اتوار، 29 جون، 2025

اس کہانی کی ابتدا لگ بھگ ایک سال قبل دبئی میں اُس وقت ہوئی جب برطانوی شہری کے ایئر پوڈز ایک ہوٹل سے غائب ہوئے۔ ’365 دن کے انتظار اور برطانیہ سے پاکستان تک 2,700 میل کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے ایئر پوڈز واپس مل گئے ہیں۔‘ BBC PK News


lord miles،تصویر کا ذریعہX/Lord Miles
،تصویر کا کیپشنبرطانوی شہری لارڈ مائلز اپنے آئی پوڈز پاکستانی میڈیا کو دکھاتے ہوئے
مضمون کی تفصیل
مصنف,محمد زبیر خان
عہدہ,صحافی

دستیاب سُراغ صرف ایئرپوڈز کی لوکیشن کا تھا اور ڈھونڈنے کے لیے سارا شہر۔۔۔

اس کہانی کی ابتدا دبئی میں لگ بھگ ایک سال قبل اُس وقت ہوئی جب ایک برطانوی شہری مائلز کے ایئر پوڈز ایک ہوٹل سے غائب ہو گئے اور ایک سال بعد اُن کی لوکیشن پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں پائی گئی۔

مائلز نے اپنی ڈیوائس حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت اور پنجاب پولیس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کے ذریعے رابطہ کیا۔ پنجاب پولیس کی جانب سے ایک انوکھی ترکیب اپنائی گئی اور مائلز نے اپنے پسندید ایئرپوڈز لینے کے لیے خود 2700 کلومیٹر کا سفر کر کے پاکستان آنے کی ٹھانی۔
لیکن یہ ایئر پوڈز جہلم شہر تک کیسے پہنچے اور پولیس نے ان کا سراغ کیسے لگایا؟ بی بی سی نے اس تحریر میں جہلم کی پولیس اور یہ ایئرپوڈز دبئی سے پاکستان لانے والے باریک بینی سے تلاش کا کام کیا گیا‘
جہلم کے ڈسڑکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) طارق عزیز کہتے ہیں کہ برطانوی شہری مائلز کی جانب سے چند دن قبل پنجاب پولیس، جہلم پولیس اور حکومت پاکستان کو ایکس پر ٹیگ کر کے کہا گیا تھا کہ اُن کے دبئی میں گُم ہونے والے ایئر پوڈ اِس وقت پاکستان کے شہر جہلم میں موجود ہیں۔

طارق عزیز کے مطابق ’اس پر جہلم پولیس نے ایکس ہی پر اُن سے رابطہ قائم کیا اور ان سے مزید معلومات حاصل کی گئیں۔‘

طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’مائلز ابتدائی طور پر تو جہلم کی لوکیشن بتا رہے تھے۔ ان سے وہ لوکیشن حاصل کر کے خود جدید طریقے سے تفتیش کی گئی۔ ایک دفعہ جب لوکیشن سمجھ میں آ گئی تو اس وقت لوکیشن پر موجود ہزاروں افراد سے انٹرویو اور تلاش کا کام ممکن نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایئر پوڈ مبینہ طور پر دبئی میں گم یا چوری ہوئے تھے۔ پولیس نے مزید ٹریکنگ کا کام کیا اور ایک مخصوص آبادی کی نشان دہی ہوئی کہ اس مقام پر ایئر پوڈز ہو سکتے ہیں۔۔۔ اس کے بعد ہم نے انسانی ذرائع استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’ایک خصوصی تفتیشی ٹیم کو ٹاسک سونپا گیا کہ وہ اس مخصوص علاقے میں پتا کریں کہ اس علاقے میں حالیہ دنوں میں کون کون دبئی سے واپس آیا ہے۔ ان لوگوں کے نام، پتے حاصل کر کے ان سے انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘شخص سے بھی تفصیل سے بات کی ہے۔ایئر پوڈز خریدے گئے تھے‘
طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’مخصوص لوکیشن میں سے جو لوگ دبئی سے آئے تھے انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے پاس ایئر پوڈز موجود ہیں۔ مگر جب ہماری تفتیش کے مطابق مرتب کردہ فہرست میں دبئی سے واپس آنے والے آخری شخص سے بات ہوئی تو انھوں نے ایئر پوڈز کی بات سنتے ہی ایک دم کہا کہ انھوں نے دبئی سے ایئر پوڈز خریدے تھے۔‘

پولیس کے مطابق اُس شخص نے ’خریداری کا ثبوت بھی دکھایا اور یہ بھی بتایا کہ انھوں نے کس سے اسے خریدا تھا۔ پولیس نے خریداری کے یہ سارے ثبوت مائلز کو دکھائے، جس کے بعد مائلز نے خود ہی ایکس پر پوسٹ کر دیا کہ ان کے ایئر پوڈز مل گئے ہیں۔‘

طارق عزیز کا کہنا تھا کہ ’جس شخص سے یہ ایئر پوڈز ملے جب انھوں نے برطانوی شہری مائلز کی انھیں تلاش کرنے کی کہانی سنی تو وہ مسکرائے اور یہ ایئر پوڈز رضاکارانہ طور پر یہ کہتے ہوئے ہمارے حوالے کر دیے کہ اگر ایک شخص ایئر پوڈز کے لیے اتنا جذباتی ہو رہا ہے تو انھیں یہ واپس کرتے ہوئے خوشی ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دوبارہ مائلز سے رابطہ قائم کیا اور انھیں کہا کہ اگر وہ چاہیں تو پولیس ان کے لیے کسی کوریئر سروس کے ذریعے یہ ایئرپوڈز واپس پہنچا سکتی ہے مگر انھوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ خود لینے آئیں گے اور پھر وہ جہلم ہمارے دفتر آئے۔‘


’سوچا نہیں تھا کہ ایک حیرت انگیز کہانی کا حصہ بنوں گا‘
مائلز کے ایئر پوڈز رضاکارانہ طور پرر واپس کرنے والے پاکستانی شہری حالیہ دنوں میں چھٹیاں گزارنے جہلم آئے تھے اور واپس جانے سے ایک دن پہلے انھوں نے یہ ایئر پوڈز پولیس کو دیے۔

مذکورہ پاکستانی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب مجھے پتا چلا کہ دبئی سے خریدے گئے ایئرپوڈز برطانوی شہری کے ہیں اور وہ اِن کو پانے کے لیے بہت بے تاب ہیں تو اس وقت میں بہت پریشان ہوا کہ کہیں مجھ پر اس کی چوری کا الزام نہ لگ جائے۔‘

’مگر شکر ہے کہ میرے پاس ایسے ثبوت موجود تھے کہ یہ میں نے خریدے تھے۔ میں نے یہ ثبوت پولیس کے حوالے کر دیے۔‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں