو اس کی توقع کے عین مطابق اس میں سالار کا استعفی تھا۔رایان استعفی ہاتھ میں لئے تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا اور پھر اس نے یشال کو کال کی ۔
ہیلو یشال کیا کر رہی ہو۔
کچھ نہیں۔
سالار ہے یہاں ۔
جی نہیں !
اوکےاللہ حافظ۔
اس کے بعد اس نے سالار کا نمبر ملایا اور اسےآفس آنے کے لئے بلایا۔
لیکن رایان میں استعفی دے چکا ہوں اب میرا وہاں کیا کام۔
سالار تم رولز کے مطابق استعفی نہیں دے سکتے کیونکہ تم نے جو کنٹریکٹ سائن کیا تھا اس کے مطابق اگر تم خود یہ نوکری چھوڑو گے تو تمہیں پانچ لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔رایان نے سالار کو استعفئی واپس لینے کے لئے آخری پتہ پھینکا اور وہ کار آمد رہا۔
رایان حیات مجھے افسوس ہے میں نے تمہارے ساتھ دوستی نبھاتے ہوۓ یہ کیوں بھول گیا کے تمُ جتنے اچھے دوست اور اس سے کہیں گنا برے دشمن۔
*******
ناول ""روح رایان ""
از🖋 زرش نور
قسط نمبر ۱۰
رایان اور یشال ماشہ کے پرزور اصرار پر آج سینٹوسہ ائسلینڈ آۓ تھے۔یہاں پر سنگاہ پور کا مشہور مجسمہ بھی ہے جس کا سر ایک شیر کا جب کے اس کی جسمات ایک مچھلی سی ہے۔وہ دنوں یہاں پہ پانی کے اندر بنے ایک کرسٹل ایریا میں بھی گئے جہاں سے انہیں مارلین شارکس اور دوسری پانی کی مخلوق کو دیکھ کے ایسا لگتا تھا کے وہ آپ کی طرف آ رہی ہیں لیکن یہاں مچھلیاں ایک ایکوریم میں نہیں تھیں بلکہ آپ ایک ایکوریم میں تھے۔ایک بار تو ایک بڑی شارک بہت تیزی کے ساتھ دور سے آتی دیکھائی دی یشال جو کہ بہت غور سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے آنکھیں بند کر لیں اور رایان کی بازو کو اس قدر زور سے پکڑا کے اس کے بازومیں اس کے ناخن لگنے کی وجہ سے خون کی ننھی بوندیں نکل آئی ۔یشال کو ایسے دیکھ کر وہ سمجھ گیا کے وہ یہاں ڈر رہی ہے تو وہ اسے وہاں سے لے آیا۔گاڑی میں بیٹھ کر رایان نے اپنی شرٹ کے کف اوپر کر کے اپنا بازو دیکھا تو وہاں اچھا خاصہ زخم بنا ہوا تھا۔یشال نے دیکھا تو اسے شرمندگی سی ہوئی۔رایان نے اگمینٹن نکالی اور خود ہی لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔یشال نے دیکھا تو اس کے ہاتھ سے لے لی اور خود لگانے لگی اس کے قریب آنے پر رایان سامنے دیکھنے لگا ۔
اب ٹھیک ہے؟یشال نے اس سے پوچھا۔
اس نے ایک نظر اپنے بازو پر ڈالی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
اب کہاں چلیں ؟
گھر ہی چلتے ہیں ۔ یشال نے سر جھکاۓ جواب دیا۔
رایان نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بھول ہی گیا کے اسے کیا کہنا تھا ۔وائٹ قمیض شلوار پر بڑا سا وائٹ دوپٹہ رکھے پلکوں کی جھالر گراۓ بڑی بڑی آنکھیں ہلکا سا میک اپ کیے وہ اسے دیکھتا کہیں اور ہی نکل گیا اپنی بےخودی میں اسے پتہ ہی نہیں چلا کے وہ کب یشال کی طرف جھکتا چلا گیا ہوش میں تب آیا جب یشال کی بند آنکھیں اور لرزتی پلکیں دیکھیں تو وہ جھکااوریشال والی سائیڈ کا دروازہ کھول کر واپس بند کیا۔یشال نے جھٹ سے آنکھیں کھولی اور رایان کی طرف دیکھا رایان نے اسے اشارے سے بتایا تمہاری سائیڈ والا دروازہ کھلا تھا۔وہ شرم سے نظریں جھکا گئیں اور رایان دلچسپی سے اس کے بدلتے رنگ دیکھنے لگا۔
سکون قلب بھی تم سے ہے سکوں جان بھی تم ہو
تعجب ہے کے سینے میں جہاں دل تھا،وہاں تم ہو
رایان نے بہت جزب کے عالم میں شیر کہا اور یشال نےاس کی آواز میں خماری محسوس کر کے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
رایان نے ایک بھرپور نظر یشال پر ڈالی اور گاڑی سٹارٹ کر لی۔
********
اس کی آنکھ فجر کے وقت کھلی تھی رات کو رایان اسے گھر ڈراپ کر کے کہئں چلا گیا تھا۔وہ بیڈسے اتر کر ننگے پاؤں کھڑکی تک گئی اور پردے پیچھے کرتے ہوۓ کھڑکی کے دونوں پٹ کھول دئے۔اندھیرے کی وجہ سے باہر کوئی چیز ابھی واضح نہیں تھی۔
وہ وضو کر کے جاۓ نماز پر کھڑی ہوئی اور بہت خشوح وخضوع کے ساتھ نماز ادا کی نماز کے بعد اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓاور آنکھیں بند کر لیں۔رایان کابہترین سیکیورٹی گار ڈ چینگ یانگ کو نامعلوم افراد گولی مار کر فرار ہوگئے تھے ۔وہ ساری رات ہاسپٹل میں اس کے پاس ہی رہا تھا۔ابھی وہ گھر پہنچا تو یشال کو جاۓ نماز ہر بیٹھے دیکھا تو حیران ہوا وہ اتنی جلدی اٹھ گئی تھی۔یشال دعا ختم کر کےاٹھی تو رایان کو دروازے میں کھڑے دیکھا۔
آپ کب آۓ؟
بس ابھی رایان نے آگے بڑھ کر اپنا کوٹ صوفے پر رکھا اور وہاں ہی بیٹھ گیا ۔یشال نے اس کا کوٹ اٹھایا اور ہینگر کر کے الماری میں لگا دیا۔
آپ کے لئے چاۓ لاؤں؟
نہیں میں تھوڑی دیر سونا چاہوں گا۔
وہ اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گئی۔
رایان کی آنکھ دس بجے کے قریب کھلی وہ تیار ہو کر نیچے آیا تو یشال صوفے پر موبائل لئے بیٹھی تھی اس نے بلیو جینز پررائل گرین ٹاپ پہنا ہوا تھا۔رایان کو ایسی ڈرینگ بہت بری لگتی تھی اس کا مو ڈ خراب ہو گیا اسے ایسے لباس میں دیکھ کر۔وہ اس سے کوئی بھی بات کیے بغیر وہاں سے چلا گیا۔یشال اسے جاتا دیکھ کر حیران ہوئی پھر خود سے ہی ہم کلام ہوئی۔" اگنور کرنا تو ان کا پرانا کام ہے۔"
***********
رایان آفس پہنچا تو اسے سالار اپنے کیبن میں نظر آیا رایان اپنے آفس میں جانے کی بجاۓ اس کے پاس چلا آیا۔سالار نے اسے دیکھ کے بھی اپنا کام جاری رکھا وہ تھوڑی دیر اس کے بات کرنے کا انتظار کرتا رہا پھر خود ہی بات کا آغاز کیا۔آچھا ہوا تمہیں دیکھ تم نے عقلمندی کا ثبوت دیا ہے دوبارہ جوائن کر کے۔سالار نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔آج ایک میٹنگ میں چلنا ہے اور تم میرے ساتھ چل رہے ہو۔میں نے آج اپنی بہن سے ملنے جانا ہے میں کہیں نہیں جا رہا ۔سالار اسے زچ کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ خود ہی اسے یہاں سے نکال دے۔
اوکے ہم پہلے میٹنگ میں چلیں گے پھر وہاں سے گھر یہ کہہ کر وہ کیبن سے نکل گیا۔
سالار نے اس کے جانے کے بعد کرسی کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا لی اور سوچنے لگا یہ چاہتا کیا ہے کوئی تو اس کا پلان ہے۔
تبھی سالار نے زینگ جو کے رایان کے قریبی لوگوں میں سے تھا اسے رایان کے آفس سے نکلتے دیکھا۔ویسے تو وہ رایان کے ولا میں سیکیورٹی کا ہیڈ تھا اور آج یہاں کیوں آیا ہے سالار کسی گہری سو چ میں ڈوب گیا۔
رایان اور سالار میٹنگ اٹینڈ کر نے کے بعد وہ ایک بڑے مال آۓ تھے جو کے یہاں کی مشہور جگہ آرچرڈ روڈ کے نام سے مشہور تھی وہاں پر موجود لیگیسی مال تھا۔رایان کافی دیر کے بعد لوٹا تو وہ کافی ساری شاپنگ کے ساتھ تھا اور ساری لیڈیز شاپنگ تھی۔
وہ لوگ گھر پہنچے تو یشال بے صبری سے ان کا انتظار کر رہی تھی۔سالار کے گلے لگ کر اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی اور سالار بے چین ہو گیا۔
رایان دونوں بہن بھائی کے محبت کے مظاہرے سے اکتا کر خود اپنے کمرے میں فریش ہونے کے لئے بڑھ گیا۔
وہ سیڑھیوں سے اتر رہا تھا تبھی اس کے کانوں میں سالار کی آواز پڑی یشی تم خوش تو ہونہ !!جی بہت خوش ہوں ۔
کھانا کھانے کے بعد دونوں کے بہت اصرار کے بعد بھی سالار نہیں رکا ۔اس کے منع کرنے کے باوجود رایان اسے چھوڑنے آیا۔
سالار گاڑی سےاتر کر دو قدم چلنے کے بعد پلٹا اور رایان کو دیکھ کر بولا۔مسٹر رایان اب کون سی پلاننگ کر رہے ہو۔میں اب تمہارے جھانسے میں آنے والا نہیں ہوں ۔اور آگے بڑھ گیا۔
رایان نے گاڑی آگے بڑھا لی اورسالار کے اتنے ٹھیک اندازہ لگانے پر مسکرا دیا۔
وہ گھر پہنچا تو یشال کو نماز ادا کرتے دیکھ کر خود ٹیرس پر آگیا اس نے سیگریٹ نکالا اور ہونٹوں میں دبا لیا ۔
بات سنیں !
یشال کی آواز پر رایان نے ہاتھ میں موجود سیگریٹ نیچے پھینک کے اس کے اوپر جوتا رکھ لیا۔یشال اسے سیگریٹ پیتا دیکھ چکی تھی۔وہ پورا اس کی طرف پلٹا۔
جی بولو۔
وہ میں نہ سالار بھیا کے ساتھ پاکستان جانا چاہ رہی ہوں اگر آپ کی پرمیشن ہو تو۔وہ سر جھکاۓ بولی اور رایان کا سارا موڈ ایک دم غارت کر گئی۔
کیوں جانا ہے رایان نے چھبتے ہوۓ لہجے میں پوچھا۔
یشال نے اس کا لہجہ محسوس کیا تو اچنبھا سے اسے دیکھنے لگی۔
وہ بھیا بتا رہے تھے کے دادا جان کی طبعیت خراب ہے تو اس لئے۔
تم سالار کو بولو وہ چلا جاۓ اور ہم کچھ دنوں تک ساتھ چلیں گے۔
وہ سر ہلا کر اندر کی طرف مڑ گئی رونی بھی اس کے پیچھے چلا آیا ۔اس نے صوفے پر موجود شاپنگ بیگ یشال کی طرف بڑھاۓ اور بولو مجھے اس طرح کی ڈریسنگ پسند نہیں ہے اگر تم چاہو تو کر سکتی ہو میں تمہیں فورس نہیں کروں گا بٹ میں نے تمہارے لئے کچھ شاپنگ کی ہے یہ دیکھ لو اور اگر تم چاہو تو میری پسند کا لباس پہن لو۔
یشال نے اس کے ہاتھ سے بیگ لئے تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے کے کیا پتہ کس طرح کے ڈریسز ہوں گے لیکن کھول کر دیکھنے ہر اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب اس نے فل سلیویس والے گاؤنز دیکھے جو مختلیف رنگوں میں تھے اور بہت پیارے تھے۔
مجھے قمیض شکوار بہت آچھے لگتے ہیں لیکن یہاں میں نے ڈھونڈیں ہیں لیکن نہیں ملے۔
ہم پاکستان چلیں گے تو وہاں سے لے کر آئیں گے اگر تم چاہو تو۔
یہ بھی اگر تم پہنو تو ویل اینڈ گڈ نہیں تو کسی ملازمہ کو دے دینا۔
یشال آگے بڑھی اور خوشی سے رونی کے گلے لگ گئی اور رایان تو حیران ہی رہ گیا۔
یشال کے شکریہ کہنے پر اس نے اسے اپنے بازوں کےحلقے میں لے لیا اور اپنے لب اس کے بالوں میں رکھ دیے۔
ناول "" روح رایان""
از🖋زرش نور
قسط نمبر ۱۱
یشال آج گھر سے تو ماشہ کے گھر کے لئے نکلی تھی ۔لیکن تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد گاڑی میں کوئی خرابی ہو گئی۔ڈرائیور گاڑی سے نیچے اترا تو اس کے ساتھ ہی یشال بھی گاڑی سے اتر آئی ۔جب تک ڈرائیور گاڑی ٹھیک کرتا یشال اپنے آس پاس دیکھنے لگی ۔روڈ کے دونوں اطراف قد آوردرخت تھے ہوا کے زور سے درختوں کے پڑپڑانے سے بہت ہی ڈراؤنی آواز پیدا ہو رہی تھی ۔یشال کو خوف سامحسوس ہوااس نے اپنے آس پاس سے دھیان بٹانے کے لئے سالار کا نمبر ملایا ۔
تھوڑی دیر کے بعد ماؤتھ پیس سے سالار کی خوشگوار آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
کیسی ہو گڑیا؟
میں ٹھیک ہوں ۔آپ کیسے ہیں؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔کیا ہو رہا ہے؟
کچھ نہیں ماشہ کے گھر کے لئے نکلی تھی لیکن راستے میں گاڑی خراب ہو گئی ہے۔
کہاں ہو میں لینے آ جاؤں؟سالار کی فکرمندی میں ڈوبی آواز سنائی دی۔
نہیں بھیا ڈرائیور ہے ۔
تم رونی کو بتا کر نکلی ہو گھر سے؟
نہیں بھیا ! میں ماشہ کے گھر جا رہی ہوں تو بتانا کیسا۔
بتا کر اور پوچھ کرجایاکرو یشال ۔
اوکے جی آئندہ سے پوچھ کے جایا کروں گی۔
تبھی یشال کے پاس سے ایک گاڑی تیز رفتاری سے گزری اور تھوڑا آگے جا کر رک گئی۔تبھی یشال کو احساس ہوا کے وہ یہاں اکیلی ہے اس نے ڈرائیور کو تلاش کرنے کے لئے نظریں دوڑائی لیکن وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا۔یشال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی۔اس نے دیکھ دور تک روڈ بالکل خالی تھی ہوا کے زور سے درختوں کا شور سائیں سائیں کی آواز ماحول کو کچھ اور پراسرار بنا رہی تھی۔
تبھی یشال نے آگے کھڑی گاڑی سے ایک آدمی کو نکلتے دیکھا اس نے منہ پر مکمل سیاہ ماسک چڑھایا ہوا تھا۔
اسے دیکھ کر یشال لڑکھڑا کر الٹے قدموں چلنے لگی۔
دوسری سائیڈ پر سالا ر ماؤتھ پیس پر پاگلوں کی طرح ہیلو ہیلو کر رہا تھا لیکن یشال کے ہاتھ سے موبائل گر چکا تھا۔
نقاب پوش شخص تیزی سے یشال کی طرف بڑھ رہا تھا یشال نے اسے بڑھتا دیکھا تو اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے دوسری سمت میں بھاگنا شروع کر دیا۔سیاہ میکسی کے ساتھ سر پر سفید حجاب کیے شانوں کے گرد بڑی سی سیاہ چادر لپیٹے وہ پاگلوں کی طرح بھاگ رہی تھی لیکن تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ کسی وجود کے ساتھ ٹکرائی اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو وہ اس کا ڈرائیور تھا جو کمینگی سے مسکرا رہا تھا۔
**********ؔ******
سالارموبائل پر ہیلو ہیلو کرتا ہوا رایان کے پاس پہنچا جو کے میٹنگ روم میں تھا ۔رایان جلدی باہر آؤ ضروری بات کرنی ہے۔
رایان نے سالار کے چہرے پر پریشانی اور فکرمندی دیکھی تو جلدی سے باہر آ گیا۔
سالار نے رایان کو سب کچھ بتایا تو رایان اپنے آفس کی طرف بھاگا جلدی سے اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھائی اور بھاگتا ہوا لفٹ میں داخل ہوا ساتھ ہی اس نے پولیس کو بھی کال کی ۔گاڑی میں بیٹھ کراس نے اندھ دھند گاڑی ماشہ کے گھر کی طرف جانے والے راستے پر ڈال دی ۔سالار ہونٹ بھینچے بیٹھا تھا بار بار اپنے موبائل کو بھی دیکھ رہا تھا۔
بلیک مرسڈیز فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔گاڑی میں موجود دونوں افراد کی جان جس میں تھی اس کی سانسیں ٹوٹ رہیں تھی۔
آخر بیس منٹ کی مسافت کے بعد انہیں گاڑی تو مل گئی لیکن گاڑی کے آس پاس کسی زی نفس کا نام ونشان نہیں تھا۔سالار نے اونچی آواز میں یشال کو پکار رہا تھا۔
آخر کوئی آواز نہ پا کر وہ پنجوں کے بل نیچے بیٹھ گیا اور چھوٹے بچوں کی طرح اس نے رونا شروع کر دیا۔
رایان ہونٹ بھینچے ضبط سے سرخ آنکھیں لئے اپنے اطراف میں دیکھ رہا تھا۔وہ گاڑی کی پچھلی سائیڈ کی طرف گیا تو ٹھٹھک کر رک گیا گاڑی سے تھوڑا سا فاصلے پر اسے خون نظر آیا جیسے کسی کو زبح کیا گیا ہو۔وہ وس سمت بھاگا لیکن تھوڑا سا آگے جا کر نشان ختم ہو گئے تھے۔وہ واپس اسی جگہ پر پہنچا اور آہستہ آہستہ گاڑی کی طرف بڑھنے لگا گاری کی ڈگی سے بلیک چادر کا کونہ باہر نکلا ہوا تھا۔رایان نے کانپتے ہاتھوں سے ڈگی کھولی تو اندر کا منظر دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔خون میں لت پت نیم مردہ حالت میں پڑی تھی وہ اس کا گلے کسی تیز دھار آلے سے کاٹا گیا تھا۔رونی نے آگے بڑھ کر اسے جلدی سے اپنے بازو پر اٹھا لیا اور اپنی گاڑی کی طرف بھاگا۔اس نے چیخ کر سالار کو بلایا سالار بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگا گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اسے ڈال کر وہ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بھاگا۔سالار جب گاڑی میں بیٹھا تو یشال کی حالت دیکھ کر سکتے میں چلا گیا پھر اسے بازو میں بھر کر پاگلوں کی طرح رونے لگا۔یشی آنکھیں کھولو اپنے بھیا سے بات کرو نہ تھوڑی دیر پہلے تو تم بالکل ٹھیک تھی یشی .....یشی پتر.....
اس کی حالت پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
************
سالار آئی سی یو کے باہر بینچ پر ٹوٹا بکھرا بیٹھا تھا ماشہ عفان نیدی گرپیت اور حسن بھی موجود تھا ۔سب کے ہونٹوں پر بس اس کے لئے دعا جاری تھی۔
لیکن اگر یہاں کوئی نہیں تھا تو وہ تھا رایان حیدر اس نے یشال کو ڈاکٹرز کے سپرد کیا اور کھڑا تھوڑی دیر دیکھتا رہا اور پھر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
**************
مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا
مرشدوہ ایک شخص بھی تقدیر لے اڑی
رایان اس وقت مسجد میں بیٹھا تھا اس نے نماز ادا کی اور پھر دعا کےلئے ہاتھ اٹھاۓ
اے میرے غفور ورحیم رب حضرت موسی علیہ سلام اور ان کی قوم کو فرعون سے بچانے والے رب حضرت یوسف علیہ سلام کو کنویں میں محفوظ رکھنے والے رب حضرت یونس علیہ سلام کو مچھلی کے پیٹ میں محفوظ رکھنے والے رب حضرت عیسی علیہ سلام کو زندہ اوپر اٹھا لینے والے رب پتھر میں کیڑے کو خوراک پہنچانے والے رب ساری زندگی کے گناہوں کو ایک توبہ پر معاف کر دینے والے رب اے میرے اب تو بہت غفور و رحیم ہے تیری بارہ گاہ رحمت میں کسی چیز کی کمی نہیں اے میرے رب میں تجھ سے اس کی زندگی مانگتا ہوں میرے رب میرے گناہوں کی سزا مجھے اس کی صورت میں نہ دینا ۔اسے کوئی ہوش نہیں تھا وہ کتنے گھنٹے مسجد میں بیٹھا رہا۔
صبح کی نماز پڑھ کر وہ مرے قدموں کے ساتھ ہاسپٹل میں داخل ہوا تو سب سے پہلے ماشہ نے اسے خوشخبری سنائی کے وہ اب ٹھیک ہے۔ڈاکٹرز نے بتایا ہے کےوہ اب خطرے سے باہر ہے۔
************
ناول ""روح رایان""
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۱۲
حد درجہ طوفان خیزی ،دل میں امڈ کر آنے والے شدید پر خوف،ہراساں کر دینے والے اندیشوں سے بالآخر اسے چھٹکارا حاصل ہوا۔وہ اپنی اندرونی کیفیات پر قابو پا کر آگے بڑھا اور آئی سی یو کے دروازے کے شیشے کے پار اسے دیکھنے لگا جو مختلف مشینوں میں جکڑی ہوئی تھی ۔رایان کی بائیں آنکھ سے ایک آنسو نکلا اور اس کی ہلکی سی شیو میں کہیں چھپ گیا۔ماشہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو رایان نے اس کی طرف دیکھا ماشہ نے اسے تسلی دینے والے انداز میں سر ہلایا۔رایان نے ماشہ کواپنےبازوں کےحلقے میں لے لیا۔
پورے دو دن کے بعد وہ ہوش میں آئی تھی
لیکن وہ ابھی کچھ بھی کھا پی نہیں سکتی تھی وہ بول بھی نہیں رہی تھی۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کے اسے بولنے میں تکلیف ہوتی ہے اور جب تک اس کا زخم صیح سے تیار نہیں ہو جاتا وہ ہاسپٹل میں ہی رہے گی۔
رایان جب بھی اس کے سامنے جاتا تو اسے محسوس ہوتا جیسے وہ اسے پہچانے کی کوشش کر رہی ہے۔سالار کے ساتھ اس کا رویہ نارمل تھا لیکن باقی سب کو اجنبی نظروں سے دیکھتی تھی۔
ہاسپٹل میں ایک دن سالار اس کے ساتھ رات کو رکتا تھا اور ایک رات رایان باقی سب بھی آتے رہتے تھے حسن اس دن کے بعد پھر نہیں آیا۔آج بھی رایان گھر سے سوپ وغیرہ لے کر ہاسپٹل پہنچا ڈاکٹرز نے اب اسے تھوڑا تھوڑا کھانے کے لئے کچھ دینے کو کہا تھا اس لئے وہ گھر سے اس کے لئے اس کی پسند کی چیزیں لے کر آتا تھا لیکن وہ بہت کم ہی کھاتی تھی۔
کیسی ہو ؟ رایان نے اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔
اس نے گردن اثبات میں ہلا دی۔
بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر ہم اپنے گھر چلیں گے۔
سالار نے رایان کو آتے دیکھ کر پہلے ہی یشال کے سر کا بوسہ لے کر وہاں سے نکل گیا تھا۔رایان کے ساتھ اس کی بات چیت ابھی بھی بند تھی۔رایان آفس سے سیدھا ادھر ہی آیا تھا باقی کھانے کی چیزیں اسے ڈرائیور نے لا کر دی تھیں ۔وہ واش روم سے وضو کر کے باہر نکلا اور جاۓ نماز بچھا لی وہ اب تسلسل سے نماز ادا کرتا تھا۔یشال اسے بہت غور سے اسے نماز پڑھتا دیکھتی رہی تھی۔اس نے بھی اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کر لیا تھا۔جاۓ نماز فولڈ کرتے ہوۓ رایان نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں پھیر لیں ۔وہ ہلکا سا مسکرایا اور کرسی گھسیٹ لر اس کے پاس بیٹھ گیا اس نے اس کا ہاتھ پکڑا تو یشال نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور غصے سے رایان کی طرف دیکھا۔وہ اکثر اس کے ساتھ ایسے ہی اجنبیوں والا برتاؤ کرتی تھی۔رایان مسکرا کر پیچھے ہو گیا اس نے ایک پیالے میں سوپ ڈالا اور واپس پہلے والی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا اس نے چمچ میں سوپ بھر کر اس کی طرف بڑھایا تو اس نے غور سےاس کی طرف دیکھا اور سوپ پی لیا وہ ساتھ رومال سے اس کا منہ بھئ صاف کرتا جا رہا تھا۔
رایان نے ہاسپٹل میں اس کے لئے سخت سیکیورٹی کا انتظام کیا تھا کوئی بھی شخص دروازے کے باہر کھڑے گارڈز کی چیکنگ کے بغیر نہیں آ سکتا تھا۔وہ جان گیا تھا کے اس سب کے پیچھے جو بھی تھا وہ یشال کی زریعے اسے تکلیف دینا چاہتا تھا۔رایان یشال کے ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔اس کے بعد اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کے وہ بہت برا حال کرے گا ان لوگوں کا جن لوگوں نے اس کی یشال کی اس حالت کے زمہ دار تھے وہ انہیں پاتال سے بھی ڈھونڈ کر نکال لے گا۔اپنی سوچوں میں گم اسے پتہ ہی نہیں چلا کب اس کی آنکھ لگ گئی وہ اسی چئیر پر سو گیا۔رات کو بےآرامی کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تو اس کی پہلی نظر یشال پر ہی پڑی وہ بڑی فرصت سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔رایان کے مسکرانے پر اس نے نظریں پھیر لیں۔
اس کے گلے کی پٹی روزانہ چینج ہو رہی تھی رایان نے دیکھا زخم باہر سے تیار ہو گیا تھا لیکن اس کی گردن پر نشان ایسے تھا جیسے گلے پر ہار بن گیا ہو وہ اپنی گردن کو ادھر ادھر نہیں موڑ سکتی تھی ۔آج سنڈے تھا تو سب لوگ ہی ہاسپٹل میں اس سے ملنے آۓ تھے سالار اس کے ساتھ بیڈ پر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ماشہ عفان مغداد گرپیت نیدی رایان سب اس وقت ہاسپٹل کے اس کمرے میں موجود تھے۔یشال نے اشارے سے ماشہ سے مغداد کو مانگا ماشہ نے مغداد کو اس کو دیا تو وہ لپک لپک کر رایان کی طرف بڑھ رہا تھا۔رایان مغداد کو لے کر یشال کے پاس ہی بیڈ پر جگہ بنا کر بیٹھ گیا ۔مغداد غور سے یشال کو دیکھ رہا تھا یشال نے ہاتھ سے اس کے گال کو پکڑنا چاہا تو وہ رایان کے گلے لگ گیا اور یشال کا ہاتھ رایان کے گال سے جا ٹکرایا اور وہ سالار کی موجودگی کی وجہ سے شرم سے پانی پانی ہو گئی۔رایان نے اس کی شرمندگی کو مٹانے کےلئےمغداد کو لے کر باہر نکل گیا۔یشال نے اس کے جانے کے بعد سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو نظر سیدھی نیدی پر پڑی اس نے آنکھ مار کر رایان کی طرف اشارہ کیا جو کے مغدا کے ساتھ باتوں میں مصروف دروازے سے باہر نکل رہا رایان کے آفس میں آج کل کام کا بہت بوجھ تھا ایک تو رات کو اس کی نیند پوری نہیں ہو رہی تھی اور ساتھ میں کام کی زیادتی کی وجہ سے اسے گھر جانے کا وقت ہی نہیں مل رہا تھا اسے جو کچھ بھی منگوانا ہوتا وہ ڈرائیور سے ہی منگوا لیتا آفس میں ہی ۔آفس سے وہ سیدھا ہاسپٹل جا رہا تھا اور صبح وہاں سے آفس کے لئے نکل آتا۔سالار کی کوئی طبعیت خراب تھی اس لئے وہ خراب طبعیت کے باوجود دن کا بیشتر وقت ہاسپٹل میں یشال کے ساتھ گزار رہا تھا۔ آج رایان ہاسپٹل پہنچا تو ڈاکٹر یشال کی ڈریسنگ کر رہی تھی ۔رایان کو دیکھ کر لیڈی ڈاکٹر نے دمائل پاس کی ۔رایان نے بھی جوابی مسکراہٹ پاس کی اور ایک سائیڈ پہ رکھی چئیر پر بیٹھ گیا ۔ یشال نے کن اکھیوں سے رایان کو دیکھا جو بلیک ڈریس پینٹ پر وائٹ شرٹ پہنے اپنا کوٹ اپنے بازوں پر ڈالے ماتھے پر بکھرے ہوۓ بال بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ کسی کے بھی دل میں اتر سکتا تھا ۔ڈاکٹر یشال کی ڈریسنگ کر کے فارغ ہوئی تو اس نے رایان کو ایک بار پھر دیکھا لیکن رایان یشال کو دیکھ رہا تھا ۔وہ اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ رہا تھا ۔وہ غور سے ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی ڈاکٹر کے رایان کو دیکھنے پر اس نے جلدی سے رایانُ کی طرف دیکھا رایان کو اپنی طرف دیکھتے پا کر اس نے نظریان چرا لی ۔ڈاکٹر کے باہر جانے کے بعد وہ چئیر سے اٹھ کر یشال کے پاس آیا اور جھک کر اس کی ڈریسنگ دیکھنے لگا ۔یشال نے جلدی سے اپنا دوپٹہ صیح کیا جو کے ڈریسنگ کروانے کی وجہ سے اس نے اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔رایان دلچسپی سے اس کی حرکات نوٹ کر رہا تھا ۔یشال نے اب تھوڑی تھوڑی باتیں بھی شروع کر دی تھیں اور رایان نے ڈاکٹر سے اجازات لے لی تھی کے وہ اسے گھر لے کر جا سکتا ہے۔
************
اس نے آج آفس سے چھٹی لے لی تھی گھر سے اس نے ملازمہ کو بھی بلا لیا تھا ۔سارا سامان گاڑی میں رکھواکر اس نے یشال کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑے ہونے میں مدد کی وہ ابھی کھڑی ہوئی ہی تھی کے سالار اندر داخل ہوا اور آگے بڑھ کر یشال کو تھام لیا۔رایان نے یشال کا ہاتھ چھوڑ دیا یشال نے رایان کو دیکھا تو اس نے نظریں پھیر لیں ۔
میں یشال کو اپنےاپارٹمنٹ میں لے کے جاؤں گا اس نے رایان کو مخاطب کیےبغیر انفارم کیا ۔یشال رایان کے ساتھ جانا چاہتی تھی لیکن وہ سالار کو بھی انکار نہیں کر سکتی تھی۔اب کی بار رایان نے اک امید سے یشال کی طرف دیکھا اور اس کی خاموشی پر اپنا کوٹ ایک بازو سے دوسری بازو پر منتقل کرتا ہوا وہاں سے نکل گیا یشال اس کی پیٹھ کو دیکھتی رہ گئی۔
ناول ""روح رایان""
از🖋 قلم زرش نور
قسط نمبر ۱۳
وہ بہت غصے میں وہاں سے نکلا ریش ڈرائیو کرتے ہوۓ گھر پہنچا اور ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھا اپنے کمرے میں پہنچا اپنا کوٹ اتار کر اس نے زور سے زمین پر پٹخا ٹائی کا ناٹ ڈھیلی کی اور غصے سے کمرے میں ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا ۔اس زیادہ غصہ یشال پر تھا جس نے ایک بار بھی نہیں کہا کے وہ اپنے گھر جانا چاہتی ہے۔وہ ٹیرس پر آگیا اس نے سیگریٹ سلگایا اور ٹیرس کی ریلینگ پر دونوں بازو رکھ دئیے ۔اس کا دماغ اس وقت کھول رہا تھا وہ ایک کے بعد ایک سیگریٹ سلگاتا گیا ۔اس کا دماغ اس وقت منفی سوچوں کی آماہ جگا بنا ہوا تھا۔
***************
یشال سالار کے ساتھ گھر آگئی اسے راستے میں ہی ماشہ کی کال آئی تھی اور اس کے پوچھنے پر یشال نے اسے بتایا کے وہ سالار کے ساتھ آ گئی ہے ۔تو وہ خاموش ہو گئی خاموشی کا یہ سلسلہ جب زیادہ طویل ہونے لگا تو یشال نے ہی ماشہ کو پکارا۔
یشال تم رایان کے ساتھ جاتی تو آچھا ہوتا۔
وہ سالار کی موجودگی کی وجہ سے خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
یشال تم مجھے سن رہی ہو۔"ماشہ کی آواز ماؤتھ پیس میں گونجی۔"
جی میں سن رہی ہوں۔
یشال تم نے اسے بتایا تھا کے تم سالار کے ساتھ جاؤ گی۔
نہیں !
اوکے میں کل دن کو آوں گی تمہاری طرف تم اپنا خیال رکھنا۔
اس کی کال کے بعد سے یشال کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا کے پتہ نہیں وہ کتنا ناراض ہو گا۔اس دو تین بار موبائل لیا رایان کو کال کرنے کے لئے لیکن اسے ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
****************
اگلی صبح یشال کی آنکھ دس بجے کھلی اس نے سب سے پہلے موبائل دیکھا اسے یقین تھا کے رایان کی کال آئی ہو گی۔
لیکن موبائل بغیر کسی نوٹیفیکشن سے اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ہاسپٹل میں وہ رات رہ کر جاتا تھا لیکن پھر بھی اس وقت تک وہ دو بار کال کر کے پوچھ چکا ہوتا تھا ۔یشال کا دل افسردگی سے بھر گیا۔
رایان شاور لے کر نکلا تو اس نے اپنا سیل فون اٹھایا تو ماشہ کی مسڈ کال آئی ہوئی تھی ۔وہ جلدی میں تھا اس لئے آفس کے لئے نکل گیا ۔وہ آفس میں پہنچا تو میگی نے اسے بتایا کے ناشہ اس کے آگس میں اس کا انتظار کر رہی ہے۔
آفس میں داخل ہو کر اس نے ماشہ کو سلا م کیا اس کے سر پر بوسہ دے کر وہ اپنی سیٹ ہر بیٹھ گیا۔
کیسی ہو؟
ٹھیک ہوں ۔تم کیسی ہو؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔
کدھر سے آرہے ہو ابھی؟
گھر سے۔وہ مختصر جواب دے رہا تھا وہ اس کے آنے کا مقصد جانتا تھا۔
سالار کی طرف نہیں گئے؟
نہیں!
کیوں !
ماشہ کوئی اور بات کرنی ہے میں نے ایک میٹنگ کے لئے نکلنا ہے۔
ٹھیک میں جا رہی ہوں لیکن رایان محبت میں انا نہیں ہوتی ۔وہ اس کا بھائی ہے وہ اسے انکار نہیں کر سکتی۔اسے تمہاری ضرورت ہے۔
مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔وہ جانتی ہے میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا اسی لئے دونوں بہن بھائی میری برداشت کا امتحان لے رہے ہیں ۔
رایان بعد میں بات کریں گے ابھی تم غصے میں ہو۔
آج کے بعد اس موضوع پر بات نہیں ہو گی۔
رایان وہ بہت بڑے حادثےسے گزری ہے۔
اب کی بار رایان ٹھنڈا پڑ گیا۔
اس کی تکلیف کا ہی اندازہ تھا ورنہ میں دیکھتا سالار اسے کیسے لے کے جاتا ہے۔
تم شام کو اس کے پاس جاؤ گے نہ۔
اور کہاں جاؤں گا وہ رہ سکتی ہے میرے بغیر لیکن میں نہیں رہ سکتا۔وہ بےبسی سے بولا۔
اب کی بار ماشہ مسکرا دی۔
چلو پھر میں چلتی ہوں۔
سنو تم گھر کیوں نہیں آئی؟ ادھر آفس میں چلی آئی۔
میں نہیں چاہتی تھی پھر تم میری وجہ سے ایک اور چھٹی کرو۔
اوکے وہ مسکرا دیا۔
اسے چھوڑنے پارکنگ تک آیا اور اسے گاڑی میں بٹھا کر پھر واپس گیا۔
****************
یشال نے آج بہت دنوں کے بعد شاور لیا اس کے کپڑے رات کو ہی ڈرائیور لا کر دے گیا تھا وہ بہت غصے میں تھا لیکن پھر بھی اسےاس کی ضرورتوں کا خیال تھا۔یشال نے اس کے لائے ہوۓ کپڑوں میں سے ہی ایک پنک کلر کا گاؤن پہنا گیلے بال کھلے چھوڑ دئیے تھے۔وہ آکر لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ گئی جہاں اوپن کچن میں سالار ڈنر تیار کر رہا تھا ۔سالار نے ایک نظر یشال کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اور پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔تبھی ڈور بیل کی آواز پر سالا ر اپنا کام درمیان میں ہی چھوڑ کر گیا ۔اس نے دروازہ کھولا تو آگے نیدی کھڑی تھی۔بلیک قمیض شلوار میں بلیک دوپٹہ گلے میں ڈالے سالار کی کچھ ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگا جو اس کے دروازہ کھولنے پر کنفیوژ سی لگ رہی تھی۔سالار دروازہ کھول کر ایک طرف کو ہٹ گیا۔نیدی اندر آئی اور یشال کی طرف بڑھ گئی۔
کیسی طبعیت ہے تمہاری؟
میں بہتر ہوں۔
نیدی نےکچن کی طرف جاتے سالار کی چوڑی پشت کو دیکھا جو بےنیاز سا واپس اپنے کام میں مصروف ہو چکا تھا۔
نیدی ایک لمبی سانس لی اور پھر سے یشال کی طرف متوجہ ہو ئی۔
رایان سر آۓ ہیں۔نیدی کی اس بات پر سالار نے اس ایک گھوری سے نوازا اس کے بس میں ہوتا تو ابھی اس لڑکی کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا۔
یشال نے نفی میں سر ہلایا۔
تبھی دروازے پر دوبارہ سے بیل ہوئی سالار جانے کے لئے مڑا تو اس سے پہلے ہی نیدی کھڑی ہو گئی میں دیکھتی ہوں کو ن ہے۔
اس نے دروازہ کھولا تو آگے رایان تھا۔
ہیلو سر۔
ہیلو کیسی ہیں آپ؟
جی فائن سر وہ رایان سے ہمیشہ سے ہی بہت مرعوب تھی۔
وہ اندر آیا تو پہلی نظر یشال پر پڑی اور اسے اپنے لاۓ ہوۓ لباس میں ملبوس دیکھ کر وہ ساری خفگی بھول گیا۔
سالار کی نظر جب رایان پر پڑی تو اس کا ہلک تک کڑوا ہو گیا۔وہ جیسے کل یشال کو لے کر آیا تھا اس کا خیال تھا اب رایان جیسا انا والا بند ادھر کا رخ نہیں کرے گا ۔لیکن سالار یہ نہیں جانتا تھا کے جہاں محبت ہوتی ہے وہاں اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے۔
رایان نے یشال کو مخاطب نہیں کیا لیکن اس کے برابر آکر بیٹھ گیا۔اور اپنے موبائل میں بزی ہو گیا جبکہ یشال کا سارا دھیان اب اس کی طرف تھا کہ ابھی وہ کوئی بات کرے گا۔لیکن لگ رہا تھا رایان کے لئے اس وقت اپنے موبائل سے زیادہ ضروری اور کوئی چیز نہیں ہے۔
آخر یشال نے ہی بات کا آغاز کیا۔
کیسے ہیں آپ ؟
رایان کے ہاتھ ایک پل کے لئے رکے اس نے ابرو اٹھا کر یشال کو دیکھا اور طنزیہ بولا آپ کے سامنے ہوں ٹھیک ہوں تبھی یہاں ہوں۔
یشال کی برداشت ختم ہو گئی اس نے اس سے پہلے کبھی بھی اس سے ایسے بات نہیں کی تھی۔اسکی آنکھوں سے آنسو روانی سے بہنے لگے۔
مجھے روتی ہوئی عورتیں بہت بری لگتی ہیں۔
یشال نے اسے شکایتی نظروں سے دیکھا ۔رایان کے دل کو کچھ ہوا ۔
لیکن آج وہ بہت بے رحم بنا ہوا تھا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونا عورتوں کا بہترین مشغلہ ہے۔
اوکے اپنا خیال رکھنا میں چلتا ہوں۔
اللہ حافظ !یہ کہہ کر وہ یشال کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے نکل گیا۔
ناول "" روح رایان""
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۱۴
نیدی جو کے سالار کے ساتھ کچن میں اس کی مدد کر رہی تھی اس نے حیران ہو کر رایان کو جاتے دیکھا۔سالار جانتا تھا وہ جا رہا ہے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
نیدی یشال کے پاس آئی اور اس سے رایان کے جانے کے بارے میں ہوچھا۔
کچھ کام تھا اسے بس مجھ سے ملنے آیا تھا۔یشال نے نظریں چراتے ہوۓ جواب دیا۔
سالار نے اس کی غلط بیانی پر سر جھٹکا۔وہ بے شک اپنے کام میں مشغول تھا لیکن اس کا سارا دھیان ان دونوں کی طرف ہی تھا۔
کھانا کھا کر نیدی جانے کے لئے کھڑی ہو گئی۔
کس کے ساتھ جاؤ گی اس وقت؟یشال نے اس سے پوچھا۔
چلی جاؤں گی پاس ہی توجانا ہے۔
نہیں اکیلے نہیں جانا بھیا تمہیں چھوڑ آئیں گے۔
سالار نے گھور کر یشال کو دیکھا لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔
***********
وہ دونوں اپارٹمنٹ سے نکلے تو سالار نے اپنی بلڈنگ کے سامنے ہی ایک گاڑی کھڑی دیکھی اور مطمئن ہو کر آگے بڑھ گیا۔
میں کافی دنوں سےآپ کو کچھ بتانا چاہتی تھی۔
ہمم بولو!
نہیں ابھی نہیں پھر کبھی۔
جیسے تمہاری مرضی سالار نے کندھے اچکاۓ۔۔
یہ شخص جتنا بےنیاز بنتا تھا اتنا نیدی کا دل اس کی طرف کھینچتا تھا۔
نیدی لے اپارٹمنٹ کے باہر پہنچ کر سالار نے خدا حافظ کہہ کر واپسی کی راہ لی ۔پھر کچھ سوچ کر واپس مڑا !سنو نیدی جو کے اپارٹمنٹ کا لاک کھول رہی تھی ۔اس کی طرف مڑی۔جی!
ایسے کپڑوں میں تم آچھی لگتی ہو۔وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
نیدی خوشگوار حیرت میں گری اس کو جاتا دیکھتی رہی۔مطلب میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔
*** ******
رایان سالار کے گھر سے نکل کر سیدھا
البر ٹو کیسینو میں پہنچا تھوڑی دیر کے بعد اسے اپنا مطلوبہ شخص مل گیا۔
رایان جا کر اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور اپنی پاکٹ سے ایک بھاری رقم نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔
مجھے جاننا ہے کے آج سے ایک مہینہ پہلے ویٹانہ روڈ پر ایک لڑکی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی ایک شخص کو میں جانتا ہوں لیکن دوسرے کے بارے میں معلومات چاہئے ۔کب اور کہاں ملیں گے دونوں ایک ساتھ۔
مجھے کیا ملے گا؟
تمہاری سوچ سے زیادہ۔
دو دن بعد یہاں پہ ہی ملیں گے۔
رایان تھوڑی دیر بیٹھا رہا اور پھر چل دیا۔
لیکن دور کسی کی نظریں اس پر ہی ٹکی تھی وہ جانتا تھا کے وہ یہاں ضرور آۓ گا ۔
اس کے جانے کے بعد وہ آدمی اس آدمی کے پاس آ کر بیٹھا۔
میں نے اسے دو دن بعد آنے کے لئے بولا۔
اس آدمی نے اس کے آگے ایک پرچی رکھی۔
اس جگہ کا بتا دینا۔
اوکے!
********
وہ فریش ہو کر باہر آیا تو اس کا موبائل رنگ کر رہا تھا۔
اس نے دیکھا تو یشال کا نمبر جگمگا رہا تھا۔اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔اس نے کینسل کر دی۔تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ رنگ ہوئی۔اس بار رایان نے کال ریسیو کر لی۔
بولو کیوں کال کی ہے ؟
آپ ناراض ہیں مجھ سے؟
یہ پوچھنے کی ضرورت ہے۔
میں آپ کے ساتھ جانا چاہتی تھی لیکن میں سالار بھیا کو بھی انکار نہیں کر سکتی تھی ۔
اوکے کچھ اور کہنا ہے۔
نہیں !
اوکے اللہ حافظ۔
رایان کی ناراضگی تو کب کی ختم ہو گئی تھی۔وہ تو بس اسے تنگ کر رہا تھا۔
**************
یشال نے مو بائل کو گھور کر دیکھا اور سوچ لیا کے اب وہ بھی کال نہیں کرے گی۔
دروازے پر دستک دے کر سالار اندر داخل ہوا ۔
جاگ رہی ہو ابھی تک؟
بس نیند نہیں آ رہی تھی ۔
یشال میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کے دادا جان کی طبعیت خراب ہے وہ ہمیں بلا رہے ہیں ۔
کب جانا ہے؟
یشال کو اب رایان سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کے وہ اسے بتاۓ بغیر اب پاکستان جاۓ گی۔یہ جانے بغیر کے وہ اس کے ہاسپٹل سے یہاں آنے پر اتنا ناراض ہے تو اس کے پاکستان جانے پر وہ کیا کرے گا۔لیکن آج اس کی باتوں نے اسے بہت ہرٹ کیا تھا وہ اس سے بدگمان ہو گئی تھی۔
پرسوں کا ٹکٹ کروا دیتا ہوں میں کل آفس جاؤں گا اور تم نے گھر میں آرام کرنا ہے ۔تمہاری پیکنگ میں آ کر کر دوں گا۔
سالار اب اس فکر میں تھا کے وہ یہاں سے یشال کو کیسے لے کر جاۓ گا ۔وہ ایسے جانا چاہتا تھا تاکہ رایان کو خبر بھی نہ ہو لیکن باہر کھڑے اس کے آدمی جنہیں اس نے یشال کی حفاظت کے لئے رکھا ہے ان سے بچ کر کیسے نکلے گا۔پھر کچھ سوچ کر وہ مطمئن ہو گیا۔
ناول "" روح رایان ""
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۱۵
رایان آج پھر کیسینو میں آیا تھا اسے وہ آدمی سامنے ہی مل گیا اس نے رایان کے آگے ایک پرچی رکھی اور اٹھ گیا۔ رایان کچھ سوچ کر مسکرا دیا ۔تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ اٹھ آیا۔
وہ وہاں سے سیدھا اپنے گھر آیا گھر آکر اس نے اپنی گاڑی میں اپنے خاص آدمی روزی کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور خود اپنے گھر کی بیک سائیڈ پر آگیا۔
*********
احمر اس وقت اپنے فلیٹ پر موجود تھا اس کے ساتھ اس کا خاص آدمی میک بھی تھا جسے اس نے رایان کے ہاں ڈرائیور رکھوایا تھا اور آخر میں اس کی مدد سے اس رایان حیدر کو وہاں چوٹ پہنچائی تھی جہاں کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور آج وہ باقی سارا حساب بھی برابر کرنےوالا تھا۔لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی کے وہ اس شخص کو دھوکہ دے سکتا ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھوں پر نچا رہا تھا۔رایان اپنے گھر کی بیک سائیڈ سے نکلا وہاں پہ ایک گاڑی کھڑی تھی وہ اس میں بیٹھا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔اپنی مقررہ منزل سے تھوڑا پہلے وہ گاڑی سے اتر گیا ۔وہ ایک چار مالے بلڈنگ تھی جس کی تیسری منزل پر رایان نے جانا تھا۔رایان نے بلڈنگ کے باہر موجود سیکیورٹی گارڈ کو اپنا کارڈ دیکھایا وہ اس وقت ڈیکیوری بواۓکپڑوں میں تھا اس نے گارڈ کو پیزا ڈیلیور کر نے کا کہا اور اندر چلا گیا۔اس نے لفٹ میں داخل ہو کر پیزا والے ڈبے سے گن نکالی اس پہ سائلنسر لگایا لفٹ سے باہر نکلنے سے پہلے اس نے اپنی کیپ اپنے سر پر اس طرح رکھی تاکہ سی سی ٹی وی کیمرے میں اس کا چہرہ نظر نہ آۓ۔اس نے جا کر دروازے پر دستک دی ۔
احمر نے حیرانگی سے دروازے کی سمت دیکھا اس وقت کون آ گیا۔اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا آگے ڈیلیوری بواۓ تھا۔
آپ کا آرڈر سر۔
ہم نے کوئی آرڈر نہیں ! اس کی بات اس کے منہ میں ہی رہ گئی کیونکہ ایک زوردار کک اس کے منہ پر پڑی تھی ۔اس کے منہ سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔رایان نے آگے بڑھ کر دروازہ لاک کیا ۔احمر نے اجنبھا سے اسے دیکھا۔تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
رایان مسکرایا اور ایک کرسی گھسیٹ کر احمر کے پاس بیٹھ گیا ۔
تم نے تو پوری کوشش کی تھی کے تم میرا کام تمام کر سکو۔لیکن تم یہ بات کیوں بھول گئے کے تم سات سال میرے ساتھ رہے ہو اور میں تمہاری ہر چال سمجھتا ہوں۔
تبھی واش روم سے ڈرائیور موری باہر نکلا ۔رایان نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
تم آؤ ! تمُ تو میرے خاص مہمان ہو یشال کو مقررہ جگہ پر تم نے ہی ہہنچایا تھا نہ۔
ڈرائیور نے ادھر ادھر دیکھا وہ کسی بھی طرح ٹیبل پہ رکھی اپنی گن اٹھانا چاہتا تھا ۔لیکن رایان اسے اتنا موقعہ نہیں دینا چاہتا تھا اس نے پہلے اس کی ٹانگ کا نشانہ لیا پھر اسکی دوسری ٹانگ پر گولی ماری ۔وہ نیچے گر گیا اور تڑپنے لگا۔پھر وہ احمر کی طرف مڑا۔
*******ؔ**
وہاں سے نکل کر رایان سیدھا سالار کے فلیٹ پر آیا لیکن وہ لاک دیکھ کر وہ پاگل سا ہو گیا۔اس نے سالار کے نمبر پر کال کی۔
دوسری بیل پر کال ریسیو کر لی گئی۔
سالار کہاں ہو تم لوگ؟
رایان ہمارے دادا بیمار ہیں اس لئے ہم لوگ ہاکستان جا رہے ہیں ہمارا جہاز پانچ منٹ میں ٹیک آف کر نے والا ہے ۔اگر تم پاکستان آنا چاہتے ہو تو میں تمہیں ہمارا پاکستان کا ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں آ جانا۔
اس نے کال کاٹ دی اور اگلے ہی پل اس کے واٹس اپ پر اسے میسیج موصول ہوا جس میں پاکستان کا ایڈریس تھا۔
تیار ہو جاؤ یشا ل میں آ رہا ہوں اور اس بار میں تمہیں بہت بری سزا دوں گا۔
*******ؔ**********
یشال اور سالار پاکستان پہنچے تو احمد حسن انہیں خود لینے ائیر پورٹ آے ہوۓ تھے۔
بھیا آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا؟
نہیں ! سالار نے مختصر جواب دیا۔
آپ نے کہا تھا دادا جان بیمار ہیں ۔
ہاں بولا تھا۔
وہ ٹھیک ہیں بالکل !
ہاں ٹھیک ہیں تو!
بھیا مجھے نہیں پتہ آپ بتاؤ آپ مجھے کیوں لے کے آۓ ہیں پھر۔
اس لئے تاکہ رونی پاکستان آۓ ۔
کیوں!
کیونکہ رونی حیدر چاچو کا بیٹا ہے ۔
کیا؟
آپ کیسے جانتے ہیں ؟
میں نے رونی کے آفس میں حیدر چاچو کی تصویر دیکھی ہے ۔میرے پوچھنے پر کے یہ کون ہیں۔ اس نے تصویر کے ٹکڑے کر دئے ۔اگر میں اسے بتاتا کے وہ میرے کون ہیں تو وہ کبھی پاکستان نہ آتا ۔اس لئے میں تمہارے زریعے اسے پاکستان لانا چاہتا ہوں۔حیدر چاچو نے اپنی آخری سانسوں میں دادا جی کو بتا گئے تھے انھوں نے دادا جی سے یہ بات چھپائی تھی ان کے ڈر کی وجہ سے۔
لیکن بھیا رومانہ چاچی انہیں دادا جی نے بتا دیا ہے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے ویسے بھی فاریہ اکیلی ہے اس لئے وہ بھی خوش ہیں کے چلیں فاریہ کے بھی بہن اور بھائی ہیں۔
حویلی پہنچنے پر سالار سے زیادہ یشال کا شانداراستقبال کیا گیا تھا ۔رومانہ بیگم بہت خوشی سے ملی تھیں کے ان کی بہو آئی ہے۔
*************
رایان نے اپنے کانٹیکٹ استعمال کیے تھے اور تین دنوں میں اس کا پاکستان کا ویزا لگ گیا تھا۔
اور آج اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کے وطن پاکستان کی سرزمیں پر پہلا قدم رکھا تھا۔تیز ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا۔ائیرپورٹ سے وہ سیدھا ایک فائیو سٹار ہوٹل میں گیا وہان اپنا سامان رکھ کر اس نے ہوٹل کے مینیجر کو اپنے موبائل پر پرہ دکھایا کے اسے اس جگہ جانا ہے اس نے اسے ہوٹل کی گاڑی میں ہی اسے آگے بھیجا ۔وہ گاؤں میں جس وقت پہنچا رات کے گیارہ بج رہے تھے ۔اس نے حویلی کے باہر چوکیدار کو بتایا کے اسے سالار حیات احمد سے ملنا ہے ۔
وہ ایک ملازم کی میعت میں اندر بیٹھک میں آیا تھوڑی دیر کے بعد ایک باریش بزرگ کمرے میں داخل ہوۓ ۔رایان نے انہیں آپنا تعارف کروایا تو وہ روتے ہوۓ اس کے گلے لگ گئے۔رایان کا حیرانگی ہوئی ان کے آنسو دیکھ کر تھوڑی دیر میں ہی سالار ان تک پہنچا اور اس نے احمد حسن کو رایان سے الگ کیا ۔سالار رایان سے بہت آچھے طریقے سے ملا اب رایان کو سالار کا رویہ بھی غیر معمولی لگا ۔سالار نے رایان سے پوچھا کے وہ اس وقت یہاں کیسے پہنچا ہے۔اور پھر اس کے بتانے پر وہ باہر نکل گیا۔
کھانا کھا کر سالار نے رایان کو آرام کرنے کے لئے کہا ۔رایان تو یہ سوچ کر آیا تھا کے وہ پہلے سالار سے بات کرے گا کے وہ یشال کو اس کے ساتھ بھیج دے اور اگر وہ نہ مانا تو پھر وہ کورٹ اور پولیس سے اپنی ایمبیسی سے رابطہ کرےگا ۔لیکن یہاں تو سب کچھ الٹ تھا۔رایان کو کمرے میں چھوڑ کر سالارچلا گیا۔رایان وہی پاس پڑے صوفے ہر بیٹھ گیا اس نے لائٹ نہیں جلائی ۔تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی اور ایک ملازم کپڑوں کا ایک جوڑا رایان کو دے کر گیا ۔رایان نے وہاں بیٹھ کر ایک سیگریٹ جلایا اور سوچنے لگا کے یہ کیا معاملہ ہے ۔
وہ کپڑے بدل کر بیڈ پر آیا تو اسے محسوس ہوا کے بیڈ پر ایک اور وجود بھی ہے اس نے اپنے موبائل کی لائٹ جلائی تو دیکھا وہ یشال تھی جو لگ رہا تھا گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہی ہے۔رایان کو ایک خوشگوار حیرت ہوئی وہ خود بھی تو سب سے پہلے اسے ہی دیکھنا چاہتا تھا۔آج وہ پورے ایک ہفتے کے بعد اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اس کے برابر لیٹ گیا اور اس کے منہ پر آۓ بال پیچھے کر کے اسے دیکھنے لگا۔وہ بہت تھکا ہوا تھا لیکن اس کا چہرہ دیکھ کر ساری تھکن کئی اڑن چھو ہو گئی تھی۔
*******
ناول "" روح رایان""
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۱۶
یشال کی آنکھ کھلی تو اس نے محسوس کیا اس کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں ہے۔وہ گھبرا کر جلدی سے اٹھی لیکن اس کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ کسی کی بانہوں میں تھی ۔یشال کو لگا اس کی سانس رکنے لگی ہے اس نے ہمت کر کے دوسری طرف موجود انسان کے چہرے سے لحاف ہٹایا تو حیرت زدہ رہ گئی۔وہ کافی دیر اس کے چہری کو دیکھتی رہی اس نے آنکھیں موندی ہوئیں تھیں۔
نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا۔اس نے آنکھیں بند کیے بھی اس کی نظروں کی تپش محسوس کر لی تھی۔
اس کی بات سن کر یشال نے جلدی سے اپنی پلکوں کی جالر گرا دی۔وہ اسے کیسے بتاتی کے اس نے کتنی بار خواب میں دیکھا کے وہ اس کے اتنے ہی قریب ہے۔
رایان نے آنکھیں کھولی تو وہ اپنی سوچوں میں گم تھی ۔رایان نے اپنی گرفت ڈھیلی کی اور اسے آزاد کر دیا۔یشال تھوڑی دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر اپنی جگہ سے اٹھ گئی ۔اس نے اٹھ کر ایک بار پھر رایان کی طرف دیکھا کیوں کہ اس کا دوپٹہ سامنے صوفے پر پڑا تھا اور اسے رایان کے سامنے بغیر دوپٹے کے بہت ہی عجیب لگ رہا تھا۔وہ جلدی سے اٹھی اور بھا گنے کے انداز میں اپنے دوپٹے کے پاس پہنچی اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو رایان اسے ہی دیکھ رہا تھا۔یشال اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی اور واش روم میں گھس گئی۔
رایان نے مطمئن ہو کر پھر سے آنکھیں موند لیں ۔یشال نے رایان کی پسند کی مطابق وائٹ کلر کی قمیض ساتھ وائٹ ہی ٹراؤز اور ساتھ بڑا سا بلیو کلر کا دوپٹہ رکھا۔وہ فریش ہو کر باہر آئی تو تب بھی رایان کی آنکھیں بند تھی یشال نے سوچا وہ سو رہا ہے تو وہ باہر نکل گئی۔
گھر میں سب بہت خوش تھے اس کے آنے کا سن کر دادا جی چاچی فاریہ سب بہت خوش تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کے رایان حیدر اتنی جلدی معاف کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔
وہ سب لوگ لاؤنج میں اس کا انتظار کر رہے ۔تبھی وہ سیڑھیوں سے اترتا دیکھائی دیا۔بلیک قمیض شلوار پر ہاف وائٹ شادر رکھے بڑی متانت سے چلتا ہوا نیچے آیا۔
رومانہ بیگم فاریہ کھڑی ہو گئیں اس نے پاس آ کر دونوں کو سلام کیا۔
تبھی سالار اس کے قریب آیا رایان یہ میرے دادا جان ہیں اور تمہارے بھی ۔رایان نےے سالار کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
رایان تم میرے چاچو کے بیٹے ہو مجھے یہ بات اس دن تمہارے آفس میں پتہ چلی تھی جب میں پہلی بار تمہارے آفس گیا تھا۔
رایان کی آنکھوں میں لگ رہا تھا خون اتر آیا ہے۔
یشال تم میرے ساتھ چل رہی ہو ؟
یشال نے جلدی سے سالار کی طرف دیکھا۔
سالار نے اسے اثبات میں سر ہلایا اور یہ بات رایان سے چھپی نہیں رہی۔
علی حسن صاحب رایان کو روکنے کے لئے آگے بڑھے لیکن سالار نے انہیں روک دیا۔
دادا جان وہ ابھی غصے میں ہے۔
سالار نے یشال کو اشارے سے جلدی سے جانے کے لئے بولا۔
وہ باہر آئی تو ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی ہوئی تھی ۔رایان کو اس پر یشال پر بھی بہت غصہ تھا کہ آج بھی وہ سالار کی اجازات کے بغیر اس کے ساتھ نہیں آئی۔
وہ گاڑی میں بیٹھی تو رایان نے سرخ آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔تمہارا پاسپورٹ تمہارے پاس ہے۔
یشال نے اثبات میں سر ہلایا وہ اس کی آنکھوں سے خائف ہو رہی تھی ۔جن میں اس کی لئے بھی بہت غصہ تھا۔
وہ سیدھا ہوٹل آیا وہاں سے اس نے فون پر سیٹیں بک کروئی انہیں شام سات بجے کی فلائٹ میں سیٹیں ملیں تھی۔
یشال بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھ گئی ۔رایان نے چادر گلے سے نکال کر بیڈ پر پھینکی ۔وہ غصے میں کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔
یشال خائف سی چپ چاپ بیٹھی رہی۔
رایان نے ایک قہر بھری نظر یشال پر ڈالی۔اسے اس وقت بہت غصہ تھا اگر اس وقت وہ کوئی بات اس سے کرتی تو پتہ نہیں اس نے کیا کرنا تھا ۔لیکن وہ بالکل خاموش تھی۔
*****ؔ*********
صبح کے چار بجے وہ لوگ ائیرپورٹ پہنچے ۔گھر پہنچتے پہنچتے انہیں پانچ بج گئے۔
گھر پہنچ کر یشال نماز پڑھنے کے لئے کمرے میں چلی گئی ۔رایان لاؤنج میں بیٹھا سیگریٹ پہ سیگریٹ پیتا رہا۔
یشال نماز پڑھ کر آئی تو اس کے ہاس بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے سیگریٹ لینا چاہا رایان نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔یشال نے ہمت کر کے دوبارہ ہاتھ بڑھایا تو اب کی بار رایان ہاتھ نہیں جھٹک سکا۔اس نے شکایتی نظروں سے یشال کو دیکھا۔
سوری ! یشال نے بےچارگی سے کہا وہ جانتی تھی وہاس وقت بہت تکلیف میں ہے۔
رایان نے اسے گلے لگا لیا۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔
رایان نے دروازہ کھولا تو سامنے ملازم کھڑا تھا۔
سر سیکیورٹی والے بتا رہے ہیں باہر پولیس آئی ہے۔
رایان نے انگلی سے اپنی پیشانی مسلی اور دروازہ بند کر کے واپس یشال کے پاس آیا۔
دیکھو پریشان نہ ہونا میں جلدی واپس آؤں گا اور کچھ بھی ہو جاۓ گھر سے باہر نہیں نکلنا اس نے اس کی پیشانی کا بوسہ لیا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
*************
اس وقت تمام ٹی وی چینلز پر ایک ہی نیوز چل رہی تھی ۔مشہور بزنس مین رایان حیدر کو قاتلانہ حملے کے شبے میں گرفتا ر کر لیا گیا ہے۔
ناول "" روح رایان""
از🖋زرش نور
قسط نمبر ۱۷
یس آفیسر کیا مسئلہ ہے؟
مسٹر رایان آپ کے خلاف مسٹر احمر نے ہاسپٹل میں بیان دیا ہے کے آپ نے ان پر ان کے ساتھی پر قاتلانہ حملہ کیا ہے ۔آپ کو ہمارے ساتھ چلنا پڑے گا۔
رایان واپس اپنے گارڈز کے ہاس پہنچا ۔گھر کی سیکیورٹی بڑھا دینا ۔میم کو کہیں بھی آنے جانے نہیں دینا ہے۔اس نے اپنے گارڈز کو ہدایات دیں اور واپس پولیس آفیسر کے پاس پہنچا۔
چلیں سر ؟ پولیس آفیسر نے رایان سے ہوچھا۔
یس چلیں ۔
راستے میں رایان نے اپنے وکیل سے بات کی اور اسے پولیس سٹیشن پہنچنے کے لئے بولا۔
رایان جب سٹیشن پہنچا اس کا وکیل پہلے سے سٹیشن پہنچ چکے تھے۔ان کے ساتھ دو وکیل اور بھی تھے۔
انہوں نے بہت کوشش کی لیکن یہ ممکن نہیں تھا رایان کو آج کی رات پولیس سٹیشن میں رہنا تھا۔
رایان نے اکیلے میں اپنے وکیل سے ملا اور کافی دیر کی گفت وشنید کے بعد وکیل روانہ ہو گیا۔
رایان نے پولیس آفیسر کو رات گئے کچھ پیسے دئیے اور دو گھنٹے کے لئےلاک اپ سے باہر گیا۔
***********
رایان وہاں سے نکلا تو پولیس اسٹیشن سے تھوڑا فاصلے پر رایان کا خاص آدمی روزی گاڑی کے ساتھ موجود تھا۔رایان نے اسے ایک مشہور پرائیوٹ ہاسپٹل میں چلنے کے لئے بولا۔ہاسپٹل کے مین ڈور پر اتر کر رایان نے روزی کو گاڑی بیک سائیڈ پر لے کر جانے کے لئے بولا۔وہ رام نمبر ۱۳ میں داخل ہوا تو سامنے موجود شخص اٹھ کر بیٹھ گیا۔رایان اس کے سامنے جا کر بیٹھ گیا تم تیار ہو کل میرے آدمی آ کر تمہیں کورٹ لے جائیں گے۔تمہیں جیسے بولا تھا ویسے ہی کرنا ہے۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا اور رایان وہاں سے نکل کر بیک سائیڈ پر آیا اور وہاں سے سیدھا پولیس اسٹیشن پہنچا۔
*************
یشال رات سے پریشان بیٹھی تھی سارے ٹی وی چینلز پر رایان کے بارے میں بتایا جارہا تھا لیکن زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کے کوئی ٹی وی چینل والا یہ نہیں جانتا تھا کے رایان کو کون سے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا ہے۔ وہ ساری رات ٹی وی کے آگے ہی بیٹھی رہی۔صبح کے وقت اس نے پاکستان سالار کو کال کی اور اسے رایان کے بارے میں بتایا۔
یشال تم پریشان نہ ہو میں جلد سے جلد پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ویسے بھی تم پریشان نہ ہو اگر اس نے ایسا کیا ہے تو وہ کبھی بھی نہیں پھنس سکتا ۔میں اسے آچھی طرح سے جانتا ہوں۔جہاں دوسروں کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے اس شخص کی شروع ہوتی ہے۔
صبح دس بجے کے قریب رایان کو عدالت میں پیش کیا گیا عدالت کے باہر رپوٹر موجود تھے ۔رایان نے پولیس آفیسر سے بات کی اور وہ اسے ایک سیف راستے سے عدالت میں لے گئے ۔رپوٹر باہر انتظار کرتے رہ گئے ۔
احمر اس وقت وٹنس سٹینڈ میں چئیر پر بیٹھا تھا۔جج صاحب کے آنے پر باقاعدہ کروائی شروع کی گئی۔
احمر نے اپنا بیان دینا شروع کیا ۔سر بائیس جولائی کو یہُ شخص رایان میرے فلیٹ میں ایک ڈلیوری بوائے کے لباس میں داخل ہوا ۔اس نے مجھے بری طرح سے مارا پیٹا جب کے میرے دوست موری کی ٹانگ پر گولی ماری میں بے ہوش ہو گیا ۔جب میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ہا سپٹل میں پایا۔
اب کی بار احمر کے وکیل نے ڈاکٹر سے اجازات چاہی کے وہ انسپکٹر صاحب کو وٹنس باکس میں بلانا چاہتا ہوں۔
جی انسپکٹر صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کے آپ لوگوں کو کیسے پتہ چلا کے احمر اپنے فلیٹ میں زخمی پڑا ہے۔
سر ہمیں جس بلڈنگ میں یہ رہتے ہیں اس بلڈنگ کے چوکیدار نے کال کر کے بتایا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو یہ بری طرح سے زخمی تھے ۔کمرے میں توڑ پھوڑ کے نشانات تھے لیکن یہ وہاں اکیلے تھے۔
جی تو انسپکٹر صاحب آپ نے ان کے کہنے پر دوسرے آدمی کو تلاش نہیں کیا۔
جی سر تلاش کیا ہے اور وہ ہمیں ویسٹ پہ ان کے گھر سے کوئی دو فرلانگ دور ایک روڈ کی سائیڈ پر ملے انہیں ہم ہاسپٹل لے کر گئے اور ان کے کہنے کے مطابق ان کی دونوں ٹانگوں پر گولی ماری گئی ہے۔
تو انسپکٹر صاحب پھر تو آپ کو وہ ہتھیار بھی مل گیا ہو گا جس سے انہیں گولیاں ماری گئیں ہوں گی۔اب کی بار سوال رایان کے وکیل کی طرف سے آیا تھا۔
جی ہمیں ہتھیار بھی مل گیا ہے وہ پسٹل ہمیں مسٹر احمر کے گھر سے ملا ہے اس پر ان کے فنگر پرنٹ بھی ملے ہیں۔
اب کی بار احمر حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
تو پھر آپ لوگوں نے ان سے بھی بیان لیا ہو گا۔
جی سر ان کے بیان کے مطابق وہ رایان صاحب کے ڈرائیور تھے ۔ احمر نے انہیں دولاکھ ڈالر دینے کی آفر کی اور انہیں کہا کے وہ کسی طرح رایان سر کی بیوی کو اکیلے ان تک پہنچاۓ۔
وہ فنانشلی پروبلم میں تھا اس لئے میں نے ان کی بات ہر عمل کیا۔مسٹر احمر نے مسز رایان ہر چاقو سے حملہ کیا لیکن وہ پھر بھی بچ گئیں ۔
مین نے جب مسٹر احمر سے پیسوں کا تقاضہ کیا تو وہ اپنی بات سے مکر گئے اور مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی لیکن خوش قسمتی سے میں بچ گیا۔
احمر بازی پلٹنے پر حیران ہریشان تھا۔اس نے رایان کی طرف دیکھا تو اس نے وکٹری کا نشان بنایا۔
***********
ناول ""روح رایان""
از قلم زرش نور
قسط نمبر ۱۸
جج صاحب نے رایان کو با عزت بری کر دیا جب کے اگلی پیشی میں موری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ۔احمر پر فرد جرم عائد کرتے ہوۓ اسے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا۔
احمر جب عدالت سے باہر نکلا تو راہداری میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ رایان کھڑا تھا۔
اس کے پاس سے گزرتے ہوۓ احمر رکا اور بولا رایان حیدر تیار رہنا میں واپس آؤں گا۔
رایان نے ایک ابرو اٹھا کر رایان کی طرف دیکھا اور اس کے اور اپنے درمیان موجود دو قدموں کا جو فاصلہ تھا اسے ختم کرتے ہوۓ بولا احمر عدیل خان اس بار میں نے کچی گوٹیاں نہیں کھیلی ۔میں تمہیں جیل کی سلاخوں سے باہر آنے دوں گا تو تم کچھ کرو گے۔
پولیس احمر کو لے کر آگے بڑھ گئی۔رایان بھی باہر نکل آیا اس نے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوۓ پولیس انسپکٹر کو وکٹری کا نشان بنایا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
****************
رایان گھر پہنچا تو لاؤنج میں ہی یشال کو بیٹھا پایا۔رایان نے ملازمہ کو پانی لانے کے لئے بولا اور خود یشال کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
رایان نے یشال کی طرف دیکھا تو وہ رایان پر نظریں جماۓ بیٹھی تھی۔
کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے ؟ رایان نے مذاق میں کہا۔
نہیں دیکھ رہی ہوں دھوکے باز لوگوں کے چہرےکیسے ہوتے ہیں؟
یشال ! رایان کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا۔
کیوں ! شوکڈ ہو گئے۔یشال نے ہنستے ہوۓ کہا۔اس کی آواز میں ایک کاٹ تھی۔
تم اس وقت ہوش میں نہیں ہو۔۔
ہوش میں تو میں ابھی آئی ہوں۔۔
کیا دھوکہ کیا ہے میں نے تمہار ے ساتھ۔
رایان یہ بات کرتے ہوۓ بھول گیا کے اس نے اس رشتے کی بنیاد ایک دھوکے پر رکھی ہے۔
میں شادی کے ان سات مہینوں میں آپ کے سامنے نظریں نہیں اٹھا سکی کے آپ میرے محسن ہیں۔میں ایک ایسی لڑکی ہوں جس کی بارات نہیں آئی اور آپ جیسے مہان آدمی نے مجھ سے شادی کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔اور ۔۔۔۔۔۔۔آج مجھے پتہ چلا ہے کے وہ احسان نہیں وہ تو دھوکہ تھا ۔کھیلے ہیں آپ میری زندگی کے ساتھ اتنے لوگوں کی موجودگی میں آپ تھے وہ جنھوں نے میرا اور میرے بھائی کا سر جھکایا تھا۔
دیکھو یشال میں اس سب کے لئے تم سے اور سالار دونوں سے معافی مانگتا ہوں۔
لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا میں تمہیں کسی اور کاہوتے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا تھا۔وہ اٹھ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا یشال کے پاس پہنچا۔ اس نے یشال کے ہاتھ پکڑنے چاہے۔
یشال نے بہت زور سے اس کے ہاتھ جھٹک دئیے۔
رایان نے ایک کوشش اور کی اور پھر سے اسے کندھوں سے تھامنا چاہا۔
مجھے اپنے یہ منحوس ہاتھ مت لگانا مسٹر رایان۔۔
اب کی بار رایان کے ماتھے پر سلوٹیں بڑھی ۔اس نے دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے۔۔۔آچھا نہیں تو تم کیا کر لوگی۔
میں ابھی کے ابھی جا رہی ہوں یہاں سے۔
آچھا کہاں جاؤ گی!!رایان اب کی بار صوفے پر بیٹھ گیا۔
جہاں بھی جاؤں گی آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ کہہ کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گئی اپنا سامان لینے کے لئے۔
اور وہ نہیں جانتی تھی کے رایان بھی یہی چاہتا تھا کے وہ کمرے میں جاۓ۔
اس کے کمرے میں جانے کے بعد رایان بھی اس کے پیچھے کمرے میں پہنچا۔وہ زور وشور سے الماری سے اپنے کپڑے نکال کر بیگ میں ڈال رہی تھی۔رایان نے اپنی واچ اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ۔پھر شوز اتارنے کے لئے صوفے پر بیٹھ کر اور ساتھ ساتھ یشال کی کاروائی بھی ملاحظہ کر رہا تھا۔
ویسے اتنا بھاری بیگ تم لے کے کیسے جاؤ گی۔اس وقت کوئی گاڑی مل جاۓ گی۔کیونکہ میں تو بہت تھکا ہوا ہوں اور باقی ڈرائیور تو اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہے۔
رایان نے بہت سوچتے ہوۓ یشال سے سوال کیا۔
یشال نے دانت پیس کر رایان کو دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں ۔
رایان آگے بڑھا اور جا کر الماری کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا ۔جس میں سے یشال کپڑے نکال رہی تھی اور غور سے یشال کو دیکھنے لگا۔
یشال اس کی نظروں سے کنفیوژ ہونے لگی۔مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ ہٹیں یہاں سے۔
میں کیوں ہٹوں ۔
اپ کہیں اور دیکھیں مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں۔
رایان نے اس کی اس بات پر بہت مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی ۔
وہ تپی تپی سرخ چہرہ لئے دونوں ہاتھوں کی ل انگلیوں کو باہم پھنساۓ جا کر بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی۔
رایان نے اس کے پاس جا کر اس کا بیگ اٹھا کر نیچے رکھا اور اس کے پاس اپنے لئے جگہ بنائی۔
یشال نے جلدی سے اٹھنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی اس کا بازورایان کے ہاتھ میں تھا۔رایان نے اسے کھینچ کے واپس پہلے والی جگہ پر بٹھایا۔
دیکھو یشال میں جانتا ہوں میں نے غلط کیا ہے۔لیکن اس وقت مجھے یہ سب کچھ صیح لگ رہا تھا۔پھر بھی میں تم سے معافی مانگتا ہوں اور میں سالار سےبھی معافی مانگوں گا۔اور بھی جس کسی سے تم کہو گی اس سے بھی ۔
اب کی بار اس نے یشال کا کھلتا ہوا چہرہ دیکھا ۔اور وہ پہلے سے جانتا تھا کے وہ کیا کہنے والی ہے۔
وہ پوری اس کی طرف مڑی! ٹھیک ہے میں آپ کو معاف کر دوں گی لیکن اس سے پہلے آپ کو میری بات ماننی پڑے گی ۔
بولو۔۔ وہ نہیں جانتی تھئ کے سامنے بیٹھا ہوا شخص کوئی عام آدمی نہیں تھا ۔وہ کڑوڑں کا بزنس کرتا تھا ۔اور مول تول میں تو وہ کسی کو بھی آگے نہیں ہونے دیتا ۔لیکن یہاں وہ مجبور تھا کیونکہ یہ اس کی کوئی بزنس ڈیل نہیں تھی بلکے اس کی محبوبہ بیوی کی خوشی تھی جو اس کی روح میں بستی تھی۔
یشال نے رایان کی طرف دیکھا۔پھر آپ کو دادا جی اور چاچو کو معاف کرنا پڑے گا۔ چاچو تو اب اس دنیا میں ہی نہیں ہیں انہیں چار سال ہو گئے ہیں فوت ہوۓ ۔
اس کی پہلی بات رایان کی سوچ کے مطابق تھی اس کی دوسری بات سن کر رایان کو دھچکا لگا۔اس کا باپ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔اس کی آنکھ سے آنسو خودبخود نکلنے شروع ہو گئے اور وہ نہیں جانتا تھا کے جس شخص سے ساری زندگی نفرت کا رشتہ جوڑتا رہا آج اس کے مرنے کا سن کر دل کیوں دکھا تھا۔وہ اٹھا اور ٹیرس کی طرف بڑھ گیا۔اس نے اپنے آنسؤں کو بہنے دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد یشال باہر آئی رایان نے اسے دیکھ کر اپنے آنسو صاف کر لئے لیکن وہ اس کے آنسو پہلے ہی دیکھ چکی تھی۔وہ آ کر خاموشی کے ساتھ رایان کے سینے سے لگی اور اسے اپنی طرف سے ایک حوصلہ دیا سالار نے بھی اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔
ناول ""روح رایان""
از 🖋 زرش نور
قسط نمبر ۱۹
صبح کی چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی رات سے بارش کے بعد ہر چیز نکھری نکھری سی لگ رہی تھی۔گلوریا ایسٹ کی اس روڈ میں اس وقت اکا دکا گاڑیاں ہی تھی۔ایک گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔اس گاڑی کی بیک سیٹ پر بیٹھی جینیفر بہت خوش تھی وہ آج پورے ایک سال کے بعد سنگاپور آئی تھی۔وہ بہت ایکسائیٹیڈ تھی۔
وہ اس وقت اپنے بواۓ فرینڈ سے ملنے جا رہی ہے۔وہ دونوں امریکہ میں رہتے ہوۓ چار سال تک ریلیشن میں رہے تھے۔پھر وہ سنگا پور لوٹ آیاتھا۔جینی نے اسے کچھ دنوں پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں دیکھا تھا ۔جہاں وہ بزنس کے حوالے سے بات چیت کر رہا تھا۔اسے دیکھ کر جینیفر کی محبت پھر سے جاگ گئی۔
وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا۔اس نے گوگل پر اسے سرچ کر کے اس کا ایڈریس نکالا اور اب وہ اس سے ملنے جا رہی تھی۔
***********
رایان کی آنکھ کھلی تو اس نے یشال کو اپنے پہلو میں پایا ۔اسے گزری رات یاد آئی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔اس نے جھک کر اس کی پیشانی چومی اور اٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔
وہ تیار ہو کر نیچے آیا تو ایک ملازم اس کے پاس آیا۔
سر آپ سے ملنے کوئی آیا ہے ۔وہ خود کو آپ کی دوست بتا رہی ہیں اور دو گھنٹے سے وہ آپ کا انتظار کر رہی ہیں ۔
رایان ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو جینیفر کو دیکھ کر اس نے لاشعوری طور پر اوپر اپنے کمرے کی طرف دیکھا۔
وہ بھاگ کر آئی اور رایان کے گلے لگ گئی۔
رایان کی طرف سے کوئی دلچسپی محسوس نہ کر کے وہ پیچھے ہو گئی۔
کیسے ہو رونی؟
میں ٹھیک ہوں ۔تم کیسی ہو؟
یہاں کیسے پہنچی؟؟
یار تم تو مشہور ہستی ہو بس گوگل پہ سرچ کیا اور تمہارا ایڈریس مل گیا۔
رایان کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کے جلد سے جلد جینیفر کو یہاں سے چلتا کرے۔
یشال نے اپنی الماری کھولی تو آگے اسے بہت سے ڈریس نظر آۓ ۔اسے سمجھ نہیں آئی کے وہ کیا پہنے۔پھر اس نے اپنے لئے ایک پنک کلر کا فراک نکالا جس پر سلور نگینوں کا کام کیا ہوا تھا۔وہ جلدی سے واش روم میں فریش ہو کر آئی۔اپنے بال اس نے کھلے ہی رہنے دیا اوروائٹ کلر کا بڑا سادوپٹہ لیا اورنیچے کی طرف بھاگی وہ رایان کے آفس جانے سے پہلے نیچے پہنچنا چاہتی تھی۔
وہ نیچے آ کر مایوس ہو گئی کیونکہ رایان کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔
وہ مایوس ہو کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
میڈم آپ ناشتے میں کیا لیں گیں۔
ایک گلاس اورنج جوس دے دو۔
ملازم جانے لگا تو یشا ل کو یاد آئی۔
بات سنو صاحب ناشتہ کر کے گئے ہیں؟؟
میڈم سر ابھی گھر میں ہی ہیں ۔ان کی کوئی گیسٹ آئی ہوئی ہیں وہ ڈرائنگ روم میں ہیں۔
یشال خوش ہو گئی اور ڈرائنگ روم کی طرف چل دی۔وہ ڈرائنگ روم کے دروازے سے اندر داخل ہوئی تو رایان کی یشال کی طرف پیٹھ تھی ۔وہ یشال کو نہیں دیکھ سکا۔لیکن یشال اس کے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھ کر مبہوت رہ گئی۔
سنہری بال چمکتا گورا رنگ گلاب کی پنکھڑی سے ہونٹ گلابی گال لمبی گردن وہ جو بھی تھی بہت خوبصورت تھی ۔ٹائٹ جینز پر بلیک شرٹ پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔یشال نے لا شعوری طور پر اپنا اور اس کا موازنہ کیا تو اسے اپنی تیاری پھیکی سی لگی۔
جوں ہی وہ مڑنے لگی تو اس کا پاؤں پاس پڑے ٹیبل سے ٹکرایا اسے بہت زور سے چوٹ آئی وہ اپنا پاؤں پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی۔
اس کے ٹکرانے کی آواز سے رایان نے جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یشال کو نیچے بیٹھے دیکھ کر وہ بھاگ کر یشال کے پاس آیا۔
کیا ہوا ہے کیا کر رہی تھی تم ؟؟وہ پریشانی اور فکر مندی سے بولا ۔
کچھ نہیں بس میں گزر رہی تھی تو اس ٹیبل سے ٹکرا گئی۔
رایان نے اس کا پاؤں دیکھا جو سوجھ گیا تھا۔
اس نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا اور ڈاکٹر کو کال کی اور یشال کو بانہوں میں لے جا کر صوفے پر لٹایا۔
وہ بھول گیا کے یہاں کوئی اور بھی موجود ہے۔
جینیفر حیران تھی کے یہ کون ہے جس کے لئے وہ اتنا پریشان ہو رہا ہے۔کیونکہ اس نے تو اپنی پوری یونی میں یہی مشہور کیا ہوا تھا کے وہ اور رایان ریلیشن میں ہیں ۔اور رایان نے بھی لبھی بھی اس بات کی تردید نہیں کی ۔اس لئے جینیفر کو اورتقویت ملی لیکن حقیقتا جینی بہت کوشش کی لیکن رایان اور وہ کبھی فزیکلی ریلیشن میں نہیں رہے۔
لیکن آج اس لڑکی کے لئے رایان کی آنکھوں میں ایک الگ ہی جذبہ دیکھا تھا اس نے۔
*********************
ناول ""روح رایان""
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۲۰
جینیفر رایان کے گھر سے نکل آئی گاڑی میں بیٹھ کر اس نے کسی انجان نمبر پر کال کی ۔سر یہ پلان کامیاب نہیں ہو سکتا ۔وہ شادی کر چکا ہے۔وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے۔اسے اس کے سامنے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔پھر بھی میں کوشش کروں گی لیکن آپ پلان بی تیار رکھیں۔
ڈاکٹر یشال کو چیک کر کے چلا گیا تھا اس نے بتایا کے ڈرنے کی کوئی بات نہیں معمولی سا فیکچر ہے وہ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائے گی۔لیکن رایان کو چین نہیں تھا وہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد آفس سے کال کر کے پوچھ رہا تھا ۔
کیسی ہو زیادہ درد تو نہیں ہو رہا؟؟
جی میں ٹھیک ہوں مجھے بالکل بھی درد نہیں ہو رہا ہے ۔اور آپ اب مجھے کال نہیں کریں گے بلکہ صرف کام کریں گے اور اب شام کو گھر آئیں گے تو ہی بات ہوگی۔
اوکے میڈم جو آپ کا حکم۔۔
فی امان اللہ
*************
سالار اس وقت چینگی ائیر پورٹ سے باہر آ رہا تھا۔وہ پاکستان سے ڈائریکٹ فلائٹ سے یہاں پہنچا تھا۔ائیرپورٹ سے نکل کر اس نے کیب کی اور اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچا اپنا سامان اپارٹمنٹ میں رکھنے کے بعد وہ رایان کے آفس کے لئے نکل آیا۔
رایان اسے بہت گرمجوشی سے ملا سالار نے رایان سے یشال کے باری میں پوچھا ۔۔
سالار نے رایان کو بتایا کے انہیں کل کوالمپور کے لئے نکلنا ہے۔ہلٹن ہوٹل میں ہماری میٹنگ ہے اور ہمیں صبح صبح نکلنا ہے ۔کیونکہ ہم ٹرین سے چلیں گے ۔
رایان نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
سالار بھی وہاں سے یشال سے ملنے کے لئے نکل آیا۔
****ؔ*************
شنگریلا ہوٹل لندن کے اس کانفرنس روم میں اس وقت ایک خاص میٹنگ جاری تھی۔اس میٹنگ کا مقصد دنیا بھر میں تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے مسلمانوں پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔اس میٹنگ میں اس وقت تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے یہودی مالک بیٹھے تھے۔اوراس بار ان لوگوں نے پانچ لوگوں کی فہرست تیار کی تھی ۔جن پر انہیں نظر رکھنی تھی۔ان میں سے ایک کا تعلق ترکی جبکہ دو کا تعلق انڈونیشیاہ ایک کا تعلق تاجکستان سے تھا اور نمبر ایک پر جو شخص انہیں سب سے طاقتور اور شاطر لگا تھا اس کا تعلق بظاہر تو سنگاپور سے تھا لیکن اس کی جڑیں پاکستان سے ملتی تھی۔پاکستان تو ویسے بھی یہودیوں کے لئے ایک ہاٹ کیک تھا ۔۔اسی لئے انہوں نے نمبر ون پر اس شخص کو رکھا تھا جسے دنیا رایاان حیدر کے نام سے جانتی تھی۔
اس کام کے لئے ان لوگوں نے سب سے پہلے اس کی کلاس فیلو اور گرل فرینڈ جینیفر سے رابطہ کیا تھا۔
لیکن وہ کچھ زیادہ پر امید نہیں تھے ۔کیونکہ وہ دو ماہ پہلے شادی کر چکا تھا وہ بھی بہت عجیب طرح سے اوراتنے دنوں میں وہ جان چکے تھے کے وہ اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہے۔
اس کی بیوی کو راستے سے ہٹانے کے لئے ان لوگوں نے احمر کو جیل سے نکالا لیکن معجزاتی طور پر رایان جاۓ وقوعہ پر پہنچ گیا اور اسے بچا لیا۔
رایان کے ساتھ ساتھ ان کی نظر سالار پر بھی تھی کیونکہ وہ ایک آئی ایس آئی سپاۓ تھاُ۔
رایان اور سالار پر انہیں شک تب ہوا جب ان دونوں نے پچھلے کچھ عرصے سے یکے بعد دیگرے ترکی ،پاکستان،اور ملائشیاہ کے بہت سے دورے ایک دو دن کے فرق سے ساتھ ساتھ کیے۔
رایان کے بارے میں شبہ تھا کے وہ کشمیری مجاہدین کی مالی امداد کرتا ہے ۔اور پاکستان میں اس کی مجاہدین کے کمانڈر عثمان احمد سے ملاقات ہو چکی ہے۔
اب طے یہ پایا تھا کے اس کے بارے میں ٹھوس معلو مات حاصل کریں گے اگر یہ دونوں اس معاملے میں ملوث ہوۓ تو پھر ان کے بارے میں کاروائی کی جاۓ گی۔
***********
یشال کل تیار رہنا ہم لوگ کوالمپور جائیں گے۔
آچھا کس وقت جانا ہے؟؟
سویرے نکلنا ہے۔
اوکے!!وہ کہہ کر باہر کی طرف چل دی۔
او ہیلو کیا اوکے؟؟کدھر چل دیں آپ؟؟
میں نیچے جا رہی ہوں مجھے ابھی نیند نہیں آرہی۔۔۔۔
تو مجھے کون سا نیند آ رہی ہے۔۔
آپ تو سونے لگے ہیں نہ ؟؟یشال نے حیران ہو کر اسے پوچھا جو بیڈ پر لیٹا تھا اور اب اٹھ کر یشال کے پاس پہنچ آیا تھا۔
میڈم ہم آپ کی وجہ سے روم میں آۓ ہیں۔
میری وجہ سے کیوں؟؟یشال نے بھی آج رایان کو تنگ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔
رایان نے اس کی باتوں سے جھنجھلا کر اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔
جی تو آپ کیا کہہ رہی تھیں اب بولیں؟؟
یشال کو تو مانو سانس ہی رک گئی ۔رایان سے آتی اس کی کلون کی خوشبو ،اس کے سر گوشیاں اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔
رایان نے دل چسپی سے اس کی بند آنکھوں اور کانپتے جسم کو دیکھا۔
یار میں بندے نہیں کھاتا جو تم اتنا کانپ رہی ہو۔ یشال نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں اور رایان کی گرفت ڈھیلی محسوس کر کے اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ بنا لیا۔
رایان بھی پیچھے ہو کر بازو سینے پر لپیٹ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
میرے دل میں اتر سکو تو شاید جان لو
کتنی خاموش تم سےمحبت کرتا ہے کوئی
اس نے جزب کے عالم میں شعر کہا۔
**********
ناول "" روح رایان""
از قلم زرش نور
قسط نمبر ۲۱
ہلٹن ہوٹل کی لابی میں اس وقت ایک ٹیبل پر بیٹھے ہوۓ سالار رایان کا انتظار کررہا تھا۔
اسی وقت ایک سائیڈ سے بھاگنے کے انداز میں رایان آیا۔
سوری یار میں لیٹ تو نہیں ہو گیا؟؟
سالار نے اسے گھور کر دیکھا۔کیوں لیٹ آےہو؟؟
رایان نے ہاتھ سے سر کھجایا۔وہ یار میں یشال کو بھی ساتھ لایا ہوں تو اسے پہلے ہوٹل کے روم میں چھوڑ ا ہے اور پھر تمہارے پاس آیا ہوں۔
اب کی بار سالار بالکل سیریس ہو گیا! رایان تم جانتے ہو نہ ہم یہاں کس لئے آۓ ہیں؟؟
رایان نے اثبات میں سر ہلایا۔
ہمارے جیسے لوگ فیملی نہیں بناتے اور تم ! وہ چپ ہو کر رایان کو دیکھنے لگا اور پھر چلتا ہوا رایان کے قریب آیا۔
رایان اگر اب کی بار میرئ بہن کو کچھ ہوا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔
یار اسے کچھ ہوا تو میں زندہ رہوں گا تو تم مجھے کچھ کہو گے نہ۔
سالار کو اب اس پر غصہ آ گیا ۔وہ اس پر ایک قہر برساتی نظر ڈال کر آگے بڑھ گیا۔
رایان بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
***********
ہلٹن ہوٹل کے اس ہال میں اس وقت پاکستان کے حساس اداروں کے بہت سے نامور لوگ موجود تھے۔
یہاں پر آج بہت سے گم نام ہیروز موجود تھے ۔جو وطن عزیز کی حفاظت کے لئےگم نامی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
میٹنگ میں سب کو ان کے فرائض سونپے گئے۔
سالار اور رایان کو بتایا گیا کے ان دونوں نے کشمیر جانا ہے ۔جہاں مجاہدین کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ایک ٹریننگ کیمپ کو ختم کرنا تھا ۔
رایان آپ اپنا بزنس پاکستان شفٹ کر لیں کیو نکہ آپ پر سی آئی اے کو شک ہو گیا ہے۔وہ آپ کے خلاف شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں آپ پہلے ہی چوکنے ہو جائیں۔
جیسے آپ کا حکم سر۔
اوکے ویلڈن رایان حیدر ! ہمیں امید ہے آپ کسی کے ہاتھ نہیں آئیں گے۔
یس سر۔
*****************
سالار اسی دن واپس سنگا پور لوٹ آیا تھا۔جبکہ رایان اور یشال دو دن کے بعد آج واپس لوٹے تھے۔
رایان گھر پہنچا تو جینیفر اس کا انتظار کر رہی تھی۔
تم کب آئی؟؟رایان نے اسے چبھتے ہوۓ لہجے میں پوچھا۔
وہ کچھ گڑبڑا گئی۔بس ابھی!
کیسے آنا ہوا۔
رایان ہم کہیں باہر چل کر بات کر سکتے ہیں؟؟
یس شیور !کیوں نہیں
یشال میں جلدی واپس آ جاؤں گا۔
یشال نے چونک کر رایان کو دیکھا کیونکہ وہ تو جینیفر کی خوبصورتی میں کھوئی ہوئی تھی۔
کیا ہوا تم ٹھیک ہو؟؟
جی جی ۔۔۔۔۔آپ جائیں ۔۔میں ٹھیک ہوں۔
اوکے اللہ حا فظ ! رایان نے یشال کے گال پر کس کرتے ہوۓ کہا۔یشال نے شرم سے سر جھکا لیا ۔
رایان نے اس کی طرف ایک بھر پور نظر ڈالی اور باہر کی طر ف چل دیا۔
وہ دونوں اس وقت ریکس بار میں بیٹھے ہوۓ تھے ۔جینیفر نے اپنے لئے ڈرنک منگوایا ۔
تمہارے لئے بھی منگواؤں ؟؟
نہیں میں ایسے شوق نہیں رکھتا۔
جینیفر ساتھ میں ایک سیگریٹ بھی سلگایا۔
اب بولو جینیفر کیا بات ہے ؟؟ رایان نے بیزار سا ہو کر بولا۔
رایان مجھے تمہاری مدد چاہئے دراصل میرا بواۓ فرینڈ ہے وکی اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے اگر تم دے سکو تو۔
کتنے پیسے چاہئیں ؟؟ اس نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔
ایک لاکھ ڈالر ۔۔۔۔۔
اوکے اسے بلاؤ پہلے میں اس سے ملوں گا پھر میں کچھ سوچتا ہوں۔
اوکے کب ملو گے؟؟ جینیفر خوش ہو گئی۔
جب تم مجھے اس سے ملاواؤ گی۔
اوکے کل شام کو ہی مل لیتے ہیں ۔
ٹھیک ہے ۔کل شام کو میں جو جگہ بتاؤں گا وہاں آ جانا تم لوگ۔
اوکے! اب میں چلتا ہوں۔
*********
جینیفر اور وکی اس وقت ایک ہی روم میں تھے وہ کل کے لئے پلاننگ کر رہے تھے۔
وکی ایک بہت ہی شاطر ایجنٹ تھا ۔بہت سوچ بچار کے بعد اسے اس کام کے لئے چنا گیا تھا۔
وکی کا کام یہ تھا کے وہ رایان سے مل کر اسے کسی خفیہ جگہ پر لے جائے۔وہاں رایان سے تمام معلومات لے کر اسے ختم کر دیا جاۓ۔
وہ کل پوری پلاننگ کے ساتھ جانا چاہتے تھے ۔ایک آدمی رایان کے گھر سے نکلنے سے لے کر مطلوبہ مقام تک اس کا پیچھا کرے گا۔
وکی ایک ماہر فائٹر تھا ۔وہ بلیک بیلٹ تھااس کے ساتھ ساتھ وہ باکسنگ کا بہت آچھا کھلاڑی تھا۔وہ آج تک اپنے کسی مشن میں ناکام نہیں ہوا تھا۔اس کی کامیابی کا تناسب ۱۰۰ تھا۔
لیکن اس بار کیا ہونے والا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔
رایان گھر پہنچا تو یشال سیڑھیوں پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ رایان اس سے ایک سیڑھی پہلے بیٹھ گیا۔
روح رایان کیا سوچ رہی ہیں اس نے بہت محبت سے پکارتے ہوۓ کہا۔
یشال نے نظر بھر کر رایان کی طرف دیکھا۔رایان میں آپ کی محبت سے انجان ہی ٹھیک تھی ۔اب جب آپ گھر سے باہر ہوتے ہیں ایک دھچکا لگا رہتا ہے کوئی آپ کو مجھ سے چھین نہ لے۔
رایان نے گھوم کر یشال کو دیکھا میری جان آج تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے۔میرے لئے آپ کی اتنی فکر میں کہیں بے ہوش ہی نہ ہو جاؤں۔
اب کی یشال کا موڈ خراب ہو گیا اور وہ اٹھ کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔
رایان یشال کی باتوں کو سوچتا کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا۔جیسے کسی ان دیکھی چیز کو ڈھونڈ رہا ہو۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک گہری سانس لیتے ہوۓ اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
وہ اندر آیاتو یشال الماری میں منہ دہے کچھ ڈھونڈ رہی تھی ۔وہ اپنی مطلوبہ چیز لے کر مڑی تو رایان کو اپنے پیچھے کھڑے پایا۔
راستہ دیں رایان۔یشال روکھے پھیکے لہجے میں بولی۔
تم ہر راستہ مجھ سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔
اس لئے راستہ مانگا مت کرو بلکہ خود بنایا کرو۔
مجھے ابھی آپ سے بات نہیں کرنی؟؟
آچھا مجھے تو تمُ سی ہی بات کرنی ہے وہُ اپنے اور اس کے درمیان کے فاصلے کو ختم کرتے ہوۓ بولا۔
ایک احساس تیرے دل میں جگانے کے لئے
بات کرتے ہوۓ مر جائیں تو کیسا ہو گا ؟
یشال نے جلدی سے اپنا ہاتھ رایان کے منہ پر رکھ دیا اور شکایتی نظروں سے رایان کو دیکھا۔
رایان نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔اور یشال بھی ناراضگی بھلا کر اس کی بانہوں میں سما گئی۔
رایان نے جینیفر کو ریکس بار میں ہی بلایا۔ رایان جب گھر سے نکلا تو اس سے فاصلہ رکھ کر ایک گاڑی اس کی نگرانی کرتی ہوئی ساتھ ساتھ چلی۔
رایان جب بار میں پہنچا تو وکی اور جینیفر پہلے سے وہاں موجود تھے۔
وہ لوگ باتوں مشغول تھے تبھی ایک دم سے بار کی تمام لائیٹس آف ہو گئیں تبھی رایان کی پسلی کے ساتھ اسے سخت سی چیز محسوس ہوئی۔
کھڑے ہو جاؤ اور چلتے رہو۔
رایان کھڑا ہو گیا اور ان تقلید میں چل پڑا۔
اگرآپ کو یہ ناول پسند آ رہا ہے تو لائک کے ساتھ ساتھ اپنی قیمتی آراء سے بھی آگاہ کریں
ناول ""روح رایان""
از 🖋زرش نور
قسط نمبر ۲۲ لاسٹ ایپیسوڈ
رایان کے دونوں بازو پیچھے لے جاکر باندھ دئیے گئے۔زینے اترتے ہوۓ اسے احساس ہو گیا کے وہ اسے اسے بار تہہ خانے میں لے جا رہے ہیں ۔
نیچے لے جا کر اسے کرسی کے ساتھ باندھ دیا گیا۔یہاں پر تھوڑی تھوڑی روشنی تھی جینیفر نے لائٹ جلائی بہت تیز روشنی کی وجی سے رایان کی آنکھیں چندھیا گئیں ۔اسے روشنی سے مانوس ہونے میں تھوڑا وقت لگا۔
رایان نے دیکھا اس کے سامنے وکی بغیر شرٹ کے کرسی پر بیٹھا تھا اس نے ہاتھ میں بیلٹ اٹھائی ہوئی تھی۔وہ کسرتی جسم کا مالک تھا اسے دیکھ کے پہلا احساس یہی ہوتا تھا جیسے وہ ایک باڈی بلڈر ہے۔
اس نے چبھتی ہوئی نظروں سے رایان کی طرف دیکھا تمہارے بارے میں سنا تھا تم بہت شاطر آدمی ہو لیکن تم اتنی آسانی سے میرے چنگل میں پھنس گئے ۔یہ بات مجھے کچھ ہضم نہیں ہو رہی۔
رایان نے جینیفر کی طرف دیکھا۔جینیفر یہ تمہارا بواۓ فرینڈ ہے۔رایان نے وکی کے سوال کا جواب دینے کی بجاۓ جینیفر سے سوال کیا۔
جینیفر نے رایان کے سوال کا جواب دینے کی بجاۓ وکی سے مخاطب ہوئی۔
وکی کام ختم کرو اس کا پھر ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔
وکی نے اثبات میں سر ہلایا۔
رایان حیدر تم اپنے بارے میں سب کچھ بتاؤ گےخود ہی یا پھر دوسرا طریقہ استعمال کریں۔
پہلے تم لوگ اپناتعارف تو کرواؤ تم لوگ ہو کون؟؟
ہم جو بھی لیکن تمہارے دوست تو نہیں ہیں بس تمہارے لئے اتنا جاننا کافی ہے ۔
اوکے جیسےمرضی تم لوگوں کی۔اتنی دیر میں رایان کرسی سے باندھی گئیں رسیاں کھول چکا تھا۔ہاتھوں پہ باندھی رسیاں تو اندھیرا کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ اس نے پہلے ہی کھول لیں تھیں۔
اوکے جیسے تمہاری مرضی رایان حیدر ہم تمہارے بارے میں تمام معلومات ہم حاصل کر لیں گے لیکن افسوس تب تک تم اس دنیا میں نہیں ہو گے۔
اس کے ساتھ ہی وکی نے اپنی سائلنسر لگی پسٹل نکالی اور رایان کے سر کا نشانہ لیا لیکن اس سے پہلے ہی رایان اس کے ہاتھ سے پسٹل جھپٹتے ہوۓ اس سے تھوڑا فاصلے پر موجود تھا۔یہ سب کچھ بس کچھ سیکنڈز میں ہوا تھا۔رایان نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی اپنے ہاتھ میں موجود رسی وکی کے ہاتھوں پر پھینکی اور کھڑے ہو کر گرتی ہوئی پسٹل کیچ کر لی۔
رایان نے پسٹل ہاتھ میں آتے ہی اپنے کان پر ہاتھ رکھا اور بولا "اندر آ جاؤ۔"
وکی اور رایان اس کی بات پر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
اب وکی سر آپ زرا یہ سیٹ سنبھالیں اس نے پسٹل کے ساتھ اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
اور ساتھ ہی زینے سے نیچے سالار آیا اس نے آتے ہی وکی کو دھکیل کر کرسی پر بیٹھایا اور پسٹل نکال کر بولا۔
رایان وقت نہیں ہے جلدی سے ان کا کام تمام کرو ۔
وکی بالکل بے بس ہو گیا وہ ان دو کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس نے اپنے ملک کے ساتھ وفاداری کو ترجیح دی اور اپنے منہ میں موجود کیپسول نگل لیا۔اگلے ہی پل وہ تڑپتا ہوا نیچے گرا اور اس کے منہ سے جھاگ سی نکلی اور وہ دار فانی سے کوچ کر گیا۔
رایان اب کی بار جینیفر کی طرف مڑا۔
جو کے ڈری سی ایک سائیڈ پر کھڑی تھی۔
رایان ختم کرو اس لڑکی کو اور نکلو یہاں سے۔رایان نے سالار کی طرف دیکھا ۔
نہیں سالار اس کا اس کے حال پر رہنے دو زندگی کے میدان میں دوبارہ کبھی اگر یہ ہمارے راستے میں آئی تو اس کا پکا انتظام کروں گا۔
تم ہوش میں ہو رایان؟؟
جی سالے صاحب ہوش میں ہوں۔
کیا ہے کے میری بیوی جو ہے نہ اس کے حسن سے بہت متاثر ہوئی ہے۔اس لئے میں اسے چھوڑ رہا ہوں ۔
تم پاگل ہو رایان !یہ کہہ کر سالار دھپ دھپ کرتا وہاں سے نکل گیا۔
***************
آج سالار اور رایان پورے ایک ماہ کے بعد کشمیر سے واپس پاکستان لوٹے تھے ۔ان دونوں نے ہیڈ کوارٹر میں اپنی رپورٹ پیش کی اور پھر اپنے گاؤں کی طرف چل پڑے ۔
رایان اور سالار حویلی میں پہنچے تو حویلی روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی ۔رایان اور یشال کی ولیمے کی تقریب رکھی گئی تھی۔
رایان کو دھچکا تب لگا جب اسے اس کے کمرے کی بجاۓ مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا۔
رایان تلملا کر رہ گیا لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
****************
دوسرادن شام میں ریان اور یشال کی دعوت ولیمہ کی تقریب حویلی کے صحن میں رکھی گئی ۔جس میں صرف قریبی عزیزوں مدعو کیا گیا۔ یشال کو رایان کے برابر لا کر بٹھایا گیا تو رایان نے بہت کوشش کی کے وہ یشال کی ایک جھلک دیکھ سکے لیکن اس کا بڑا سا گھونگھٹ نکالا گیا تھا اور ساتھ میں فارحہ سنتری کے فرائض ادا کر رہی تھی۔
آخر اللہ اللہ کر کے رات کو بارہ بجے سب مہمانوں سے فارغ ہو کر رایان اپنے کمرے کے پاس پہنچا تو وہاں ایک اور امتحان تھا ابھی جہاں فارحہ کچھ دوسری کزنز کے ساتھ دروازے میں ایستادہ تھی۔
بھیا اگر کمرے میں جانا ہے تو پہلے میرا نیگ نکالو ساتھ ہی پتہ نہیں کس کونے سے ماشہ اور مازیہ بھی نکل آئیں ۔
جی اور ہمارا بھی رایان نے حیران ہو کر ماشہ کو دیکھا۔
ماشہ تم میری طرف نہیں ہو؟؟
نہیں رونی آج تو میں کسی ایک طرف بھی نہیں ہوں آج میں اپنی طرف ہوں۔
رایان نے اس کی بات پر مسکراتے ہوۓ پاکٹ سے کارڈ نکالا اور فارحہ کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
سب نے حیران ہو کر رایان کی طرف دیکھا ۔اور ماشہ بولی رونی کنگال ہو جاؤ گے۔
وہ بولا اب تو راستہ چھوڑ دو ۔
وہ لاگ جلدی سے راستے سے ہٹ گئیں وہ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے مڑا بات سنو تم لوگ یہ صدقہ ہے میری بیوی کا جس کی حقدار تم لوگ ٹھری ہو۔
وہ تینوں اشتعال کے ساتھ رایان کی طرف بڑھیں لیکن رایان اس سے پہلے ہی وہاں سے غائب ہو چکا تھا۔
***ؔؔؔؔؔؔؔ*************
وہ کمرے میں دخل ہوا تو پورے کمرے میں گلاب کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
رایان بے قرار ہو کر بیڈ کی طرف بڑھا اور ساتھ ہی یشال کا گھونگھٹ الٹ دیا۔وہ ڈیپ ریڈ کلر کے لہنگے میں قیامت لگ رہی تھی۔
یار مجھے بیچارے کو قتل کرنا کا ارادہ ہے کیا۔
اس کی بات پر یشال نے پلکیں اٹھا کر را یان کو دیکھا اور مسکرا کر بولی آپ تو ہماری زندگی ہیں آپ کی جان ہم لےسکتے ہیں۔
ی
رایان نےُاس کی کلائیوں میں کنگن ڈالے اور یشال کے دونوں ہاتھ چوم لئے۔
اگر تو وجہ نہ پوچھے تو ایک بات کہوں
بن تیرے اب ہم سے جیا نہیں جاتا
اورآج رایان حیدر مکمل ہوگیا تھایشال کا ساتھ پا کر۔
*********
The end
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں