Daily Bbc Pakistan: Deliver Latest news breaking news urdu news current news,top headlines in urdu from Pakistan, world, sports, Business, Cricket, Politics and Weather,
منگل، 15 اپریل، 2025
برصغیر کی تاریخ کا ایک درد ناک دن۔انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف بی بی سی پاکستان ملاحظہ فرمائیں : BBC PK News Article jadiv baeruo chief executive
اپریل 1919ءمیں رولٹ ایکٹ کے خلاف ہندوستان میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا. 10 اپریل کو ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا گیا. ان کی اسیری پر احتجاج کیلئے13 اپریل 1919ءکو امرتسر کے 15 سے 25 ہزار افراد جلیانوالا باغ میں جمع ہوئے سورج ڈھلنے سے چند منٹ قبل اچانک لوگوں نے ایک عجیب سی آواز سنی۔ایک ہوائی جہاز باغ پر کم بلندی سے پرواز کرتا ہوا گزرا۔ اس کے ایک بازو پر ایک پرچم لگا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے پہلے کبھی ہوائی جہاز نہیں دیکھا تھا۔بعض لوگوں نے اسے دیکھ کر وہاں سے چلے جانے میں خیریت سمجھی۔اچانک لوگوں کو عقب سے بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی اور سیکنڈوں میں جلیانوالہ باغ کے تنگ راستے سے 50 فوجی نمودار ہوئے جو دو دو کی 'فورمیشن' بناتے ہوئے اونچی جگہوں پر دونوں طرف پھیلنے لگے۔بھیڑ کے ایک حصے نے چیخ کر کہا:'آگئے، آگئے'۔ اور وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر ایک آواز آئی 'بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ گولی نہیں چلے گی۔'بغیر انتباہ کے فائرنگاسی وقت بریگیڈیئر ریجنالڈ ڈائر نے چیخ کہا: 'گورکھاز رائٹ، 59 لیفٹ۔'25 گورکھا اور 25 بلوچ فوجیوں میں سے نصف نے بیٹھ کر اور نصف نے کھڑے ہو کر 'پوزیشن' لے لی۔ ڈائر نے بلا تاخیر حکم دیا: 'فائر۔‘فوجیوں نے نشانہ لگایا اور بغیر انتباہ گولیاں برسانی شروع کر دیں اور چاروں طرف لوگ گولیاں لگنے سے گرنے لگے۔گھٹنوں کے بل بیٹھے فوجی چن چن کر نشانہ لگا رہے تھے۔ ان کی کوئی گولی ضائع نہیں جا رہی تھی۔ ڈائر نے پھر حکم دیا کہ وہ اپنی بندوقیں دوبارہ لوڈ کریں اور اس طرف فائرنگ کریں جہاں زیادہ بھیڑ ہے۔لیٹ جانے والوں کو بھی نہیں چھوڑالوگ خوف کے عالم میں چاروں طرف بھاگنے لگے۔ لیکن انھیں باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل سکا۔سب لوگ تنگ گلی کے راستے پر ہو لیے اور باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔ ڈائر کے فوجیوں نے انھیں نشانہ بنایا۔ لاشیں گرنے لگیں۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔بہت سے لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ بھیڑ میں موجود کچھ سابق فوجیوں نے چیخ کر لوگوں سے لیٹ جانے کے لیے کہا۔ لیکن ان لوگوں کو بھی پہلے سے لیٹ کر پوزیشن لینے والے گورکھا نے نہیں بخشا۔ڈائر نے بالآخر فائرنگ تب روکی جب انھیں لگا کہ فوجیوں کے پاس بہت کم گولیاں بچی ہیں۔ فائرنگ روکنے کے بعد ڈائر اپنی گاڑی تک پیدل چل کر گیا اور رام باغ واپس چلا گیا . اس نے زخمیوں کے علاج کیلئے کوئی اہتمام نہ کیا۔ گولیوں کے خولوں کی تعداد 1،650 پائی گئی۔اس رات جلیانوالہ باغ میں گولیوں کا شکار ہونے والوں کو کوئی طبی امداد نہیں ملی۔ نہ ہی لوگوں کو اپنے مرنے والوں اور زخمیوں کو میدان سے باہر لے جانے کی اجازت دی گئی.شہر بھر کا بجلی پانی بند جلیانوالہ باغ میں قتل عام کے بعد جنرل ڈائر شام ساڑھے چھ کے آس پاس اپنے کیمپ پہنچا۔ اس نے پورے شہر کی بجلی اور پانی کاٹ دیا۔رات دس بجے اس نے شہر کا ایک بار پھر دورہ کیا تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ گھر سے نہ نکلنے کے اس کے حکم کی پابندی ہو رہی ہے یا نہیں۔اس سے زیادہ ظلم کی اور کیا بات ہو سکتی تھی کہ لوگوں کے بچے، رشتہ دار اور بزرگ جلیانوالہ باغ میں زخمی تڑپ رہے تھے یا مرے پڑے تھے اور لوگوں کو ان کی مدد کے لیے باہر آنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ڈائر کو اس رات سڑک پر ایک شخص بھی نظر نہ آیا لیکن پورا شہر جاگ رہا تھا اور وہاں ایک منحوس سناٹا چھایا ہوا تھا۔جنرل ڈائر نے بعد میں پنجاب کے چیف سیکریٹری جے پی ٹامسن کو بتایا کہ گولی چلانے کا فیصلہ کرنے میں اسے 'صرف تین سیکنڈ لگے‘۔ اس وقت سٹیج پر بینک کے کلرک برج بیكال اپنی نظم 'فریاد' سنا رہے تھے۔امریکہ میں بھارت کے سابق سفیر نوتیج سارنا نے لکھا ہے 'ایک ذکر ملتا ہے کہ ڈائر کے ایک ساتھی برگز نے کہنی سے پکڑ کر ان کی قمیض کو ہلایا گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ اب بہت ہو چکا۔ لیکن ڈائر نے انھیں نظر انداز کر دیا۔ وہاں ایک انگریز ایس پی ریہیل بھی موجود تھے۔ انھوں نے ہنٹر کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ہوا میں لوگوں کے دوڑنے کی وجہ سے دھول اور خون ہی خون تھا۔کسی کی آنکھ میں گولی لگی تھی تو، کسی کا پیٹ باہر آ چکا تھا۔ ہم اس قتل عام کو نہیں دیکھ سکے اور باغ سے باہر نکل آئے۔' ریہیل کی بھتیجی نے ڈائری میں لکھا کہ 'اس واقعے کے بعد ان کی پہلی جیسی شخصیت ختم ہوگئي اور وہ بے تحاشا شراب پینے لگے۔'پیپل کے پیڑ اور دیواروں پر نشانجليانوالہ باغ پر 'اوپن ریبیلين ان پنجاب' نامی کتاب کے مصنف کپل دیو مالویے ایک جگہ لکھتے ہیں: 'ایک مقامی ڈاکٹر کا 13 سالہ بیٹا مدن موہو اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے روز جليانوالہ باغ جایا کرتا تھا۔ اس دن اس پر چلائی گئی گولی نشانے پر لگی اور اس کی کھوپڑی اڑ گئی۔''چلاتے ہوئے درجنوں لوگوں نے ایک بڑے پیپل کے پیڑ کے تنے کے پیچھے آڑ لی۔ ڈائر نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ پیپل کے درخت کو نشانہ بنائیں۔'بچے کو دیوار کے پار پھینک دیابھرپور سنگھ 13 اپریل 1919 کو صرف چار سال کے تھے۔ لیکن انھیں اس دن کے واقعات تا عمر یاد رہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'میں اس دن اپنے دادا کے ساتھ جليانوالہ باغ گیا تھا۔ جیسے ہی گولیاں چلنا شروع ہوئیں، میرے دادا مجھے اٹھا کر دیوار کی طرف دوڑنے لگے۔ جب انھیں لگا کہ باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، انھوں نے مجھے سات فٹ اونچی دیوار کے پار پھینک دیا۔نیچے گرنے سے میرا بازو ٹوٹ گیا لیکن میں وہ کہانی سنانے کے لیے زندہ رہا۔ ہم اس تکلیف میں بھی کئی دنوں تک ہسپتال نہیں گئے، کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں ہم پر اور ظلم نہ ڈھائے جائیں۔'رتن دیوی کی دردناک کہانیمعروف کتاب 'جلیانوالہ باغ - اے ٹرو سٹوری' کی مصنفہ كشور ڈیسائی بتاتی ہیں: 'رتن دیوی کا گھر جلیانوالہ باغ کے اتنا قریب تھا کہ انھوں نے اپنے سونے کے کمرے سے گولیوں کی آوازیں سنیں۔ وہ بدحواسی کی حالت میں دوڑتی ہوئی باغ پہنچیں۔ ان کے سامنے لاشوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ وہ اپنے شوہر کو ڈھونڈنے لگیں۔ لاشوں کو ہٹاتے ہٹاتے اچانک ان کی نظر اپنے شوہر کے مردہ جسم پر پڑی۔ تھوڑی دیر بعد انھیں لالہ سندر کے دو بیٹے آتے دکھائی دیے۔ انھوں نے ان سے کہا کہ وہ کسی طرح ایک چارپائی لے آئیں، تاکہ ان کے جسم کو گھر لے جایا جا سکے۔ انھوں نے مدد کا وعدہ کیا لیکن وہ لوٹ کر نہیں آئے۔ رتن دیوی نے ایک سکھ شخص سے درخواست کی کہ وہ ان کے شوہر کے جسم کو ایک خشک جگہ پر لے جانے میں ان کی مدد کریں، کیونکہ جہاں ان کا جسم تھا، اس کے چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ انھوں نے سر کی طرف سے ان کے جسم کو پکڑا اور رتن دیوی نے پاؤں کی طرف سے اور انھیں ایک لکڑی کے سہارے لٹا دیا۔ رات کے دس بجے تک انھوں نے انتظار کیا. لیکن کوئی نہیں آیا۔ انھوں نے اپنے مردہ شوہر کے سر کو اپنی گود میں رکھ کر پوری رات گزاری۔ ان کے ایک ہاتھ میں ڈنڈا تھا تاکہ خون کی بو سونگھ کر آنے والے کتوں کو بھگایا جا سکے۔’انھوں نے دیکھا کہ ایک 12 سال کا لڑکا ان کے پاس پڑا ہوا ہے، جو شدید زخمی تھا۔ انھوں نے اس سے پوچھا کیا وہ اسے کوئی کپڑا اوڑھا دیں؟ لڑکے نے کہا کہ نہیں، لیکن مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔ انھوں نے کہا میں اپنے شوہر کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گی؟'’تھوڑی دیر بعد لڑکے نے کہا مجھے پانی چاہیے۔ لیکن وہاں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد رتن دیوی کو اس کی كراہیں سنائی دینا بند ہو گئیں۔'لاشوں پر منڈلاتی چیلیںصبح تک باغ کے اوپر چیلیں اڑنے لگیں تاکہ خوراک حاصل کر سکیں۔ گرمی کے سبب لاشیں جلدی سڑنے لگیں۔اس واقعے کے تین ماہ بعد جب کانگریس کا وفد جانچ کے لیے وہاں پہنچا اس وقت بھی فضا میں لاشوں کی بدبو موجود تھی۔35 سالہ ٹھیکیدار لالہ ناتھو رام نے کانگریس کی جانچ کمیٹی کو بتایا: 'میں اپنے بیٹے اور بھائی کو ڈھونڈنے نکلا تھا۔ مجھے اپنی پگڑی سر پر رکھنے میں بہت محنت کرنی پڑ رہی تھی، کیونکہ گوشت حاصل کرنے کی کوشش میں چيلیں اپنی چونچوں سے سر پر حملہ آور تھیں۔' بعد میں پولیس انسپکٹر ریہل اور جواهر لال نے ہنٹر کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا تھا: 'لوگوں کے فرار کی وجہ سے فضا میں پیدا ہونے والی دھول اور خون ہی خون تھا۔ کسی کی آنکھ میں گولی لگی تھی تو کسی کی انتڑیاں باہر آ گئی تھیں۔ ہم اس قتل عام کو دیکھ نہیں پائے اور باغ سے باہر چلے آئے۔ہنٹر رپورٹ کے مطابق، ڈائر نے اندازہ لگایا کہ تقریباً 200 سے 300 افراد ہلاک ہو گئے ہوں گے، لیکن بعد میں اس نے تسلیم کیا کہ مرنے والوں کی تعداد 400 سے 500 کے درمیان رہی ہوگی۔باغ سے ملحق مکانات میں رہنے والے ایک قصائی محمد اسماعیل اس وقت اپنے گھر کی چھت پر کھڑے تھے۔انھوں نے کانگریس کی تفتیشی کمیٹی کو بتایا: ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ میرے حساب سے تقریباً 1،500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔خیرالدین تیلی بھی مرا پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا چھہ یا سات ماہ کا بچہ بھی تھا۔'آٹھہ بجے کے بعد پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ اگلی صبح تک زخمی بغیر كسی طبّی مدد کے وہیں پڑے رہے۔انسانی خون کی بو پا کر کچھ آوارہ کتے جلياں والا باغ پہنچ گئے اور پوری رات انھوں نے ادھر ادھر بکھری لاشوں کو کھایا. ڈائر کو ہاؤس آف لارڈز نے کلین چٹ دیابتدا میں تو برطانوی حکومت نے اس قتل عام کا کوئی نوٹس نہیں لیا لیکن جب خبر پھیلنے لگی تو انھوں نے اس کی تحقیقات کے لیے ہنٹر کمیٹی تشکیل دی۔نوتیج سارنا بتاتے ہیں: 'ہنٹر کمیٹی کی رپورٹ میں ایک متفقہ رپورٹ تھی اور دوسری اقلیت کی رپورٹ تھی۔ دونوں فریقوں نے ڈائر کو غلط کہا لیکن کس حد تک، اس میں دونوں میں اختلافات تھے۔ لیکن پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈائر کو انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا۔'’برطانوی حکومت نے ڈائر کو استعفی دینے کے لیے کہا۔ وہاں کے ہاؤس آف كامنز میں اس معاملے پر شدید بحث ہوئی اور وہاں بھی یہ طے پایا گیا کہ جو ڈائر نے کیا، وہ مکمل طور پر غلط تھا۔ لیکن ہاؤس آف لارڈز نے اس کو الٹ دیا۔ اور برطانوی حکومت سے کہا کہ اس نے ڈائر کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔'اموات کی متنازع تعدادہنٹر کمیٹی نے اعتراف کیا کہ فائرنگ میں 379 افراد ہلاک ہوئے جن میں 337 مرد اور 41 بچے شامل تھے۔اس رات ڈائر نے جب پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر او ڈائر کو اپنی رپورٹ بھیجی تو اس میں کہا کہ تقریباً 200 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔لیکن كشور ڈیسائی بتاتی ہیں: 'بہت سے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کم از کم ہزار لوگوں کی موت ہوئی اور قریب چار پانچ ہزار زخمی ہوئے۔ کچھ زخمی اپنے گھر جا کر مرے۔انگریزوں کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ اگر آپ جلیانوالہ باغ میں موجود تھے، تو آپ نے حکومت کے خلاف غداری کی۔ اس لیے لوگ بتا ہی نہیں رہے تھے کہ ہمارا کوئی رشتہ دار مرا یا زخمی ہوا۔' 'آرٹ اور کلچرل ہیریٹیج ٹرسٹ' اور 'پارٹیشن میوزیم' نے مرنے والوں کی تمام فائلوں کی گہری جانچ پڑتال کی ہے۔ ہم نے 502 مرنے والوں کے مکمل طور پر 'كنفرم' نام نکالے ہیں۔ اس کے علاوہ 45 لاشیں ایسی تھیں جو باغ میں پڑی ہوئی تھیں اور ان کی شناخت نہیں ہو پائی۔ ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس 'سانحے' میں کم از کم 547 افراد ہلاک ہوئے تھے۔'مہاتما گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور کا احتجاجاس واقعہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مہاتما گاندھی نے اپنے تمام تمغے واپس کر دیے۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے وائسرائے چیمزفورڈ کو خط لکھ کر نائٹ ہڈ کا اعزاز واپس کر دیا۔بعد میں نہرو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: 1919 کے آخر میں، میں رات کی ٹرین سے امرتسر سے دہلی آ رہا تھا۔ صبح مجھے پتہ چلا کہ میرے ڈبے کے سارے مسافر انگریز فوجی افسر تھے۔ ان میں سے ایک آدمی بڑھ چڑھ کر اپنی بہادری کے قصے بیان کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی مجھے پتہ چل گیا کہ وہ جليانوالا باغ والا جنرل ڈائر تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ کس طرح اس نے پورے باغی شہر کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔جنرل ڈائر کو کوئی سزا تو نہیں دی گئی، لیکن وقت سے دو سال پہلے ہی ریٹائر کر دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ بھارت میں وہ اب کوئی کام نہیں کر پائے گا۔20 اپریل 1920 کو وہ انگلینڈ کے لیے روانہ ہوا، جہاں سات سال بعد 23 جولائی1927 کو اس کا انتقال ہو گیا۔جلیانوالہ باغ سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی تھی جس پر قابو پانے کے لیے دو دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لاءنافذ کردیا گیا۔ جلیانوالہ قتل عام سے ہندوستانیوں اور برطانیہ کے درمیان جو خلیج پیدا ہوئی اسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکا اور اس واقعے کے 28 سال بعد انگریزوں کو ہندوستان سے جانا پڑا.واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
راٹھی نندلالڈسٹرکٹ بیورو چیف تھرپارکر مٹھیڈیلی بی بی سی پاک نیوز مٹھی / ایس ایس پی تھرپارکر جناب عادل میمن صاحب کی ہدایات پر ڈی ایس پی مٹھی جناب ماجد قائمخانی کی صدارت میں محرم الحرام کے حوالے سے انتظامات اور سیکورٹی پلان مرتب دینے کےلئے اہم اجلاس۔ تفصیلات اجلاس میں ایس ڈی پی اوز، ایچ اوز، امن کمیٹی کے عہدیداران سمیت تمام مکتب فکر کے علماء کرام اور رہنما بھی شریک-اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی ایس پی مٹھی جناب ماجد قائمخانی صاحب نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران عزاداروں کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے گی اور مجالس، BBC PK News
ماتمی جلوسز، امام بارگاہوں سمیت مساجد اور عبادت گاہوں کی مکمل مانٹرنگ کرنے کے ساتھ حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جائےگا۔اجلاس سے...
-
لاہور: پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایک قیدی کا تبادلہ ہوا ہے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق واہگہ اٹاری پوسٹ پر پاکستان اور بھارت کے...
-
عمرکوٹ: ضمنی انتخابات این اے 213 عمرکوٹ کے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی امیدوار میڈم صبا یوسف تالپور 161934 ووٹ حاصل کر کے بھاری ...
-
فخر سندھ ۔۔فرزند سندھ میجر جنرل جاوید چانڈیو "جی او سی "حیدرآباد تعینات ۔ یاد رہے کہ فخر سندھ و شیردل ہونہار فرزند بہا...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں