*🔴انڈیا کے معروف دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی لکھتے ہیں:*
مجھے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے جوہری تنصیبات پر کیے گئے ہوائی حملوں اور بھارت کے "آپریشن سندور" کے درمیان کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ بھارت نے یہ کارروائی پاکستان کے ان مبینہ دہشت گرد ٹھکانوں پر کی جنہیں پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا، کیونکہ پاکستان کو بھارت کی انتقامی تیاریوں کی پیشگی خبر مل چکی تھی۔اور ٹرمپ کی نشانہ بنائی گئی نیوکلیئر سائٹس بھی خالی تھیں۔
ان دونوں واقعات میں کئی باتیں مشترک ہیں:
1ـ دونوں ممالک نے کارروائی کے فوراً بعد کامیابی کا دعویٰ کیا، مگر اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا گیا کہ حقیقت میں کیا نقصان ہوا۔
2ـ دونوں حملوں کا ہدف کوئی بڑی فوجی یا جوہری صلاحیت نہیں تھی — مطلب یہ کہ اصل طاقت کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
3ـ ٹرمپ اور انڈیا نے اعلان کیا کہ ہمارا محدود مشن مکمل ہوا۔ مزید ایکشن صرف اس صورت میں ہوگا اگر آگے سے حملہ ہوا۔
4ـ یہ حملے بیرونی دشمنوں کے خلاف کم، اور اندرونِ ملک عوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے زیادہ تھے۔
5ـ دونوں حکومتوں نے اشارہ دیا کہ اگر ضرورت پڑی تو مزید کارروائی بھی کی جا سکتی ہے، لیکن فوری طور پر اسے ایک ’وقفہ‘ یا ’محدود ردعمل‘ کہا گیا۔
6ـ دونوں ممالک کو یہ ادراک تھا کہ اگر بات آگے بڑھی تو خود اُن کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
7ـ جن پر حملے کیے گئے، اُن پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا؛ وہ بدستور قائم رہے۔
8ـ ان کارروائیوں کو ایک طرح کا "طاقت کا فضول مظاہرہ" سمجھا گیا، جس سے نہ تو دشمن ڈرا اور نہ ہی عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو فائدہ ہوا۔
9ـ آخر میں دنیا حیرت میں مبتلا رہ گئی کہ اب آگے کیا ہو گا؟
ملٹری طاقت کے نئے (احمقانہ) استعمال کا لطف لیجئے !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں