منگل، 15 اپریل، 2025

کنجراور کنجر کی تاریخی جڑیں۔۔۔!!انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف بی بی سی پاکستان ملاحظہ فرمائیں جناب: لفظ "کنجر BBC PK News Article jadiv baeruo chief executive

" اردو اور پنجابی زبان میں آج ایک گالی یا توہین آمیز لفظ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کی تاریخی جڑیں کچھ اور بتاتی ہیں۔لفظ "کنجر" کا ماخذ راجپوتانہ یا راجستھان سے منسوب ایک خانہ بدوش قبیلہ تھا جسے "کنجر" یا "کنجر قبیلہ" کہا جاتا تھا۔ یہ قبیلہ مختلف فنون، خاص طور پر رقص، موسیقی اور تھیٹر میں مہارت رکھتا تھا۔مغل دور میں کنجر قبیلے کی عورتیں اکثر درباروں میں رقص و سرود پیش کیا کرتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ فنون بدنامی کا شکار ہو گئے، اور ان کے پیشے کو "فحاشی" سے جوڑا جانے لگا۔ نوآبادیاتی دور (برطانوی راج) میں بھی ان قبائل کو "criminal tribes" قرار دیا گیا، یعنی پیدائشی مجرم۔ اس سے ان کی ساکھ مزید متاثر ہوئی، اور معاشرہ ان کو نیچی نظر سے دیکھنے لگا۔ وقت کے ساتھ "کنجر" کا مطلب اخلاقی لحاظ سے گرا ہوا یا بے غیرت شخص بن گیا، اور یہ لفظ آج ایک سخت اور توہین آمیز گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔"کنجر" ایک مخصوص قبیلے سے وابستہ لفظ تھا، جو فنون لطیفہ سے جڑا ہوا تھا، لیکن معاشرتی تعصبات اور تاریخی تبدیلیوں نے اسے ایک توہین آمیز گالی میں بدل دیا۔مندرجہ ذیل اس تصویر میں جو چہرہ دکھائی دے رہا ہے، وہ "Sookha" نامی شخص کا ہے، جو اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس تصویر میں ان کے چہرے کی خاموشی، آنکھوں کی گہرائی اور بیٹھنے کے انداز سے صاف عیاں ہے کہ یہ محض ایک انسان نہیں، بلکہ ایک تاریخ کا ٹکڑا ہے۔ ایک ایسا کردار جس کے اندر ثقافت، درد، عزت اور بقا کی جدوجہد پوشیدہ ہے۔ آج ہم جس لفظ کو ہنسی یا غصے میں استعمال کرتے ہیں، وہ دراصل ایک پورے قبیلے کی داستانِ زوال ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی زبان سے نکالے گئے الفاظ کی تاریخ کو پہچانیں، اور الفاظ کو سوچ سمجھ کر برتیں۔یہ تصویر 1858–1868 کے درمیان شمالی ہندوستان کے شہر علی گڑھ میں لی گئی تھی، جس میں کنجر قبیلے سے تعلق رکھنے والے "Sookha" کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تاریخی تصویر Rijksmuseum (نیدرلینڈز) کے محفوظ ذخیرے میں شامل ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں