منگل، 15 اپریل، 2025

"شاعروں ادیبوں فلسفیوں کو ہمیشہ کم ظرفوں سے ہی محبت ہوتی ہے" Musa Pasha BBC PK Article

ایسا کہتے ہیں اگر کسی ادیب مصنف شاعر کو آپ سے محبت ہوجائے تو آپ کبھی نہیں مرتے، ہمیشہ زندہ ہی رہتے ہیں. یہ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے ادیب فلسفی شاعر کوئی معمولی ذہن کے مالک نہیں ہوتے بلکہ یہ انتہائی ذہین لوگ ہوتے ہیں - جرمن گاڈ فادر فلسفی آرتھر شوپنہاؤر کے مطابق ذہین افراد کا مرتبہ صالحین صوفیوں اور ولیوں کے برابر ہوتا ہے. یہ نہ صرف اچھے دل و دماغ کے مالک ہوتے ہیں بلکہ ان کی فکر اور عمل بھی عام لوگوں سے منفرد اور ممتاز ہوتا ہے. اب جتنی بھی شاعری پڑھ لی جائے اکثر مقبول عام وہ شاعری ہے جو دکھی، غمزدہ اور افسردہ ہے ، ایسا اس لیے ہے کیونکہ یہ عظیم شعرا کرام اپنی اچھی فطرت کے باعث دوسروں کو بھی اچھا اور نفیس انسان تصور کر لیتے ہیں اور کسی ایسے شخص سے محبت کر بیٹھتے ہیں جو وقت گزرنے پر ہمیشہ کی طرح کم ظرف ہی ثابت ہوتا ہے. آج مرزا غالب، ناصر کاظمی، ساغر صدیقی.. کی محوبوباؤں کے نام کوئی بھی نہیں جانتا، وہ مر گئیں، مٹ گئیں فنا ہوگئیں خاک میں مل کر خاک ہوگئیں مگر یہ شعرا کرام اپنے لازوال کلام کے ساتھ آج بھی زندہ ہیں، لوگ ان سے محبت کرتے ہیں، اور رہتی دنیا تک یہ ادبی شخصیات ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہی رہیں گی. سیلویا پلاتھ اور پروین شاکر نے جن مردوں سے شادی کی وہ کم ظرف اور بے وفا ثابت ہوئے ، یہ غمزدہ رہیں، سلویا نے تو اپنے شوہر کی دوسری عورت کے ساتھ معاشقے سے عاجز آکر خود کشی کرکے خود کو ختم کرلیا تھا. تو کس کو اپنے لیے چنیں اور کس سے محبت کریں؟ اس مسئلے کا ممکنہ حل یہ ہے کہ ذہین لوگوں؛ شاعروں ادیبوں، فنکاروں، تخلیقی صلاحیتوں کے مالک لوگوں کو اپنے لیے اپنے جیسے ذہین لوگوں کا انتخاب ہی کرنا چاہیئے، کیونکہ یہی لوگ ان کے ساتھ مقام و مرتبہ میں برابر ہوتے ہیں، جو انھیں سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں.تحریر: Musa Pasha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں