جمعہ، 28 فروری، 2025

*نوشہرہ: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خودکش حملے کا مقدمہ درج*۔ *گوجرانوالہ: 5 سالہ ایمان کے ریپ اور قتل کے ملزم کی گرفتاری، پُراسرار ہلاکت اور تدفین کی کہانی*پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ‘

نوشہرہ: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد خارجی راستے میں ہونے والے خود کش دھماکے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔دارالعلوم حقانیہ نوشہرہ میں خود کش حملے کا مقدمہ مولانا حامد الحق حقانی کے بیٹے عبدالحق ثانی کی مدعیت میں سی ٹی ڈی مردان میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔مقدمے میں انسدادِدہشت گردی ،قتل سمیت دیگردفعات شامل کی گئی ہیں۔سی ٹی ڈی کی جانب سے خودکش بمبار کی شناخت میں عوام سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔اطلاع دینے والے کے لیے 5 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ جمعہ کو خود کش دھماکے میں جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی سمیت 8افراد شہید اور 17سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔*

وسطی پنجاب کے شہر کامونکی کے قصبہ ’پرانی واہنڈو‘ میں واقع قبرستان کے ایک عقبی حصے کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔قبرستان میں پولیس کے چند اہلکار موجود ہیں جبکہ اُن کے قریب موجود ایک کرین کی مدد سے زمین میں گڑھا کھودا جا رہا ہے۔ قصبہ واہنڈو کے چند رہائشی ٹولیوں کی صورت میں اس مقام سے کافی دور کھڑے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔کرین گڑھا کھودتی ہے جس کے بعد قریب ہی کھڑی کالے رنگ کی ایک ہائی روف گاڑی سے سفید کپڑے میں لپٹی ایک میت کو نکالا جاتا ہے اور اس گڑھے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ میت گڑھے میں رکھتے ہی قریب موجود دو افراد کدالوں کی مدد سے گڑھے پر مٹی ڈالنا شروع کرتے ہیں مگر اسی اثنا میں ساتھ کھڑا پولیس اہلکار کرین میں موجود ڈرائیور کو اشارہ کرتا ہے جو مشین کی مدد سے جلدی جلدی گڑھا بھرنا شروع کر دیتا ہے۔اسی دوران اس مقام سے کچھ دور موجود قصبہ واہنڈو کا ایک نوجوان اپنے ساتھی کو سرگوشی کے انداز میں کہتا ہے کہ ’انھوں نے تو سلیبیں بھی نہیں رکھیں۔ اس کے بغیر ہی مٹی ڈالنی شروع کر دی ہے۔۔۔‘یاد رہے کہ مردے کو قبر میں رکھ کر قبر کے اوپر پہلے سیمنٹ یا لکڑی سے بنے بلاکس رکھے جاتے ہیں اور اس کے اوپر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔26 فروری کو پیش آئے تدفین کے یہ مناظر قصبہ واہنڈو کے ہی ایک نوجوان حسن عرف جھارا کے ہیں۔ قصبے کے رہائشیوں نے نہ صرف حسن کو مقامی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ اہل علاقہ کو ان کا نماز جنازہ نہ پڑھنے کی ہدایت بھی کی تھی۔تاہم مقامی پولیس کے مطابق رہائشیوں سے ہوئے مذاکرات کے بعد حسن کو مقامی قبرستان کے اُس عقبی حصے میں دفن کرنے کی اجازت مل گئی جو غیرآباد ہے یعنی وہاں پہلے سے کوئی قبر موجود نہیں ہے۔پولیس نے حسن کو دو روز قبل ہی اُس کے پڑوس میں رہنے والی ایک پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کے اغوا، ریپ اور قتل کے الزام میں تفتیش کی غرض سے حراست میں لیا تھا۔بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر تھانہ واہنڈو پولیس کے ایس ایچ او نے دعویٰ کیا کہ ملزم کو 25 فروری کو باقاعدہ طور پر گرفتار کیا گیا اور روزنامچے میں گرفتاری کا اندراج کیا گیا جبکہ گاؤں پرانی واہنڈو کے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے 22 فروری کی رات ساڑھے نو بجے ملزم کو اس کے گھر سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کو پانچ سالہ لڑکی کے اغوا کے مقدمہ نمبر 209/25 میں ضمنی بیان میں نامزد کیا گیا اور اس کی بنیاد پر ملزم کی گرفتاری اس کے گھر سے عمل میں لائی گئی۔پولیس ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ’ملزم کو جب حراست میں لے کر تھانے لایا گیا اور اس سے تفتیش کی گئی تو اس نے پولیس حراست میں کمسن بچی کے قتل کا اعتراف جرم کرلیا، اور پولیس کو تفصیلات بتائیں کہ کس طریقے سے مقتولہ بچی کے ساتھ درندگی کی گئی اور اسے قتل کرکے گھر کے صحن میں گڑھا کھود کر لاش دفنائی گئی۔‘یاد رہے کہ ملزم کو پولیس نے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب اُس کے گھر کے صحن سے پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کی لاش برآمد ہوئی تھی۔پولیس کے مطابق ملزم کے ریمانڈ کے لیے اسے 26 فروری کو علاقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یہ پولیس حراست سے ’فرار ہوگیا‘ اور پھر ’پولیس مقابلے‘ کے دوران ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک ہو گیا۔مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ جب ’ملزم کو برآمدگی اور وقوعے کی نشاندہی کی غرض سے لے جایا جا رہا تھا تو تین موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی اس دوران نامعلوم مسلح افراد ملزم کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہو گئے۔‘پولیس کا دعویٰ ہے کہ مشتبہ ملزم کے فرار کے کچھ ہی دیر بعد گشت پر موجود ایک پولیس پارٹی کا سامنا فرار ہونے والے افراد سے ہوا جس کے دوران دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور جب فائرنگ رُکی تو ایک شخص وہاں زخمی حالت میں پڑا تھا جس کی شناخت مفرور ملزم کے طور پر ہوئی جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔تاہم اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں پولیس کی حراست سے ایک ایسا ملزم بظاہر فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور بعدازاں مارا جاتا ہے جس کے بارے میں پولیس کو 'سائنسی بنیادوں پر کی گئی تفتیش کے بعد ناقابل تردید شواہد' مل چکے ہوتے ہیں۔ایسے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے عموماً یہ روایتی بیان جاری کیا جاتا ہے جس میں دعویٰ ہوتا ہے کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا جب 'ملزمان کے مسلح ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور اس دوران ہونے والی فائرنگ سے ملزم ہلاک ہو گیا۔‘عموماً اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر میں مقام، تاریخ اور ملزم کا نام بدلنے کا علاوہ باقی عبارت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران بتایا کہ اس کا سابقہ کردار بھی ٹھیک نہیں رہا اور وہ مبینہ طور پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے جس بارے پولیس نے چھان بین کرنی تھی لیکن اس سے پہلے ہی وہ موت کے منھ میں چلا گیا۔مگر پانچ سالہ ایمان فاطمہ کی گمشدگی، اُس کی میت کی ملزم حسن کے گھر کے صحن سے برآمدگی، ملزم کی گرفتاری، فرار، ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاکت‘ اور تدفین پر تنازع کی کہانی ہے کیا؟ایمان فاطمہ کی گمشدگیاس پوری کہانی کی ابتدا 22 فروری کی دوپہر اس وقت ہوئی جب گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی کے قبصہ واہنڈو میں سلائی کڑھائی کا کام کرنے والے عبدالشکور کی بیٹی پانچ سالہ بیٹی ایمان فاطمہ گھر میں کھیلتے ہوئے اچانک لاپتہ ہوگئی۔عبدالشکور اڑھائی مرلے کے گھر میں رہتے ہیں اور اُسی گھر کے ایک کمرے میں وہ کڑھائی سلائی کا کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے گھر میں مرغیاں بھی پال رکھی ہیں جن کے انڈے فروخت کر کے یہ خاندان گزر بسر کرتا ہے۔ عبدالشکور کے چار بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایمان فاطمہ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھیں۔عبدالشکور نے بی بی سی کو بتایا کہ ایمان اپنی سہیلیوں کے ساتھ معمول کے مطابق کھیل کود رہی تھی مگر جب وہ کافی دیر تک گھر واپس نہ آئی تو اس کی والدہ کو تشویش ہوئی۔ والد کے مطابق والدہ نے اپنی گلی اور قریبی گلیوں میں جا کر ایمان کو تلاش کیا مگر وہ نہیں ملی۔عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’میں اُس وقت سودا سلف لینے بازار گیا ہوا تھا۔ میری بیوی نے مجھے ساڑھے تین بجے کے قریب فون کیا کہ جلدی سے گھر واپس آؤ ایمان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔‘’میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا کہ خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو، اُس نے کہاں جانا ہے، اِدھر ہی کہیں ہو گی۔ بہرحال جب وہ مزید کچھ دیر نہ ملی تو میں بھی پریشان ہو گیا اور فورا گھر واپس آ گیا۔ ہم اپنی بیٹی کو ڈھونڈتے رہے اور اس دوران شام کے چھ بج گئے اور ہر طرف اندھیرا چھانے لگا۔ اب مجھے بُرے بُرے خیالات آنا شروع ہو گئے مگر ابتدا میں میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیا۔‘عبدالشکور نے بتایا کہ شام کو وہ تھانہ واہنڈو پہنچے اور اپنی بیٹی کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔ بی بی سی کو دستیاب ایمان کے اغوا کی ایف آئی آر میں بھی عبدالشکور نے یہی تفصیلات پولیس کو بتائی ہیں۔عبدالشکور کے مطابق ’پھر گاؤں واپس آ کر ہم نے مساجد کے ذریعے اعلانات بھی کروائے۔ پورے گاؤں میں شور مچ چکا تھا کہ بچی اغوا ہو گئی ہے مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔‘ملزم پر شک اور اس کے گھر کے صحن سے بچی کی لاش کی برآمدگیعبدالشکور بتاتے ہیں کہ شام کے بعد جیسے جیسے رات ہوتی گئی گاؤں کے تمام لوگ بھی پتا کرنے کے لیے ان کے گھر آنے لگے اور ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ 'ایک خوف کا عالم تھا جو پورے گاؤں پر طاری تھا۔عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’اس دوران ہماری ساتھ والی گلی کا رہائشی حسن جھارا مجھ سے بار بار آ کر پوچھتا رہا کہ ’بیٹی کا کچھ پتہ چلا، بیٹی مل گئی ہے کیا؟ لگتا ہے کہ کوئی اسے اغوا کرکے لے گیا ہے۔‘’وہ مجھے بار بار کہتا کہ آپ نے دوسرے دیہات میں جا کر بھی اعلانات کروانے تھے۔‘عبدالشکور بتاتے ہیں کہ رات کے ساڑھے نو بج گئے تھے اور اُن سمیت محلے داروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ شکور کے مطابق اُن سمیت اہل محلہ کا شک حسن جھارا پر بھی تھا۔شک کی وجہ سے متعلق بتاتے ہوئے عبدالشکور نے دعویٰ کیا کہ حسن کا کردار کچھ اچھا نہیں تھا اور ماضی قریب میں اس کی اپنی ایک کم عمر رشتہ دار نے اس پر ریپ کا الزام عائد کیا تھا مگر خاندان نے اندرونی طور پر اس تنازع کو دبا دیا تھا۔ اہل علاقہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ملزم منشیات کی خرید و فروخت کے کام سے بھی منسلک تھا۔ تاہم بی بی سی اس الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔عبدالشکور کے مطابق اس دوران ’اہل علاقہ سے مشورے کے بعد گاؤں کے کچھ معزز افراد حسن جھارا کے گھر داخل ہوئے اور بچی سے متعلق دریافت کیا۔‘عبدالشکور کا کہنا ہے کہ ’حسن اور اُن کی والدہ آخری وقت تک پراعتماد انداز میں بتاتے رہے کہ وہ اس متعلق کچھ نہیں جانتے۔ اس گفتگو کے دوران گاؤں کے ایک شخص نے صحن کی مٹی کا کچھ حصہ نرم دیکھ کر شک کا اظہار کیا اور دریافت کیا کہ یہاں مٹی نرم کیوں ہے۔‘عبدالشکور کے مطابق ’ملزم نے کہا کہ وہ کدال لانے جا رہا ہے، آپ خود یہاں کھدائی کر کے دیکھ لیں۔ اُس کا ارادہ یہی تھا کہ چونکہ اب اس کی واردات پکڑی جانے کے قریب ہے اس لیے وہ یہاں سے فرار ہو جائے۔ مگر اس کے چہرے پر واضح پریشانی دیکھ کر محلے داروں نے اسے پکڑ لیا۔‘عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’جب لوگوں نے نرم مٹی کی کھدائی کی، تو نیچے سے میری ننھی پری کی لاش برآمد ہو گئی۔ مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ لوگوں نے ہی پولیس کو اطلاع کی جو دونوں ماں، بیٹے کو پکڑ کر لے گئی۔‘عبدالشکور کہتے ہیں کہ ’وہ قیامت کے لمحات تھے۔ جب کھدائی شروع ہوئی تو کچھ ہی دیر میں مٹی کے نیچے سے میری بیٹی کی لاش نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔ ایمان نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو یوں اسے درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ بیٹی کو اب دفنا دیا ہے لیکن ابھی تک دل و دماغ پر چھایا اس کا چہرہ سے نہیں ہٹ رہا۔‘یاد رہے کہ پولیس نے اس قتل کیس میں ملزم کی والدہ کو بھی حراست میں لے رکھا ہے جن پر ایمان کی لاش کو دفن کرنے میں مدد دینے، قتل میں شواہد کو چھپانے اور ضائع کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔پولیس نے اس سارے معاملے میں تین ایف آئی آرز درج کی ہیں، پہلی ایف آئی آر پانچ سالہ ایمان فاطمہ کے اغوا کی ہے، دوسری ایف آئی آر زیر حراست ملزم حسن کے فرار کی ہے جبکہ تیسری ایف آئی آر مبینہ طور پر فرار ہونے والے ملزم کی ہلاکت سے متعلق ہے۔ایمان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا بتایا گیا ہے؟پانچ سالہ ایمان کی لاش کی ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی ہے تاہم حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔ اس ابتدائی رپورٹ میں بچی کے جسم کے نازک حصے (وجائنا) اور ٹانگوں کے اوپری حصوں پر خون کے نشانات پائے گئے ہیں جبکہ اُس کی گردن پر دبائے جانے کے نشانات ہیں۔ اس کے علاوہ ہونٹوں اور زبان پر بھی زخموں کے نشانات موجود تھے۔سول ہسپتال کامونکی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سعد احمد نے اس سلسلے میں بتایا کہ بچی کے جسم اور ڈی این اے کے نمونے حتمی تجزیے اور رپورٹ کےلیے لاہور بھیجے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈی این اے کی رپورٹ آنے کے بعد معلوم ہو گا کہ آیا بچی کو قتل کرنے سے قبل اس کا ریپ کیا گیا تھا یا نہیں۔یاد رہے کہ پولیس نے ملزم حسن کے خلاف درج ایف آئی آر میں مبینہ اغوا، قتل اور کم عمر بچوں کے ریپ سے متعلق دفعات درج کر رکھی ہیں۔ملزم کا ’رات کی تاریکی میں فرار‘ اور پُراسرار حالات میں ہلاکتملزم کے فرار سے متعلق درج کی گئی ایف آئی آر میں کچھ واقعات درج ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق 25 فروری کی رات 12 بج کر 40 منٹ کر ملزم حسن عرف جھارا کو ’پولیس بسلسلہ تفتیش و نشاندہی پرانی آبادی واہنڈو لے جا رہی تھی کہ کلوں کلاں پُل سے پرانی واہنڈو کی جانب مڑنے پر تین موٹر سائیکلوں پر سوار پانچ نامعلوم ملزمان نے پولیس گاڑی پر سیدھی فائرنگ کر دی۔‘’پولیس اہکاروں نے ڈیک کی پٹری کی اوٹ لے کر اپنی جان بچائی تاہم ملزمان اپنے ساتھی ملزم حسن عرف جھارا کو ہتھکڑیوں سمیت چھڑوا کر فرار ہو گئے۔ فرار ملزمان کی اطلاع ملتے ہی علاقہ میں ناکہ بندی کروا دی گئی، فرار کے 15 منٹ بعد پولیس ناکہ کوڑی کوٹ چوک پر ملزمان کا دوبارہ پولیس سے آمنا سامنا ہو گیا۔‘ایف آئی آر کے مطابق ’پولیس اہلکاروں کو کھڑا دیکھ کر ملزمان نے دوبارہ فائرنگ شروع کر دی تاہم پولیس ملازمان نے گاڑی کی اوٹ میں ہو کر اور زمین پر لیٹ کر اپنی جانیں بچائیں اور سیلف ڈیفنس میں اِکا دُکا فائر کیے۔‘ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’فائرنگ رُکنے کے بعد علاقے کا جائزہ لیا گیا تو کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے پر ایک ملزم شدید زخمی حالت میں پڑا ملا جو اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ زخمی ہوا تھا۔ زخمی ملزم کو ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ ہلاک ہونے والے ملزم کی شناخت حسن عرف جھارا کے نام سے ہوئی جبکہ دیگر ملزمان اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔‘یاد رہے کہ پنجاب میں ریپ اور اس نوعیت کے سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست مجرموں کی اس طرح کے پراسرار حالات میں ہلاکت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ملزم کی تدفین پر تنازعپانچ سالہ بچی کو قتل کر کے اپنے گھر کے صحن میں دبانے والے مبینہ مشتبہ ملزم کی لاش کو گاؤں والوں نے نماز جنازہ وغیرہ کے ساتھ تدفین سے انکار کردیا جس پر پولیس کی موجودگی میں کرین کے ساتھ مقامی قبرستان کے ایک الگ حصے میں گڑھا کھود کر اس کو دفنایا گیا۔بی بی سی کے رابطہ کرنے پر گاؤں پرانی واہنڈو کے رہائشیوں نے بتایا کہ علاقہ مکینوں نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ملزم کی نا تو قبر بنانے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی کوئی اس کے نماز جنازہ میں شرکت کرے گا۔اس گاؤں کے رہائشی چوہدری اسلم نے اس فیصلے سے متعلق بتایا کہ ’یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے گاؤں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ چونکہ ملزم نے کمسن بچی کے ساتھ ظلم کیا اس لیے نہ تو کوئی اس کا نماز جنازہ پڑھے یا پڑھائے گا اور نہ ہی اس کی گاؤں کے قبرستان میں اس کی تدفین ہو گی۔‘چوہدری اسلم کے مطابق ’پولیس کے اصرار پر ہم نے اسے قبرستان کے ایک الگ حصے میں دفن تو ہونے دیا ہے لیکن اس کی قبر نہیں بننے دیں گے۔‘تاہم اس سوال کے جواب میں کہ ملزم کا جرم ثابت نہیں ہوا تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ بچی کی میت اس کے گھر سے ملی تھی جبکہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ بھی بچی کے ریپ کو ظاہر کرتی ہے۔انھوں نے کہا ’اہل علاقہ نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ اس کو ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے اور آئندہ کوئی بھی شخص کسی معصوم بچی یا بچے کے ساتھ ایسا کچھ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

*💫خبروں کی تفصیل💫*ہفتہ30؍شعبان المعظم 1446ھ یکم؍مارچ2025ء*🌟آج کا اخبار اہم خبریں🌟*

مدرسہ حقانیہ میں خودکش دھماکا، جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت 8 شہید، 20 سے زائد زخمی*تاجر مسائل کا حل ترجیح، صنعت کار معیشت کی ریڑھ کی ہڈی، وزیراعظم، بزنس کمیونٹی اور وزراء پر مشتمل کمیٹی بنانے کی ہدایتچین سے تاریخی معاہدہ، پاکستانی خلا میں جائے گا، سپارکوٹرمپ کا افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لینے کا اعلان، پاکستان میں استعمال ہورہا ہے، دفتر خارجہ38 برس میں کئی مذہبی رہنما قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنےپاکستان کیساتھ تعلقات کم نہیں اپ گریڈ کئے، چینی قونصل جنرل لاہور8 ماہ میں ایف بی آر کا ٹیکس ریونیو میں 600 ارب سے زائد شارٹ فالٹرمپ اور یوکرینی صدر کی ملاقات جھگڑے کی صورت اختیار کرگئیداعش یا TTP کے ملوث ہونے کا شبہ خارج از امکان نہیںٹرمپ دور میں اثر و رسوخ اور پیچھے رہ جانے والے گروہ کون سے ہونگےمصطفیٰ قتل کیس، وزیراعلیٰ سندھ کے پولیس کو بلاتفریق کارروائیوں کے احکامدوران تفتیش ارمغان کی ڈرامے بازی، بار بار بیہوشی کی ایکٹنگ کرتا رہاحکومتی کارکردگی؛ کس طرح بہتری لائی جائے؟ 5 سب ورکنگ گروپس تشکیلبیورو کریسی تقرر و تبادلے، صباء عاصم جوائنٹ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تعیناتٹرمپ، زیلنسکی میں تلخی مفادات کی تبدیلی پر کمزور ملک کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہےاسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وزیراعظم پیکیج تحت کنٹریکٹ پر تقرری کے رہنما اصول واپس لے لئے250 سالہ تاریخ میں پہلی بار امریکا انگریزی زبان کو سرکاری بنانے جارہا ہےامریکی میگزین میں ایک بار پھر عمران خان کا آرٹیکلعمران نے مضمون میں ملک کی مسخ شدہ تصویر کشی کی ہے، احسن اقبالپیٹرول 50 پیسے، ڈیزل 5 روپے 31 پیسے سستا*ملک میں رمضان کا چاند نظر نہیں آیا، پہلا روزہ اتوار کو ہوگا*ارمغان پر فائرنگ کا مقدمہ بھی سامنے آگیااسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کا پہلا اجلاسارمغان سے منی لانڈرنگ تفتیش شروعصحافی کو گولی مارنیوالا بھی ارمغان نکلاسائبر ماہرین پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی تشکیلمصطفیٰ عامر کانام منشیات کیس سے خارجسندھ حکومت سے جان چھڑانے کیلئے سب کو متحد ہونا پڑیگا، آفاق احمدپاکستان میں بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے، شرجیل میمن*ماہ رمضان، ٹی وی چینلز کوضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے، ڈاکٹر راغب نعیمی*برآمدات 60 ارب ڈالر تک بڑھانے کا منصوبہ ہے، قیصر احمد شیخاے این ایف کی کارروائیاں، 5 ملزمان گرفتار، بھاری مالیت کی منشیات برآمدکراچی کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالرحمٰن انتقال کرگئےاسٹاک مارکیٹ، ہفتے کے آخری روز بھی فروخت کا دباؤ برقرار، 533 پوائنٹس کی کمیایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس ذمہ داریوں سے سبکدوشسندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر شکایات پر معطلسونا 2500 روپے اور ڈالر 5 پیسے سستاپاکستان اصولی اور غیرجانبدار خارجہ پالیسی پر کاربند ہے، ایاز صادقجامعہ حفصہ کی مہتمم ام حسان سمیت 16 افراد کا مزید جسمانی ریمانڈپاکستان میں بدعنوانی کیخلاف اقوام متحدہ کی رپورٹ پر وفاقی کابینہ نے کمیٹی تشکیل دیدیسندھ میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی، مرتضیٰ جتوئیامارات، سعودی عرب سمیت 7 ملکوں سے ایک دن میں 75 پاکستانی ڈی پورٹطوفان تھمنے تک سینئر کرکٹرز کا نظروں سے اوجھل ہونے پر غور، دورۂ نیوزی لینڈ سے دستبرداری کا امکانمیٹرک بورڈ، سالانہ ہفتہ طلبہ پروگرام ملتویکوریا، برطانیہ، ترکیہ سمیت 18 ممالک کے 48 مسافر کراچی ایئرپورٹ پر آف لوڈچیمپئنز ٹرافی سیمی فائنل پر نظر، جنوبی افریقا کا آج انگلینڈ سے مقابلہ

`*👏🛑 *آج دن بھر کیا کچھ ہوا؟* 🛑🛑 *28 فروری 2025 | بروز جمعہ | اہم خبروں کی جھلکیاں |*

(1) پاکستان اور بھارت میں رمضان کا چاند نظر نہیں آیا، پہلا روزہ اتوار 2 مارچ کو ہوگا🚨 (2) سعودی عرب میں رمضان کا چاند نظر آگیا، کل ہفتے کو پہلا روزہ ہوگا🚨 (3) چاند نظر آنے کی شہادت موصول نہیں ہوئی، پہلا روزہ اتوار کو رکھا جائے گا، مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا بھی اعلان🚨 (4) دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خودکش دھماکا، مولانا حامد الحق سمیت 8 افراد شہید، 15 زخمی🚨 (5) خودکش حملہ آور کے اعضا مل گئے، اصل ٹارگٹ مولانا حامد الحق تھے، ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی🚨 (6) دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک دھماکا، صدر و وزیراعظم کا اظہار مذمت، رپورٹ طلب کرلی🚨 (7) دارالعلوم حقانیہ اور مولانا حامد پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے: مولانا فضل الرحمان کا اظہار رنج و غم🚨 (8) افغان حکومت کی دارالعلوم حقانیہ میں خودکش دھماکے کی مذمت🚨 (9) مولانا حامد الحق نے خواتین کو تعلیم سے روکنے کو خلاف اسلام قرار دیا تھا: سیکورٹی ذرائع🚨 (10) مولانا حامد الحق 26 مئی 1968ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے، دینی تعلیم دارالعلوم حقانیہ ہی سے حاصل کی🚨 (11) مولانا حامد الحق حقانی ایم ایم اے کے ٹکٹ پر 2002ء سے 2007ء تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے🚨 (12) کوئٹہ: ایف سی کے قافلے کے قریب بم دھماکا، ایک اہلکار سمیت 10 افراد زخمی🚨 (13) سیکورٹی فورسز کی شمالی وزیرستان میں کارروائی، 6 خارجی دہشت گرد ہلاک🚨 (14) آئندہ 15 روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کا امکان🚨 (15) مہنگائی کے ستائے شہریوں کیلئے خوش خبری، ایل پی جی سستی ہوگئی🚨 (16) یوٹیلٹی اسٹورز پر رمضان ریلیف پیکیج آج سے شروع🚨 (17) رمضان پیکیج: 800 اشیاء پر 15 فیصد تک رعایت ملے گی، اسٹورز صبح 9 تا رات 10 بجے کھلے رہیں گے🚨 (18) افغانستان اور آسٹریلیا کا میچ بارش کے باعث ختم، کینگروز سیمی فائنل میں پہنچ گئے🚨 (19) چیمپئنز ٹرافی میں ٹیم کی ناقص کارکردگی پر انگلش کپتان جوز بٹلر کا مستعفی ہونے کا اعلان🚨 (20) قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کا ایف آئی اے اور اے این ایف کو مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات کا حکم🚨 (21) مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل عدالت میں پیش ہوا تھا🚨 (22) مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم کے گھر سے کرپٹو کرنسی کی اربوں روپے مالیت کی 2 مائنگ مشینیں برآمد🚨 (23) مصطفیٰ عامر کیس: ملزم ارمغان نہایت شاطراور عادی جرائم پیشہ ہے، پولیس رپورٹ عدالت میں جمع🚨 (24) کراچی پولیس چیف نے ارمغان کیس میں اپنی نااہلی تسلیم کرلی🚨 (25) سپریم کورٹ آئینی بینچ میں مزید 5 ججز کا اضافہ، جسٹس منیب، جسٹس منصور اور دو پی ٹی آئی ارکان کی مخالفت🚨 (26) درخواست میں لکھا ہے 9 مئی کو درجنوں لوگ مارے گئے، کسی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں لگایا، آئینی بینچ🚨 (27) کراچی: بوٹ بیسن میں کار سواروں پر تشدد میں ملوث شاہ زین مری بلوچستان فرار، 7 گارڈ گرفتار🚨 (28) افغانستان میں چھوڑے گئے جدید امریکی ہتھیار دہشتگرد پاکستان میں استعمال کر رہے ہیں: ترجمان دفتر خارجہ🚨 (29) فی تولہ خالص سونے کے دام 2 ہزار 500 روپے کمی سے 3 لاکھ 500 روپے ہو گئے🚨 (30) کراچی: گلشن اقبال میں ٹینکر کی ٹکر سے ایک شہری جاں بحق، دوسرا زخمی، ٹینکر نذرآتش🚨 (31) حسینہ واجد کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے طلبہ نے سیاسی جماعت بنا لی🚨 (32) لاہور: فواد چوہدری 9 مئی کے 5 مقدمات میں گناہ گار قرار🚨 (33) 9 مئی کے ملزمان کی ضمانت منسوخی کیس، پنجاب حکومت کو رپورٹ جمع کرانے کیلئے دو ہفتوں کی مہلت🚨 (34) پی ایس ایل 10 کا آغاز 11 اپریل کو ہوگا، پی سی بی نے شیڈول جاری کردیا🚨 (35) تحریک انصاف مالی بحران کا شکار، ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کردی🚨 (36) کراچی میں ٹرک کی ٹکر اور دیگر ٹریفک حادثات میں مزید 4 افراد جاں بحق ہوگئے🚨 (37) چکوال: کراچی سے سوات جانے والی بس کو خوفناک حادثہ، 8 افراد جاں بحق🚨 (38) کراچی کے شہری ڈمپرز کا نشانہ بن رہے ہیں، وزیر ڈبل ڈیکر سے پہلے سنگل بس چلاکر تودکھائیں: حافظ نعیم الرحمٰن🚨 (39) سال 2024ء: ملک بھر میں 24 ہزار افراد اغوا، 5 ہزار خواتین سے زیادتی، غیرت کے نام پر 547 قتل🚨 (40) عصمت دری میں پنجاب میں 4641، سندھ میں 243، کے پی میں 258، بلوچستان میں 21 اور اسلام آباد میں 176 کیسز ہوئے، رپورٹ جاری* پاکستان اور روس کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق🚨 (42) پاکستان جمہوریت میں سب سے کم کارکردگی دکھانے والے ممالک میں شامل🚨 (43) جی ایچ کیو حملہ کیس؛ شیخ رشید کی بریت کی درخواست پر سپریم کورٹ کا پنجاب حکومت کو نوٹس🚨 (44) لیبیا کشتی حادثے میں جاں بحق 13 افراد میں سے 5 کی میتیں پاراچنار پہنچا دی گئیں🚨 (45) پرویز خٹک کو وزیراعظم کا مشیر بنانے پر اختیار ولی پارٹی قیادت سے ناراض🚨 (46) افغان حکام کی پاکستانی سرحد پر چیک پوسٹ قائم کرنے کی کوشش؛ دفتر خارجہ کی تصدیق🚨 (47) ہم کسی کو بازیاب تو کروا سکتے ہیں، ایسا کیوں ہے کہ اِسے روک نہیں سکتے، جسٹس جمال مندوخیل🚨 (48) عافیہ صدیقی کیس؛ میں یہ سوچ نہیں سکتا حکومت اٹارنی جنرل آفس کی معاونت رد کرے، جسٹس اسحاق🚨 (49) کفایت شعاری صرف غریب کیلئے ہے؟ وفاقی کابینہ میں توسیع پر پیپلز پارٹی کی تنقید🚨 (50) بجلی کے بل اربوں روپے تک جا پہنچے، پنجاب کی جیلوں کو سولر انرجی پر لانے کا فیصلہ🚨 (51) پاکستان اور چین کے درمیان خلائی تحقیق میں تعاون کا تاریخی معاہدہ🚨 (52) خلائی تحقیق میں تعاون کا معاہدہ پاک-چین دوستی کا ایک نیا باب ہے، وزیراعظم🚨 (53) حکومت کا گوادر پورٹ کو مکمل آپریشنل کرنے کا فیصلہ🚨 (54) تیز ترین ڈیلیوری کیلئے 2 نئے ای پاسپورٹ پرنٹرز کراچی پہنچ گئے🚨 (55) بھارت میں برفانی تودہ گر گیا؛ 57 مزدور دب گئے🚨 (56) متحدہ عرب امارات؛ رمضان کا چاند دیکھنے کیلئے پہلی بار ڈرونز اور AI کا استعمال*(رپورٹ: عطامحمدمحمداسلم جئدیومھیشوری اسلام آبادٹو، کراچی)*

کراچی..کراچی میں جاری دو روزہ اسٹیوٹا فیسٹیول کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ۔ چیئرمین الیون کے ہاتھوں ایم ڈی الیون کو شکست ۔ چیئرمین الیون کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی و چیئرپرسن اسٹیوٹا جنید بلند کی جارحانہ بیٹنگ کا میچ کی کامیابی میں کلیدی کردار۔ رپورٹ ۔

۔انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف تفصیلات ۔۔کراچی میں دو روزہ اسٹیوٹا اسپورٹس فیسٹول کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا، جس میں کرکٹ، ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن اور ہنڈریڈ میٹر ریس کے سنسنی خیز مقابلے منعقد کیے گئے۔ فیسٹول میں ڈویژن سطح کی ٹیموں نے شرکت کی اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ نمائشی کرکٹ میچ میں چیئرمین الیون نے ایم ڈی الیون کو مات دے دی جس میں وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی و چیئرمین اسٹیوٹا جنید بلند کی شاندار اننگ نے مرکزی کردار ادا کیا ۔ دوسری جانب ریس میں چیئرمین جنید بلند نے ایم ڈی اسٹیوٹا، ریجنل ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹرز کے ساتھ اسٹاف کی دوڑیں لگوا دیں، اسٹاف کو بھگا بھگا کر آخر میں چیئرمین نے فتح حاصل کر لی۔ چیئرمین جنید بلند نے ایم ڈی اسٹیوٹا منور علی مٹھانی سے آرم ریسلنگ کے ساتھ تمام طلبہ کے ساتھ بیڈمنٹن، کرکٹ، اور ٹیبل ٹینس بھی کھیلی۔اختتامی تقریب میں وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی و چیئرمین اسٹیوٹا جنید بلند نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیوٹا اسپورٹس فیسٹیول کا مقصد نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا، کھیل کے میدانوں کو فعال بنانا اور ہنر و تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کی قیادت میں سندھ حکومت نے اسٹیوٹا کے ذریعے نوجوانوں کو جدید ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ہنر سکھانے کے مواقع فراہم کیے ہیں تاکہ وہ خود مختار بن سکیں۔ بلاول بھٹو کا ماننا ہے کہ نوجوانوں کو جدید ہنر سکھا کر ہی پاکستان کا مستقبل روشن بنایا جا سکتا ہے، جس کے لیے اسٹیوٹا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

*سال 2024ء: ملک بھر میں 24 ہزار افراد اغوا، 5 ہزار خواتین سے زیادتی، غیرت کے نام پر 547 قتل*

عصمت دری میں پنجاب میں 4641، سندھ میں 243، کے پی میں 258، بلوچستان میں 21 اور اسلام آباد میں 176 کیسز ہوئے،رپورٹ جاری*پائیدار سماجی ترقی تنظیم (SSDO) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ ’’پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کا جائزہ 2024‘‘ جاری کردی جس میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں عصمت دری، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور گھریلو تشدد کے کیسز کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ میں صنفی بنیاد پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور انتہائی کم سزا کی شرح کو اجاگر کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق سال 2024ء میں ملک بھر میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 32,617 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں 5,339 عصمت دری، 24,439 اغوا، 2,238 گھریلو تشدد اور 547 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات شامل ہیں۔ اس کے باوجود، تمام صوبوں میں سزا کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔ عصمت دری اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں سزا کی قومی شرح صرف 0.5% ہے، اغوا کے کیسز میں سزا کی شرح 0.1%، جبکہ گھریلو تشدد کے کیسز میں سزا کی شرح 1.3% ہے۔

مولانا حامد الحق اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قریب سمجھے جاتے تھے اور انھوں نے سیاسی طور پر ان سے بہت کچھ سیکھا۔۔۔ ’پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے بھی جامعہ حقانیہ انتہائی اہم رہا ہے اور اس کے ذریعے ایسے مؤثر چینل کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے ریاستی پالیسیوں کے نفاذ میں آسانی ہوتی ہے



والد کے قریب سمجھے جانے والے مولانا حامد الحق کون تھے اور مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کی سیاسی و مذہبی اہمیت کیا ہے؟
مدرسہ ،تصویر کا ذریعہFacebook/Hamid-Ul-Haq-Haqqani
،تصویر کا کیپشنمولانا حامد الحق اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قریب سمجھے جاتے تھے اور انھوں نے سیاسی طور پر ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔
مضمون کی تفصیل
مصنف,عزیز اللہ خان
عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
ایک گھنٹہ قبل
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں جمعے کو ہونے والے خودکش حملے میں جے یو آئی (س) کے سربراہ اور مدرسے کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے ہیں۔

آئی جی پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے بی بی سی کو اس دھماکے میں مولانا حامد الحق کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ دھماکہ جمعے کی نماز کے بعد ہوا اور حملہ آور کا ہدف جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سمیع الحق گروپ کے سربراہ اور مدرسے کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق تھے۔

واضح رہے کہ اب تک اس حملے کی ذمہ داری کسی شدت پسند تنظیم یا گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔

مولانا حامد الحق کون تھے؟
حامد الحق ،تصویر کا ذریعہFacebook/Hamid-Ul-Haq-Haqqani
،تصویر کا کیپشنمولانا حامد الحق نے سنہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کی ٹکٹ پر انتحابات میں حصہ لیا تھا اور اپنے حلقے اکوڑہ خٹک سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علما اسلام (س) گروپ کے 57 سالہ رہنما مولانا حامد الحق اپنی پارٹی کے سربراہ اور خیبر پحتونخوا کے ضلع نوشہرہ کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم تھے۔ ان کے چچا مولانا انوار الحق اس وقت مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم ہیں۔ وہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔

مولانا حامد الحق سنہ 2018 میں اپنے والد مولانا سمیع الحق کے اسلام آباد میں قتل کے بعد جماعت کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔

مولانا حامد الحق 1968 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور انھوں نے دینی تعلیم دارالعلوم حقانیہ سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر دنیاوی تعلیم میں گریجویشن کر رکھی تھی۔

وہ پاکستانی مدرسہ جس کے طلبہ طالبان کابینہ میں بھی شامل رہے
8 ستمبر 2021
سراج الدین حقانی کی واحد تصویر جو پاکستانی گلوکارہ کے کیسٹ کور میں ’سمگل‘ کی گئی
8 ستمبر 2021
مولانا سمیع الحق کون تھے؟
2 نومبر 2018
’سرکاری سکولوں کا فنڈ دارالعلوم حقانیہ کو کیوں دیا؟‘
12 اپريل 2019

امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی تھی اور سنہ 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان کے سابق آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی پالیسیوں کے خلاف ایک سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل قائم کیا گیا۔

مذہبی جماعتوں کے اس سیاسی اتحاد نے 2002 کے عام انتخابات میں بڑی تعداد میں صوبائی و قومی سطح پر نشستیں جیتیں اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کی تھی۔

مولانا حامد الحق نے سنہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کی ٹکٹ پر انتحابات میں حصہ لیا تھا اور اپنے حلقے اکوڑہ خٹک سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

وہ 2007 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ انھوں نے اس کے بعد بھی انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

مولانا حامد الحق اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قریب سمجھے جاتے تھے اور انھوں نے سیاسی طور پر ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان کے والد ایک معروف سیاسی اور مذہبی شخصیت تھے۔

حامد الحق اور ان کی جماعت کے دیگر اراکین افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے وفود میں شامل رہے ہیں اور گذشتہ دنوں صوبائی حکومت کی جانب سے بلائے گئے دینی جماعتوں کے رہنماؤں اور علما کرام کے ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

اس اجلاس میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوئی تھی اور اس میں أفغانستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے وفود تشکیل دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی اہمیت کیا ہے؟
مدرسہ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنجامعہ دارالعلوم حقانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں سے فارغ ہونے والے طلبا پاکستان اور افغانستان میں مذہبی سیاسی منظر نامے اور عسکری تحریکوں میں متحرک پائے گئے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں جمعے کو خودکش حملے میں نشانہ بننے والا مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پاکستان کے مدارس میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور مختلف ادوار حکومت میں اس مدرسے کو حکومتی گرانٹس بھی دی جاتی رہی ہے۔

یہ کوئی عام مدرسہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی اہم درسگاہ ہے جس نے علمی روایت کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر اور افغانستان پر سوویت حملے کے بعد سے عسکری سطح پر بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس مدرسے کی بنیاد مولانا سمیع الحق کے والد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے پاکستان بننے کے ایک ماہ بعد یعنی ستمبر 1947 میں رکھی تھی۔

یہ مدرسہ پشاور سے اسلام آباد جانے والی شاہراہ جی ٹی روڈ پر اکوڑہ خٹک کے مقام پر واقع ہے۔

ماضی میں افغانستان سے تجارت اور آمد و رفت کے لیے یہ ایک اہم مقام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے ماضی میں بھی بڑی تعداد میں لوگ اس مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے رہے ہیں۔

جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں سے فارغ ہونے والے طلبا پاکستان اور افغانستان میں مذہبی سیاسی منظر نامے اور عسکری تحریکوں میں متحرک پائے گئے ہیں۔

حالیہ دہائیوں میں پاکستان اور افغانستان میں جب بھی سیاسی یا عسکری طور پر کوئی تبدیلی سامنے آئی ہے تو اس وقت اس مدرسے کا کردار اور اس مدرسے کے سینیئر رہنماؤں کا کردار بھی نمایاں رہا ہے۔

یہ مدرسہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق کی وجہ سے بھی زیادہ شہرت رکھتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں مولانا سمیع الحق کو 'بابائے طالبان' بھی کہا جاتا رہا ہے۔

دارالعلوم حقانیہ کا سیاسی اثر و رسوخ
مدرسہ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشندارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تین طالبعلم اس وقت افغانستان کی عبوری حکومت میں وزیر ہیں۔
سنہ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کیے گئے۔ ان میں دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ مولانا سمیع الحق کی جماعت اور ان کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ نے بھی بھرپور آواز اٹھائی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندی میں جب اضافہ ہوا تو اس وقت حکومت نے مولانا سمیع الحق سے تعاون طلب کیا تھا تاکہ علاقے میں امن قائم ہو اور تشدد کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت نے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کو فنڈز بھی جاری کیے تھے۔

سال 2019 میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اس مدرسے کو تین کروڑ روپے کی گرانٹ دی تھی جبکہ پی ٹی آئی کے سابق دورِ حکومت میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی اس مدرسے کے لیے بھاری گرانٹ منظور کی تھی جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی تھی۔

سنہ 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا تو اس وقت بھی جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا نام سامنے آیا ہے۔

اس وقت سکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کوئی عام مدرسہ نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی روایات رہی ہیں۔ اس میں علمی روایت کے علاوہ اس مدرسے کا عسکریت پسندی اور مذہبی سیاسی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار رہا ہے۔

عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس مدرسے کا پاکستان کی سیاسی و سکیورٹی صورتحال پر اثر اب بھی ہے اور اس وقت افغانستان کی حکومت، شوریٰ اور اداروں میں متعدد ایسے لوگ شامل ہیں جو اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں یا اس جامعہ سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔

getty،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنعامر رانا کے مطابق پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے بھی جامعہ حقانیہ انتہائی اہم رہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک ایسے مؤثر چینل کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے ریاستی پالیسیوں کے نفاذ میں آسانی ہوتی ہےاور مختلف اوقات میں اس ذریعے کو استعمال کیا گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق گروپ) کے رہنما اور مدرسے کے اعلیٰ عہدیدار مولانا یوسف شاہ نے سنہ 2021 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ماضی میں بھی افغان طالبان کی حکومت میں جامعہ حقانیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے متعدد افراد شامل تھے۔

مولانا یوسف شاہ کے مطابق اس مدرسے میں سابق افغان رہنما مولانا جلال الدین حقانی، مولانا یونس خالص، مولانا محمد نبی محمدی اور دیگر نے تعلیم حاصل کی تھی اور یہ وہی قائدین ہیں جنھوں نے سویت یونین کو شکست دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ صرف افغانستان نہیں بلکہ پاکستان میں بھی مختلف شعبوں میں ان کے مدرسے سے فارغ التحصیل افراد کام کر رہے ہیں، پارلیمان میں بھی اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں میں ان کے مدرسے کے رہنما شامل ہیں۔

واضح رہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تین طالبعلم اس وقت افغانستان کی عبوری حکومت میں وزیر ہیں۔

عامر رانا کے مطابق پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے بھی جامعہ حقانیہ انتہائی اہم رہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک ایسے مؤثر چینل کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے ریاستی پالیسیوں کے نفاذ میں آسانی ہوتی ہےاور مختلف اوقات میں اس ذریعے کو استعمال کیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جب ریاستی اداروں کی پالیسیاں تبدیل ہوئیں تو اس مدرسے نے ان پالیسیوں کے لیے بھی کردار ادا کیا جیسا کہ پیغام پاکستان کا سلسلہ تھا جس میں مدرسے کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ بھی شامل ہے اور جامعہ حقانیہ کے قائدین اس پالیسی کو ساتھ لے کر چلے۔

انھوں نے کہا کہ اس ادارے کا ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تصادم سامنے نہیں آیا البتہ کچھ مواقع پر مدرسے کی جانب سے اختلافی آوازیں ضرور سامنے آئی ہیں۔


*پرویز خٹک کو وزیراعظم کا مشیر بنانے پر اختیار ولی پارٹی قیادت سے ناراض*

پشاور: پی ٹی آئی دور حکومت میں سابق وزیر دفاع رہنے والے پرویز خٹک کو وزیراعظم کا مشیر بنانے پر اختیار ولی پارٹی قیادت سے ناراض ہوگئے۔مسلم لیگ کے رہنما اختیار ولی نے سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔سینیئر رہنما نے پارٹی کے تینوں عہدوں صوبائی ایڈیشنل سیکرٹری، چیف کوآرڈینیٹر یوتھ اور ممبر سی ای سی سے مستعفی ہونے پر مشاورت شروع کر دی۔اختیار ولی نے کہا کہ پارٹی کے مرکزی عہدیداروں سے کوئی رابطہ نہیں کیا، مجھے عہدوں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی وزارت چاہیے، خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن کہاں کھڑی ہے، اسے پارٹی کو خود دیکھنا ہوگا۔سینیئر رہنما نے کہا کہ سیاست ہمیشہ مفاہمت اور مصلحت کی شکار رہی ہے لیکن مصلحت میں اپنی شناخت کو نہیں کھونا چاہیے۔واضح رہے کہ اختیار ولی پرویز خٹک کے سیاسی حریف رہ چکے ہیں اور کئی بار الیکشن میں مدمقابل رہے۔

*عافیہ صدیقی کیس؛ میں یہ سوچ نہیں سکتا حکومت اٹارنی جنرل آفس کی معاونت رد کرے، جسٹس اسحاق*

اسلام آباد: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپس لانے کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت کو دستاویزی معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل عمران شفیق اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ عدالتی معاون زینب جنجوعہ بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو جمعرات تک وکیل کلائیو اسمتھ کے ڈکلیرشن کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ میں یہ سوچ نہیں سکتا وفاقی حکومت اٹارنی جنرل آفس کی معاونت کو رد کر دے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ نے جو معاونت حکومت کو فراہم کرنی ہے اس کی کاپی عدالت میں بھی جمع کروانی ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ جمعے تک ملتوی کر دی۔

*پی ایس ایل 10 کا آغاز 11 اپریل کو ہوگا، پی سی بی نے شیڈول جاری کردیا**افتتاحی میچ 11 اپریل کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے درمیان کھیلا جائے گا۔۔*

*افتتاحی میچ 11 اپریل کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے درمیان کھیلا جائے گا۔۔*

*تحریک انصاف مالی بحران کا شکار، ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کردی*

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کئی ماہ تک تنخواہوں میں تاخیر کے بعد اپنے عملے کو مطلع کیا ہے کہ مبینہ مالی بحران کی وجہ سے انہیں تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چھاپوں کا سامنا کرنے والے اور مہینوں جیل میں گزارنے والے ملازمین نے کہا کہ انہیں ان کی تنخواہ کا 100 فیصد ادا کیا جانا چاہیے کیونکہ انہیں اپنا گھر بھی چلانا ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کیا لیکن وہ اپنے ملازمین کے واجبات ادا کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے۔پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ انہیں پارٹی ملازمین کی بہت پرواہ ہے اور انہوں نے ایک نوٹ لکھ کر تنخواہوں میں 50 فیصد کمی کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی کے 25 سے 28 تنخواہ دار ملازمین ہیں جنہیں 35 ہزار سے 2 لاکھ روپے تک تنخواہ ملتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ انہیں سابق حکمراں جماعت کے اکاؤنٹس، دفاتر اور میڈیا ونگ کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ ’اسلام آباد اور لاہور میں سیکریٹریٹ کے مجموعی اخراجات اور تنخواہ دار ملازمین کی تنخواہیں تقریباً 40 لاکھ روپے ماہانہ ہیں، تاہم گزشتہ سال جولائی میں پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پر چھاپے کے بعد متعدد ملازمین کو گرفتار کیا گیا تھا، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب ہم جیل میں تھے تو ہماری تنخواہیں روک دی گئیں، بعد میں جب ہمیں رہا کر دیا گیا اور ہم نے کام کرنا شروع کر دیا، تو کئی مہینوں تک ہماری تنخواہ جاری نہیں کی جا سکی‘۔

*رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے اجلاس آج ہوگا، سپارکو کی اہم پیش گوئی

*رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج پشاور میں ہوگا، سپارکو نے چاند کی رویت کے حوالے سے اہم پیش گوئی کردی۔رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ابولخبیر آزاد کی زیر صدارت آج شام پشاور میں منعقد ہوگا۔چاند کی رویت کے لیے تمام زونل ہیڈکوارٹرز میں بھی زونل کمیٹیوں کے اجلاس منعقد ہوں گے، اسلام آباد میں بھی زونل رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس وزارت مذہبی امور میں ہوگا۔اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے مطابق آج چاندنظر آنے کاامکان نہیں، پہلاروزہ اتوار کو ہوگا۔ترجمان سپارکو کا کہنا تھا کہ نیا چاند 28 فروری کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح 5 بج کر 45 منٹ پر پیدا ہوگا اور اسی دن غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے ہوگی جب کہ 28 فروری کو کم بلندی اور فاصلے کی وجہ سے چاند نظر آنا مشکل ہوگا۔ترجمان سپارکو کا مزید کہنا تھا کہ شوال کا چاند 30 مارچ کو متوقع ہے اور عیدالفطر 31 مارچ کو ہوسکتی ہے۔

جمعرات، 27 فروری، 2025

*کفایت شعاری صرف غریب کیلئے ہے؟ وفاقی کابینہ میں توسیع پر پیپلز پارٹی کی تنقید*

اسلام آباد:پیپلز پارٹی کی جانب سے وفاقی کابینہ میں توسیع پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔مرکزی ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے یوٹیلٹی اسٹورز ملازمین کی برطرفی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک طرف وزرا یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ ملازمین کو نہیں نکالا جائے گا تو دوسری طرف چھانٹیاں کی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یقین دہانی کرائی گئی کہ فیصلے پر نظرثانی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کو برطرف کرکے اور یوٹرن لینے سے حکومتی ساکھ شدید متاثرہورہی ہے۔شازیہ مری نے کہا کہ وفاقی کابینہ میں وزرا کی فوج بھرتی کی جارہی ہے اور دوسری طرف غریب ملازمین سے روزگار چھینا جارہا ہے۔ کفایت شعاری کیا صرف غریب ملازمین کے لیے ہے جنہیں بیروزگار کرکے ان کے چولہے بند کیے جارہے ہیں۔ترجمان پی پی نے سوال کیا کہ وفاقی کابینہ میں درجنوں وزرا شامل کرنے سے قومی خزانے پر بوجھ نہیں پڑے گا؟ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت عوام دشمن فیصلے لینے سے گریز کرے۔ملک میں روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کے بجائے انہیں بند کیا جارہا ہے۔

*بجلی کے بل اربوں روپے تک جا پہنچے، پنجاب کی جیلوں کو سولر انرجی پر لانے کا فیصلہ*

لاہور: پنجاب بھر کی 43 جیلوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب نے حتمی پلان وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی منظوری کیلئے پیش کردیا ہے۔ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے بتایا کہ تمام جیلوں کا ابتدائی سروے مکمل کر لیا ہے، سروے کے دوران جیلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کیلئے لاگت کا تخمینہ بھی لگایا گیا ہے۔ترجمان نے مزید کہا کہ پنجاب کی 43 جیلوں میں بجلی اور گیس کا سالانہ بل ساڑھے 4 ارب تک پہنچ چکا ہے، تمام جیلوں کو 4 ارب 35 کروڑ کی لاگت سے شمسی توانائی پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ترجمان کے مطابق گرین انرجی کے مجوزہ حل پر مرحلہ وار عملدرآمد سے بجلی کے بلوں میں 60 فیصد کمی آئے گی، منصوبے کیلئے جاری مالی سال کے دوران 2 ارب روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

*کراچی: بوٹ بیسن پر جھگڑے کا معاملہ، شہری پر تشدد کرنیوالے گارڈز گرفتار، مرکزی ملزم بلوچستان فرار*

کراچی کے علاقے بوٹ بیسن پر جھگڑے کے دوران شہری کو تشدد بنانے والے دو نجی گارڈز کو پولیس نے حراست میں لے لیا جبکہ مرکزی ملزم بلوچستان فرار ہو گیا۔گزشتہ روز کراچی کے علاقے بوٹ بیسن پر شاہ زین مری اور ان کے سکیورٹی گارڈز کی جانب سے ایک شہری پر تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی تھی، فوٹیج میں شاہ زین مری کو اپنے سکیورٹی گارڈز کے ہمراہ شہری پر تشدد کرتے دیکھا گیا گیا تھا۔شہری پر تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور دو ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا نے اس حوالے سے بتایا گیا رات گئے 2 مقامات پر کارروائی کرکے شہری پر تشدد کرنے والے 2 گارڈز کو گرفتار کر لیا گیا ہے، دونوں گارڈز سے 4 جدید ہتھیار برآمد ہوئے ہیں، گرفتار غوث بخش اور جلاد خان، شاہ زین مری کے گارڈز ہیں

`*👏🛑 *آج دن بھر کیا کچھ ہوا؟* 🛑🛑 *27 فروری 2025 | بروز جمعرات | اہم خبروں کی جھلکیاں |*

*🚨 (1) رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کل جمعے کو ہوگا🚨 (2) 4 شہریوں کی میتیں ملنے پر اسرائیل نے 456 فلسطینی قیدی رہا کردیے، 97 مصر جلاوطن🚨 (3) وفاقی کابینہ میں توسیع، 12 وزرا، 9 وزرائے مملکت اور 3 مشیروں نے حلف اٹھا لیا🚨 (4) صدر مملکت نے ابو ظبی کے ولی عہد کو نشان پاکستان سے نواز دیا🚨 (5) پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں تعاون کے 5 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط🚨 (6) اپوزیشن کی قومی یکجہتی کانفرنس، پیکا سمیت تمام غیر آئینی ترامیم ختم کرنے کا مطالبہ🚨 (7) قومی کانفرنس کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن رہنما ’زبردستی‘ ہوٹل میں داخل، رہنماؤں کا خطاب🚨 (8) اپوزیشن جماعتوں کے جاری کردہ اعلامیے پر جے یو آئی نے سائن نہیں کیے، سینیٹر کامران مرتضی🚨 (9) پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کا پیٹرولیم ڈیلرز کی ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان🚨 (10) امریکی کانگریس اراکین کا عمران خان کی رہائی کیلئے سیکریٹری اسٹیٹ کو خط، اقدامات پر زور🚨 (11) نواز شریف سیاسی میدان میں متحرک، رہنماؤں کا خیبرپختونخوا کے دوروں کا مشورہ🚨 (12) سندھ کابینہ نے کراچی کیلئے ڈبل ڈیکر بسوں کی منظوری دیدی🚨 (13) وزیراعلیٰ سندھ کا خواتین کیلئے ایک ہزار پنک الیکٹرک موٹر سائیکلیں خریدنے کا اعلان🚨 (14) وزارت خزانہ نے عیدالفطر سے قبل مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کردیا🚨 (15) لوگ اپنی طاقت پر کرکٹ بورڈ میں آتے ہیں اور مرضی کرتے ہیں، ان کی مراعات حیران کن ہیں: رانا ثنااللہ🚨 (16) چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان نہ آنے پر بھارت میں ایشیا کپ کا انعقاد مشکل میں پڑ گیا🚨 (17) چیمپئنز ٹرافی؛ بارش کے باعث پاکستان اور بنگلادیش کا میچ بھی منسوخ🚨 (18) ملک میں احتجاج کے حق کو ختم کردیا گیا ہے، ترجمان پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم🚨 (19) مولانا فضل الرحمان نے کہا کچھ مجبوریاں ہیں، 26ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دوں گا، بیرسٹر گوہر🚨 (20) مصطفی قتل کیس؛ ملزم ارمغان کے تشدد کا شکار لڑکی مل گئی🚨 (21) مصطفیٰ عامر کیس: ملزم ارمغان کا مزید 5 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور🚨 (22) 10 دن واش روم نہ جانے دیا جاتا تو آپ یہاں کھڑے نہیں ہوتے، جج کا ارمغان سے مکالمہ🚨 (23) ’گالم گلوچ کے بعد فائرنگ، خون صاف کیا‘ گواہ کے سنسنی خیز انکشافات، عدالت میں ارمغان کو پہچان لیا🚨 (24) مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کے اکاؤنٹس اور جعل سازی کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں🚨 (25) پولیس کو ساحر حسن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا، نہ ہی کسی قسم کی منشیات برآمد ہوئیں، اداکار ساجد حسن🚨 (26) لیبیا کشتی حادثے میں جاں بحق 6 پاکستانیوں کی میتیں پاکستان پہنچا دی گئیں🚨 (27) آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کی چھٹی سالگرہ پر مسلح افواج کا مادر وطن کے دفاع کے عزم کا اعادہ🚨 (28) آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے 6 برس، وزیراعظم کا افواج کو خراج تحسین، پوری قوم کو اپنی بہادر افواج پر فخر ہے، شہباز شریف🚨 (29) گلگت: تیز رفتار گاڑی نے فٹ پاتھ پر کھڑی 3 سگی بہنوں سمیت 4 طالبات کو کچل دیا🚨 (30) محکمہ موسمیات نے آج ملک کے مختلف مقامات پر بارشوں کی پیشگوئی کردی🚨 (31) لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں بارش کا الرٹ جاری🚨 (32) کراچی: لانڈھی میں ٹرالر نے موٹر سائیکل سوار کو کچل دیا🚨 (33) انگلینڈ افغانستان میچ کے دوران گراؤنڈ میں جانیوالا تماشائی گرفتار، مقدمہ درج🚨 (34) سونے کی فی تولہ قیمت میں 3300 روپے کی کمی، سونا 3 لاکھ 3 ہزار روپے کا ہوگیا🚨 (35) سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: لگتا ہے اے ٹی سی عدالتوں کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں، جج آئینی بینچ🚨 (36) کیا آپ ٹرک چلاتی ہیں؟ 'ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں‘، ساتھی جج کے سوال پر جسٹس مسرت کا جواب🚨 (37) شہباز حکومت میں ملک سے 20 لاکھ لوگ ہجرت کرچکے ہیں: مزمل اسلم کا دعویٰ🚨 (38) نیپرا نے موسم گرما کیلئے پانی کی صورتحال پر واپڈا سے تفصیلات طلب کرلیں🚨 (39) موٹروے پر 150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار پر گاڑی بند، مقدمہ درج، جرمانہ ہوگا🚨 (40) سندھ میں سیلاب متاثرین کے بجائے کسی اور کے مکانات بنائے جارہے ہیں، چیئرمین قائمہ کمیٹی🚨 (41) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے غذائی تحفظ کا اجلاس، ملک میں کتوں، گدھوں، مینڈک کے گوشت کی فروخت کا انکشاف🚨 (42) سردار اختر مینگل مقدمہ درج ہونے کے بعد گرفتاری دینے تھانے پہنچ گئے، پولیس کا گرفتاری سے انکار*🚨 (4 سندھ ہائیکورٹ کا قتل کیس میں نادرا کو ایک کروڑ 65 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم🚨 (44) شہری عبدالرشید خانزادہ اور ان کی اہلیہ نے 2011 میں سڑک حادثے میں بیٹی کے انتقال پر نادرا کے خلاف درخواست دائر کی تھی🚨 (45) نواز شریف کا نظریہ اور پروگرام ہی پاکستان کے عوام کو مسائل سے نجات دلواسکتا ہے، زاہد خان🚨 (46) لاہور ہائیکورٹ میں مزید ججوں کی تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کل ہوگا🚨 (47) زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب 92 کروڑ 57 لاکھ ڈالرز پر پہنچ گئے🚨 (48) پنجاب کے تھیٹر میں فحاشی پھیلانے اور ذو معنی فقرے کسنے والے آرٹسٹوں کے گرد شکنجہ مزید سخت🚨 (49) حکومت نے کمپٹیشن ایپلٹ ٹریبونل میں نئے چیئرمین اور ممبران کو تعینات کردیا🚨 (50) گیس کو ایل پی جی بناکر بیچنے کا منصوبہ، صارفین کو گیس ملنے میں مزید کمی آجائیگی، سوئی سدرن کا اعتراف🚨 (51) افغانستان جانے والے ڈی اے پی کی کلیئرنس کیلئے انشورنس گارنٹی لازمی قرار🚨 (52) اسلام آباد ہائیکورٹ کا سی ڈی اے سمیت متعلقہ اداروں کو ریڑھی بانوں کا مسئلہ حل کرنیکا حکم🚨 (53) اسلام آباد: فیصل مسجد کے احاطے میں ایک شخص نے خود کوگولی مارلی🚨 (54) نیپرا کا این ٹی ڈی سی کو ایک کروڑ روپے جرمانہ🚨 (55) امریکی فوج میں بڑی تبدیلی: ہزاروں ٹرانس جینڈر اہلکار نکالنے کا فیصلہ🚨 (56) غیر قانونی سمز کیخلاف کریک ڈاؤن جاری، پی ٹی اے کا نجی فرنچائز پر چھاپہ🚨 (57) چیمپئنز ٹرافی: بھارت کو دھچکا، روہت شرما کی میچ میں شرکت مشکوک🚨 (58) کراچی: سی ٹی ڈی کی کیماڑی میں کارروائی، کالعدم جماعت کا رکن گرفتار🚨 (59) فائیو جی اسپیکٹرم کی نیلامی سے متعلق مسائل درپیش ہیں، پی ٹی اے🚨 (60) چارسدہ: مردہ مرغیوں سے بھری گاڑی کی پولیس اہلکار کو ٹکر، ملزمان گرفتار*

کراچی: سندھ کابینہ کا اجلاس وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی زیرِ صدارت شروعاجلاس میں صوبائی وزراء، مشیراں، معاون خصوصی، چیف سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری اور دیگر متعلقہ افسران شریک۔

رپورٹ: انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف تفصیلات:سندھ کابینہ کا اجلاس وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت شروع ۔ اجلاس میں صوبائی وزراء, مشیراں، معاونین خصوصی ، چیف سیکرٹری ، پرنسیپل سیکرٹری اور دیگر متعلقہ افسران شریک ۔کابینہ اجلاس میں 30 نکات پر غور کیا جائے گا اور اہم فیصلے متوقع ہیں، ترجمان وزیراعلیٰ سندھترقیاتی کاموں کی تکمیل میں تیزی لائی جائے، وزیراعلیٰ سندھ کی وزراء کو ہدایتجن اسکیموں پر کام سست روی کا شکار ہے؛ وہاں پیش رفت کو تیز کیا جائے، وزیراعلیٰ سندھہم اپنے ترقیاتی منصوبوں کا مسلسل معائنہ کرتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ کو وزراء کی آگاہیوزیر اعلیٰ سندھ کی رمضان المبارک کے انتظامات بہتر بنانے کی ہدایترمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آرہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہانتظامیہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر ضابطہ لائے، وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایتذخیرہ اندوزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، وزیر اعلیٰ سندھمصنوعی مہنگائی پر سخت کارروائی کی جائے، وزیر اعلیٰ سندھ کا حکمتاجروں کو بابرکت ماہ میں اشیائے خورد و نوش کی مناسب قیمتیں مقرر کرنی ہوں گی، وزیر اعلیٰ سندھعوام کو سہولیات کی فراہمی کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھرمضان میں پانی اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے، وزیر اعلیٰ سندھٹریفک مینجمنٹ کو مؤثر بنایا جائے تاکہ عوام کو مشکلات نہ ہوں، وزیر اعلیٰ سندھبازاروں میں معیاری اشیاء کی وافر اور سستی فراہمی یقینی بنائی جائے، وزیر اعلیٰ سندھ

عمرکوٹ: ایس ایس پی عمرکوٹ عزیر احمد کے احکامات پر ہیومن ٹریفکنگ ایکٹ، منشیات و حدود آرڈیننس کے تحت کارواٸیاں ۔۔۔ مجموعی طور پر 08 ملزمان گرفتار ۔۔۔1650 گٹکا/ماوا 130 لیٹر دیسی شراب اور موٹر ساٸیکل برآمد۔

رپورٹ: انجنیئر اوم پرکاش ڈسٹرکٹ رپورٹر تفصیلات: 01). پولیس تھانہ عمرکوٹ سٹی: گٹکا کے خلاف کارواٸ، ملزم ہیرو میگھواڑ گرفتار، 1650 گٹکا ماوا اور ایک موٹر ساٸیکل برآمد۔ کراٸم نمبر 35/2025 دفعہ 4. 5. 8 گٹکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج۔ 02). پولیس تھانہ پتھورو:پولیس تھانہ پتھورو کا دیسی شراب کی بٹھی پر چھاپہ ملزم عارف شر گرفتار، 130 لیٹر دیسی شراب برآمد، کراٸم نمبر 06/2025 دفعہ 3/4 حدود آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج۔03). پولیس تھانہ ویمن عمرکوٹ:پولیس تھانہ ویمن کی کارواٸ ہیومن ٹریفکنگ کے مقدمے میں مطلوب ملزم شہناز سولنگی، زاہدہ خاصخیلی اور فرحان مگسی گرفتار، مدعیہ زرینہ گجو کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا جسکے مطابق خاتون ملوکہ گجو کو شھر لے جانے کا بہانہ کر کے اغوا کیا گیا۔ مغویہ کو بازیاب کرالیا گیا ہے مزید کارواٸ جاری ہے۔ کراٸم نمبر 06/2025 دفعہ 371A. B ہیومن ٹریفکنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔04). پولیس تھانہ ویمن عمرکوٹ:پولیس تھانہ ویمن کی ایک اور کارواٸ ہیومن ٹریفکنگ اور اغوا کے مقدمے میں مطلوب ملزم پونجو بھیل، چندو بھیل، بالو بھیل گرفتار، مدعی ہاشم بھیل کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا جسکے مطابق دو خواتین کو اغوا کیا گیا۔ مزید کارواٸ جاری ہے۔ کراٸم نمبر 07/2025 دفعہ 452، 365B تعزیرات پاکستان اور ہیومن ٹریفکنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔

ڈاکٹر شاہنواز کے والد اپنے بیٹے کی تدفین کے وقت جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اُس پر بات نہیں کرتے اور خاموش ہو جاتے ہیں۔۔۔ اُن کے چھوٹے بیٹے بابر ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں مشتعل افراد نے اُن کے بھائی کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔



سلمان تاثیر سے ڈاکٹر شاہنواز تک: کیا توہین مذہب کا معاملہ پاکستانی پولیس میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے؟
Play video, "توہینِ مذہب کے ملزمان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت: کیا پولیس فورس میں شدت پسند رویے موجود ہیں؟", دورانیہ 9,54
09:54

،ویڈیو کیپشنتوہینِ مذہب کے ملزمان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت، کیا پولیس فورس میں شدت پسند رویے موجود ہیں؟
مضمون کی تفصیل
مصنف,جئدیومھیشوری
عہدہ,بی بی سی پاکستان ڈاٹ کام، عمرکوٹ

صوبہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ کے قصبے جھانرو میں موجود ڈاکٹر شاہنواز کے والد اور ریٹائرڈ سکول ٹیچر صالح محمد اِس بات پر حیران ہیں کہ توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے اُن کے بیٹے کی ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے ذمہ دار کسی ایک بھی پولیس افسر یا اہلکار کو چھ ماہ گزرنے کے باوجود گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔

یاد رہے کہ ستمبر 2024 میں ڈاکٹر شاہنواز کی پولیس تحویل میں قتل کا مقدمہ سندھ پولیس کے ایک ڈی آئی جی، دو ایس ایس پیز سمیت ایک درجن سے زائد پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ یہ افسران اور اہلکار فی الحال معطل ہیں تاہم ان میں سے کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی ہے۔

صالح محمد کہتے ہیں کہ ’جب میرے بیٹے نے رضاکارانہ گرفتاری دے دی تھی تو میں مطمئن ہو گیا کہ وہ ایک ڈی آئی جی سطح کے افسر کی حراست میں ہے جو اس کے ساتھ کوئی ناانصافی یا غلط کام نہیں کرے گا۔‘

صالح محمد کے بیٹے اور عمر کوٹ سول ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف ستمبر 2024 میں مبینہ توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد اُن کی گرفتاری کراچی سے ہوئی تاہم پولیس کی جانب سے 18 ستمبر کی رات ایک مقابلے کے دوران اُن کی ہلاکت کا دعویٰ کر دیا گیا۔

19 ستمبر کی صبح چند مذہبی گروہوں کے اراکین نے ڈی آئی جی آفس پہنچ کر اُن پولیس افسران کی پذیرائی کی تھی جو اس کام میں ملوث تھے اور انھیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے تھے۔میرپورخاص میں جب ڈاکٹر شاہنواز کی موت کا جشن منایا جا رہا تھا تو اُس مقام سے لگ بھگ سو کلومیٹر دور قصبہ جھانرو میں موجود ڈاکٹر شاہنواز کے اہلخانہ پولیس تحفظ کی عدم موجودگی میں اپنے بیٹے کی میت دفنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

شاہنواز
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر شاہنواز کے والد صالح محمد: ’اگر ڈی آئی جی سطح کا افسر مجرم نکلے اور جھوٹ بولے تو کس پر اعتماد کریں؟‘
تدفین کے وقت جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا والد محمد صالح اس پر بات نہیں کرتے خاموش ہو جاتے ہیں اور ان کے آنکھوں میں پانی آ جاتا ہے۔ اُن کے چھوٹے بیٹے بابر علی ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں تدفین کی کوشش کے دوران مشتعل افراد نے اُن کے بھائی کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

بابر بتاتے ہیں کہ اُن کے بھائی کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد مشتعل ہجوم اُن کا پیچھا کرتا آ رہا تھا اور وہ جیسے ہی اپنی آبائی زمین پر بھائی کی تدفین کے لیے پہنچے تو ہجوم وہاں بھی پہنچ گیا۔ ’انھوں نے اپنی موٹر سائیکلیں کھڑی کیں اور دھمکیاں دیں کہ تمھیں بھی جلا دیں گے۔ ہم وہاں سے بھاگے اور ہمارے پیچھے انھوں نے ہمارے بھائی کی لاش کی بے حرمتی کی، اسے آگ لگا دی اور فرار ہو گئے۔‘

صالح محمد اور ان کے اہلخانہ اس بات پر حیران تھے کہ مشتعل افراد کیسے ان سے پہلے ہر اس جگہ پہنچ پا رہے تھے جہاں انھوں نے اپنے بیٹے کی تدفین کرنی تھی۔

صالح محمد کہتے ہیں کہ ’اگر ہمارے ملک اور صوبے میں ڈی آئی جی سطح کا افسر مجرم نکلے، جھوٹ بولے کہ بندہ مقابلے میں مارا گیا جبکہ پولیس نے گرفتاری تو ظاہر ہی نہیں کی تو اس کی کیا بات کریں، کیسے اعتماد کریں۔‘

ڈاکٹر شاہنوا،تصویر کا ذریعہSocial Media
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر شاہنواز کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا جبکہ تدفین کی کوشش کے دوران مشتعل ہجوم ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی
’پولیس اور مذہبی جماعت میں رابطہ کاری‘

ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کیس میں نامزد ملزمان میں شامل افراد میں سے 11 ضمانت پر ہیں جبکہ ڈی آئی جی جاوید جسکانی اور ایس ایس پی چوہدری سمیت سات ملزمان عدالت کی جانب سے مفرور قرار دیے گئے ہیں۔

میرپور خاص میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کی جانب سے پیش کیے گئے چالان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت ملزم پولیس افسران مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے ایک مقامی رہنما پیر عمر جان سرہندی مسلسل رابطے میں تھے۔ عمر جان سرہندی اس کیس میں ملزم ہیں اور فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے چالان کے مطابق یہ افراد تفتیشی ٹیم پر اثر انداز ہونے کے لیے سیاسی شخصیات سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

چالان کے مطابق وقوعہ کے وقت ایس ایس پی اسد چوہدری سی آئی اے سینٹر پر موجود تھے اور وہ ایک مشکوک فون نمبر کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ اس کے علاوہ وہ سی آئی اے ٹیم کے اہلکار محمد اقبال سے بھی رابطے میں تھے جس کے فون کی 'لوکیشن' مقامی مذہبی رہنما کے ساتھ ظاہر ہو رہی تھی۔

ایف آئی اے کے عدالت میں جمع کروائے گئے حتمی چالان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر کنبھار کو گرفتار کرنے والی ٹیم میں شامل پولیس کانسٹیبل معشوق بھی مذہبی جماعت کی ٹیم کے رکن عمر جان کے ساتھ رابطے میں تھے۔

ایف آئی اے نے عمر جان کی موبائل کا فرانزک کیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ 18 نومبر کو انھوں نے ایس ایس عمرکوٹ آصف رضا سے رابطہ کیا تھا۔پیر عمر جان نے ایف آئی اے کو اپنی دو ویڈیوز پیش کی ہیں جس میں ڈاکٹر شاہنواز کے بارے میں انھوں نے جو مؤقف اختیار کیا تھا اس کی تفصیلات موجود تھیں۔

ایف آئی اے کے چالان میں بتایا گیا ہے کہ ڈی آئی جی جاوید سونھارو جسکانی وقوعہ کے وقت اپنے دفتر میں موجود تھے اور ان کا صرف ایس ایس پی اسد چوہدری سے رابطہ تھا جبکہ ایس ایس پی آصف رضا اور عمر جان سے موبائل فون کے ذریعے رابطے کے ثبوت نہیں ملے تاہم پی ٹی سی ایل نمبر کا ذکر نہیں کیا گیا۔
Police،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنعدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے پیش کیے گئے حتمی چالان کے مطابق پولیس اہلکاروں کے مذہبی جماعت کے رہنماؤں سے رابطے تھے (فائل فوٹو)
’سب منصوبہ بندی کے تحت ہوا‘
ایف آئی اے کے حتمی چالان میں تحریک لبیک کے رہنما پیر عمر جان سرہندی، ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی آصف رضا، ایس ایس پی اسد علی چوہدری، عنایت علی زرداری، ہدایت اللہ، ندار پرویز، غلام قادر، نیاز محمد کھوسو اور دانش بھٹی سمیت 23 ملزمان کے خلاف ٹرائل کی اپیل کی گئی ہے۔

شاہنواز کنبھار قتل کیس کی پیروی کرنے والے پینل میں شامل ایڈووکیٹ سجاد چانڈیو کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاہنواز کی گرفتاری سے لے کر اُن کی لاش کو جلانے تک سب منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے۔

سجاد چانڈیو نے کہا کہ عدالت میں جمع کروائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مولوی اور پولیس افسران رابطے تھے۔ ’عمرکوٹ پولیس نے شاہنواز کو کراچی سے گرفتار کیا اور اُن کی گرفتاری سے مقامی پولیس کو لاعلم رکھا گیا۔ اس کے بعد ڈی آئی جی کے کہنے پر ان کی حراست میرپورخاص پولیس کے حوالے کی گئی اور اس وقت بھی مذہبی عناصر پولیس سے رابطے میں تھے۔‘

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’شاہنواز کو قتل کرنے کے بعد جب اُن کی لاش لواحقین کے حوالے کی گئی تو صبح تقریباً چھ بجے بھی ملزمان میں رابطہ کاری ہو رہی تھی۔ شاہنواز کی میت جلانے کی وجہ جسم پر موجود تشدد کے نشانات کو چھپانا تھا۔ یہ سب ایک پورا منصوبہ تھا جو ایف آئی اے کی عدالت میں جمع کروائی گئی تحقیقات میں ثابت ہوا ہے۔‘

’سوچا نہ تھا کہ سرکاری محافظ یہ کرے گا؟‘
تصویر
،تصویر کا کیپشن’کسی کے ساتھ ظلم ہو اور بغیر قانونی کارروائی کیے ہوئے کسی شخص کا محض الزام کی بنیاد پر قتل ہو جائے تو اس دکھ کو میرے خاندان کے علاوہ اور کون زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے‘
شاہنواز کا کیس ہی واحد نہیں ہے جس میں پولیس ملزم بن کر سامنے آئی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی اس نوعیت کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

شاہنواز کے قتل سے صرف آٹھ روز قبل 11 ستمبر 2024 کو کوئٹہ میں ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عبدالعلی نامی شہری کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بعدازاں وہ تھانے کے اندر ایک پولیس اہلکار کی فائرنگ سے ہلاک کر دیے گئے۔

عبدالعلی کے لواحقین کو بھی تدفین میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بعدازاں ہونے والے ایک مقامی جرگے نے قتل کے ملزم اہلکار کو معاف کر دیا اور اس کو رہا کر دیا گیا جبکہ رہائی کے موقع پر ان کو پھولوں کے ہار پہنا کر استقبال کیا گیا۔ یاد رہے کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست کی جانب سے اس معاملے کی پیروی کی جائے گی تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ سنہ 2011 میں پنجاب کے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو اُن کے اپنے ہی سرکاری محافظ نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ممتاز قادری نامی یہ اہلکار ایک مذہبی گروہ سے متاثر تھے۔

ڈاکٹر شاہنواز کا قتل: ’میرے بیٹے کی لاش باقی نسلوں کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کی جائے‘
28 ستمبر 2024
ڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘
26 ستمبر 2024
ورثا کا توہین رسالت کے ملزم کے قاتل پولیس کانسٹیبل کو معاف کرنے کا اعلان: ’قبیلے نے معاف کیا ہے ریاست نے نہیں‘
19 ستمبر 2024
پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟
7 فروری 2025
سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُن دنوں صورتحال کافی سنگین تھی۔ ’میں نے ایک شخص کو دیکھا جو ٹی وی پر گالیاں دے رہا تھا اور میرے والد کے قتل کی باتیں کر رہا تھا۔ اس سے قبل میں نے ٹی وی پر کبھی ایسی چیز نہیں دیکھی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس معاملے کا پتہ تھا جس میں آسیہ بی بی پھنسی ہوئی تھیں۔ ہم نے پوری رپورٹس دیکھی ہوئی تھیں کہ اُن کو کیسے پھنسایا گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیسے بات کر رہے ہیں قتل کی۔ میں نے اپنا والد کو کہا تھا کہ ابا ہماری عوام میں بہت غربت ہے بہت ان پڑھ ہیں، میرا خیال ہے اُن کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں۔ اس پر وہ بڑے غصے میں آئے تھے اور انھوں نے مجھے کہا تھا کہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے تم لوگوں کو نہیں۔‘

شہباز تاثیر کے مطابق ’یقیناً آپ کو ڈر لگتا ہے مگر پھر آپ سوچتے ہیں کہ میرے والد صاحب گورنر ہیں اور ان کی کافی سکیورٹی ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کا اپنا گارڈ اس طرح کی حرکت کر سکتا ہے، وہ بھی ایک آفیشل گارڈ۔ ہمارے لیے تو یہ بہت صدمے کی بات تھی۔‘

عمرکوٹ اور کوئٹہ میں حالیہ پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’کسی کے ساتھ ظلم ہو اور بغیر قانونی کارروائی کیے ہوئے کسی شخص کا محض الزام کی بنیاد پر قتل ہو جائے تو اس دکھ کو میرے خاندان کے علاوہ اور کون زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے۔‘

عبدالعلی،تصویر کا ذریعہBalochistan Police
،تصویر کا کیپشنتوہین مذہب کے الزام میں گرفتار عبدالعلی کو ایک پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا
’کمانڈ کی سپورٹ کے بغیر یہ اقدام ممکن نہیں‘
سلمان تاثیر سے لے کر ڈاکٹر شاہنواز کے قتل تک میں مشترکہ بات یہ رہی کہ قتل کرنے والوں میں پولیس اہلکار شامل تھے۔ ہم نے یہ ہی جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا پولیس کی صفوں میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور کیا اس کے سدباب کے لیے کوئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں یا نہیں؟

چرچ ہوں، امام بارگاہیں ہوں، مساجد یا مندر، پولیس اہلکار لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اہلکار ہی شدت پسند رویہ اختیار کر لیں تو اس کا معاشرے پر کیا اثر ہو گا؟

برطانیہ کی واروک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر زوہا وسیم کہتی ہیں کہ ’حالیہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ نچلے رینک اور اعلیٰ افسران کسی نہ کسی طرح مذہبی انتہا پسندی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں: خاص طور پر جب توہین مذہب کی بات آتی ہے تو وہ اس معاملے پر ہمدری رکھتے ہیں۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ جو اہلکار توہین مذہب کے ملزمان کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہو رہے ہیں وہ یہ اقدام اپنے افسران کی لاعلمی میں نہیں لے سکتے۔ ’وہ ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے اگر انھیں پتا نہ ہو کہ انھیں اوپر کی سطح پر یعنی پولیس کمانڈ سے سپورٹ ملے گی۔‘

زوہا وسیم کے مطابق ’پولیس ایک سیکولر ادارہ تو نہیں ہے۔ پولیس وہی مذہبی نظریات اپناتی ہے جو معاشرے میں عام ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ ملتا ہے تو پولیس میں بھی عدم برداشت والے لوگ ملیں گے۔ ماضی کے واقعات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ پولیس افسران میں سے کچھ کی طالبان کے ساتھ، کچھ کی فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیموں کے ساتھ اور کچھ کی تحریک لبیک جیسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہمدریاں موجود ہیں۔‘

’مذہبی جماعتوں کا پولیس پر دباؤ رہتا ہے‘
پولیس
،تصویر کا کیپشن’کچھ اکا دکا کیسز یقیناً موجود ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر سندھ پولیس بڑی روشن خیال ہے‘
پاکستان کے کئی علاقوں میں پولیس بھی شدت پسند تنظیموں کا نشانہ بن چکی ہے۔ پولیس حکام کا ماننا ہے کہ بطور فورس پولیس میں مذہبی شدت پسندی کا رجحان موجود نہیں ہے بلکہ یہ انفرادی واقعات تھے۔

ڈی آئی جی عرفان علی بلوچ کہتے ہیں کہ سندھ پولیس کسی بھی طرح مذہبی شدت پسندی کا شکار نہیں ہے اور اس کے لیے سینیئر افسران نے بڑی محنت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’نچلے رینک کے اہلکار چونکہ معاشرے کے ساتھ زیادہ رابطے میں ہوتے ہیں تو اس بات کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے کہ اُن کی رائے متاثر ہو جائے۔ تاہم کسی بھی سطح پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ اہلکاروں میں مذہبی شدت پسندی موجود ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کافی کیسز ایسے دیکھے ہیں جن میں بعض لوگ قرآن مجید کی بےحرمتی کرتے ہیں اور اُن میں سے زیادہ تر ذہنی طور پر صحتمند نہیں ہوتے ہیں۔ جب پولیس افسران ایسے افراد کو ہینڈل کر رہے ہوتے ہیں تو وہ ان ملزمان کو بچا رہے ہوتے ہیں جن کی جان کے درپے مشتعل ہجوم ہوتا ہے۔‘

اُن کی رائے میں ’کچھ اکا دکا کیسز یقیناً موجود ہوتے ہیں کیونکہ پولیس افسران کے بھی کوئی نظریات اور عقیدے ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر سندھ پولیس بڑی روشن خیال ہے اور اس میں کسی قسم کی شدت پسندی نہیں ہے۔‘

عرفان علی بلوچ تسلیم کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کا پولیس پر دباؤ رہتا ہے تاہم ان کے مطابق اس کا پیشہ ورانہ انداز میں سامنا کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ’توہین مذہب کے کیسز میں پولیس پر بہت دباؤ ہوتا ہے، مذہبی گروہوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی بات مانی جائے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ پولیس افسران نے اس نوعیت کے کیسز کو ہینڈل کرنا سیکھ لیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جو بھی توہین مذہب کا کیس ہوتا ہے اس کو ایس پی یا ایس پی ایس پی سطح کے افسر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘

’مؤثر حکمت عملی موجود نہیں‘
تصویر
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر شاہنواز کی قبر پر موجود ان کا بھائی
ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے، پولیس اور سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹس میں پولیس افسران کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اس واقعے کو ماورائے عدالت کے پیرائے میں تو دیکھا گیا ہے لیکن اس سوال کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ پولیس میں ایسے شدت پسند رویوں کی وجوہات کیا ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔

ڈاکٹر شاہنواز اور عبدالعلی کے قتل کے علاوہ توہین مذہب کے مقدمات کا سامنے کرنے والے تین افراد کی پنجاب کی جیلوں کے اندر ہلاکت ہو چکی ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کے مطابق ان اموات کو حادثاتی یا فطری قرار دیا گیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جبکہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ اُن کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے میں بعض واقعات مشتعل ہجوم کو پولیس کی معاونت حاصل رہتی ہے۔

پاکستان انسٹیٹوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کہتے ہیں کہ پولیس کے مذہبی شدت پسندی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ ایک سنگین معاملہ بن چکا ہے اور اس کا تدارک نظر نہیں آتا۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس میں ڈی ریڈکلائزیشن یعنی شدت پسندی کی روک تھام کی غرض سے کچھ علما کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، مگر اُن کا پس منظر بھی مشکوک ہوتا ہے لہٰذا پولیس کے پاس اس شدت پسندی سے متعلق کوئی مؤثر حکمت عملی موجود نہیں ہے۔‘

ڈی آئی جی عرفان بلوچ کہتے ہیں کہ جب پولیس کے پارٹ پر ایسے واقعات ہو رہے ہوتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہو کہ قانون کے محافظ ہی قانون توڑ رہے ہیں تو یہ بات معاشرے کے لیے خطرناک بن جاتی ہے۔ ’اس کے لیے پولیس کی سینیئر قیادت بڑا غور و فکر کرتی ہے اور ایسے واقعات سے بچنے کے لیے اقدامات بھی لیے جا رہے ہوتے ہیں۔ جو افراد اس ایشو پر کام کرتے ہیں ان سے بھی رابطہ کر رہے ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے مذہبی شدت پسندی نہ صرف اس ادارے میں ہے بلکہ اور جگہوں پر بھی ہے۔‘ بقول اُن کے خاص طور پر جو حساس مقامات ہیں وہاں تعینات ہونے والے پولیس اہلکاروں کا نفسیاتی تجزیہ ہونا چاہیے تاکہ وہ ایسا کوئی غیر قانونی قدم نہ اٹھائیں۔

زوہا وسیم کہتی ہیں کہ پاکستان میں پولیس ایک ریاستی ادارے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی ادارہ بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پولیس کو ریاست کی پالیسی کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے اور اگر ریاست کی پالیسی یہی ہو کہ انتہا پسند جماعتوں کی حمایت کرنی ہے اور انھیں پھلنے پھولنے دینا ہے اور ان سے اپنے سیاسی مقاصد پورے کروانے ہیں تو آپ پولیس سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ الگ ہی کام کرے گی۔‘

زوہا وسیم کے مطابق ’پولیس بھی ان پالیسوں کے اندر کام کرے گی جب تک ریاست اور معاشرے میں انتہا پسندی کا علاج نہیں کیا جائے گا تو پولیس میں بھی آپ فرق نہیں کر پائیں گے۔‘


’جس وقت وہ میٹنگ جاری تھی، اس دوران پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے شام 5.45 بجے فوج کی طرف سے موصول ایک پیغام سنانے کے لیے بات چیت کو روک دیا۔ اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ انڈیا نے پاکستان کی جانب نو میزائل ’پوائنٹ‘ کر رکھے ہیں جو اس دن کسی بھی وقت داغے جا سکتے ہیں۔


ابھینندن ورتھمان: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟
ابھینندن،تصویر کا ذریعہGetty Images
مضمون کی تفصیل
مصنف,نیاز فاروقی
عہدہ,بی بی سی اردو، دلی
12 جنوری 2024
یہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر جنوری 2024 کو شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔

27 فروری 2019 وہ دن تھا جب پاکستان کی فضائیہ نے انڈین جنگی طیارہ مار گرایا اور فائٹر پائلٹ وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو اپنی تحویل میں لے لیا جس سے حالیہ تاریخ میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور سرحدی کشیدگی ایک نئی بلندی کو جا پہنچی۔

27 فروری کے یہ واقعات ایک مرتبہ پھر گذشتہ برس اس وقت زیرِبحث آئے جب پاکستان میں اس وقت تعینات انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ کی کتاب منظرِ عام پر آئی۔

بعدازاں اس کتاب میں کیے گئے دعوؤں پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کی اس وقت کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’بظاہر یہ کتاب فروری 2019 کے گرد انڈیا کے افسانوی بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ فروری 2019 میں دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا، سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی کتاب ’نیور گیو این انچ‘ میں یہاں تک کہا ہے کہ یہ کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان جوہری جنگ کا خدشہ تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپریل 2019 کے دوران گجرات کے ایک جلسے میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ ’امریکہ نے پاکستان کو پائلٹ واپس کرنے کا کہا ورنہ مودی 12 میزائلوں کے ساتھ تیار تھے، یہ رات قتل کی رات ہونا تھی۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ نے نریندر مودی کے اس بیان کو ’غیر زمہ دارانہ اور جنگی جنون پر مبنی‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’بالا کوٹ میں مہم جوئی کا فوری اور مؤثر جواب، طیارے کو مار گرانا اور پائلٹ کی گرفتاری ہماری مسلح افواج کی تیاری، عزم اور صلاحیت کا واضح ثبوت ہے۔‘

انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انڈین پائلٹ ابھینندن کو حراست میں لیے جانے کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے کے لیے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کرنا چاہتے تھے جس پر انڈیا نے ’کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔‘

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان حقیقی طور پر اس جھڑپ کی شدت میں اضافے سے ’خوفزدہ تھا۔‘

تاہم پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس حوالے سے یہ مؤقف اپنایا تھا کہ پاکستان نے ابھینندن کی واپسی کے ذریعے تناؤ کم کرنے کے لیے ذمہ دارانہ رویہ دکھایا تھا جبکہ اجے بساریا کی کتاب ’فروری 2019 سے متعلق انڈیا کے افسانوی بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

ابھینندن،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن27 فروری 2019 وہ دن تھا جب پاکستان کی فضائیہ نے انڈین جنگی طیارہ مار گرایا اور فائٹر پائلٹ وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا
27 فروری کو پس پردہ کیا ہوا؟

دونوں ممالک میں تازہ کشیدگی سال 2019 میں اس وقت سامنے آئی تھی جب انڈین فضائیہ کے طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے علاقے میں گولہ بارود گرایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستانی سرزمین پر شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر ’سرجیکل سٹرائیک‘ کی ہے۔

پاکستان نے اس کے جواب میں انڈین طیارہ مِگ 21 مار گرایا تھا اور ایک انڈین پائلٹ ابھینندن کو حراست میں لے لیا تھا جسے بعد ازاں ’کشیدگی کم کرنے کے لیے‘ انڈیا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

27 فروری کا ذکر نئی دہلی میں واقع ’ایلیف پبلیکیشنز‘ کی طرف سے حال ہی میں شائع کی گئی کتاب میں بھی ملتا ہے جس میں اجے بساریہ پاکستان میں اپنے قیام کی روداد بیان کرتے ہیں۔

جب پلوامہ حملہ کے بعد انڈیا نے اپنی طرف سے فوجی کارروائیاں کی اس وقت وہ دہلی آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’میں 26 فروری کی صبح کو دہلی میں اس وقت بیدار ہوا جب سوشل میڈیا پر انڈیا کی طرف سے پاکستان میں بم گرائے جانے کے بارے میں باتیں جاری تھیں۔‘

اسلام آباد میں ان کے ایک ساتھی نے اس صبح آئی ایس پی آر کے ترجمان آصف غفور کا ایک ٹویٹ شیئر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’ایک انڈین لڑاکا طیارے نے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد بم گرایا ہے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان نے اگلے دن جوابی کارروائی کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے چار کلومیٹر کے اندر فوجی اہداف کے قریب گولہ بارود گرایا۔ بعد ازاں انڈین بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ 24 پاکستانی طیارے انڈین فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔

27 فروری کو طیاروں کی اس ڈاگ فائٹ کے دوران انڈین فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھینندن کا طیارہ پاکستان کے ایک میزائل کا شکار ہو گیا۔ وہ ایل او سی سے سات کلومیٹر اندر گرے اور حراست میں لے لیے گئے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی کتاب ’نیور گیو این انچ‘ میں لکھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ دنیا کو صحیح طرح معلوم نہیں کہ فروری 2019 میں انڈیا اور پاکستان کی لڑائی جوہری جھڑپ میں بدل سکتی تھی۔‘

وہ اس وقت ویتنام میں تھے جب انھیں ’انڈین ہم منصب نے نیند سے جگایا، انھیں خدشہ تھا کہ پاکستان نے حملے کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دی ہے۔ انھوں نے بتایا انڈیا خود بھی جھڑپوں کی تیاریوں پر غور کر رہا تھا۔‘

مائیک پومپیو لکھتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے ’اصل رہنما‘ جنرل باجوہ سے رابطہ کیا جنھوں نے اس کی تردید کی مگر انھیں خدشہ تھا کہ ’انڈین جوہری ہتھیار تعینات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں سابق انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ لکھتے ہیں کہ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستان نے ’پی فائیو‘ ممالک (یعنی امریکہ، انگلینڈ، فرانس، روس اور چین) کے سفارتکاروں کو طلب کیا۔

بالاکوٹ حملہ اور ’سرپرائز ڈے‘: انڈیا اور پاکستان نے رائے عامہ کی تبدیلی کیسے کی؟
27 فروری 2021
ابھینندن کی ڈرامائی گرفتاری کی کہانی
1 مار چ 2019
کیا پاکستان نے سعودی دباؤ پر ابھینندن کو چھوڑا تھا؟
28 فروری 2020
ابھینندن،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ہمارے وزیر اعظم اس وقت دستیاب نہیں‘
انڈین سفارتکاراجے بساریہ کا اپنی کتاب میں یہ دعویٰ ہے کہ انڈین طیاروں کی پاکستان حدود میں سٹرائیک اور پاکستان کے جوابی ردعمل میں انڈین پائلٹ کو پکڑنے کے بعد ’سفارت کاروں کی نظر میں پاکستان حقیقی طور پر کشیدگی میں اضافے کے امکانات سے خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔‘

بساریہ نے اپنی کتاب میں اس بارے میں لکھا کہ ’جس وقت وہ میٹنگ جاری تھی، اس دوران پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے شام 5.45 بجے فوج کی طرف سے موصول ایک پیغام سنانے کے لیے بات چیت کو روک دیا۔ اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ انڈیا نے پاکستان کی جانب نو میزائل ’پوائنٹ‘ کر رکھے ہیں جو اس دن کسی بھی وقت داغے جا سکتے ہیں۔‘

بساریہ مزید لکھتے ہیں کہ ’تہمینہ جنجوعہ چاہتی تھیں کہ سفارتکار یہ بات اپنے ممالک کے رہنماؤں تک پہنچائیں اور انڈیا سے کہیں کہ وہ صورتحال کو مزید آگے نہ بڑھائے۔ اس کی وجہ سے ’پی فائیو‘ دارالحکومتوں، اسلام آباد اور نئی دہلی میں سفارتی سرگرمیوں میں ہلچل مچ گئی!‘

وہ ایک ’پی فائیو‘ سفارت کار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ان سفارت کاروں میں سے ایک نے کہا کہ پاکستان کو خود اپنے تحفظات کو براہ راست انڈیا تک پہنچانا چاہیے۔‘

بساریہ لکھتے ہیں کہ اس وقت انھیں اسلام آباد میں موجود انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کا آدھی رات کو فون آیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کرنے کے خواہشمند ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے سینئیر حکام سے چیک کیا اور جواب دیا کہ ہمارے وزیر اعظم اس وقت دستیاب نہیں ہیں لیکن اگر عمران خان کے کوئی ضروری پیغام پہنچانا چاہتے ہیں تو وہ یقیناً مجھے دے سکتے ہیں۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد اس رات انھیں کال نہیں آئی۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ درین اثنا امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں نے انڈیا کو مطلع کیا کہ پاکستان اب کشیدگی کو کم کرنے، انڈیا کے ڈوزیئر پر عمل کرنے، اور دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ سفیروں نے انڈیا کو یہ بھی بتایا کہ ’پاکستان کے وزیر اعظم خود یہ اعلان کریں گے اور پائلٹ کو اگلے دن انڈیا واپس کر دیا جائے گا۔‘

انھوں نے لکھا کہ یکم مارچ کو انڈیا نے ورتھمان کی واپسی کے لیے طریقے تیار کرنا شروع کر دیا اور ’فیصلہ کیا کہ پاکستان سے کہا جائے کہ وہ پائلٹ کی واپسی کا میڈیا میں تماشا نہ بنائے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’(ہماری) ورتھمان کی بازیابی کے لیے انڈین ایئر فورس کا طیارہ بھیجنے کے لیے تیار تھی لیکن پاکستان نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ انھیں شام پانچ بجے رہا کیا جانا تھا لیکن آخر کار رات نو بجے رہا کیا گیا۔‘

’یہ انڈیا کا فروری 2019 کے گرد افسانوی بیانیہ ہے‘
تاہم پاکستانی پاکستانی دفتر نے اجے بساریا کی کتاب میں درج تفصیلات کےحوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’بظاہر یہ کتاب فروری 2019 کے گرد انڈیا کے افسانوی بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

دفترِ خارجہ کی ترجمان سے ایک صحافی کی جانب سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ اجے بساریہ نے یہ دعویٰ کیا کہ انڈیا نے اس وقت ایک پاکستانی وزیر اعظم کی کال لینے سے انکار کیا، اس پر وہ کیا کہنا چاہیں گی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان نے جواباً کہا کہ ’انڈیا میں حکمرانوں نے پلوامہ واقعے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔۔۔ مسٹر بساریہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بالاکوٹ انڈیا کے لیے ایک فوجی ناکامی تھی۔ یہ انڈین مہم جوئی کی ایک مثال تھی جو ان کے لیے بُری طرح اور شرمناک حد تک غلط ثابت ہوئی کیونکہ انڈین طیارے مار گرائے گئے، اور ایک انڈین پائلٹ کو پاکستان نے حراست میں لے لیا۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان نے اس صورتحال کے دوران ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تاہم ’یہ افسوسناک ہے کہ ایک سفارتکار جبر اور طاقت کے استعمال کی بات کر رہا ہے۔‘

یاد رہے کہ 28 فروری کو عمران خان نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں انڈیا کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو یکم مارچ کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایوان کو بتایا تھا کہ ’آج انڈیا نے پلوامہ کے بارے میں مراسلہ بھیجا ہے مگر اس سے پہلے انھوں نے حملہ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘ انھوں نے ایوان کو بتایا تھا کہ ’میں نے کل بھی مودی سے بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس عمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ میں انڈیا کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مزید کوئی کارروائی نہ کریں کیونکہ ایسی صورت میں ہم بھی کارروائی پر مجبور ہوں گے۔‘


ھیرالال مالھی تحصیل رپورٹر عمرکوٹ ڈیلی بی بی سی پاکستان نیوز عمرکوٹ: ایس ایس پی عمرکوٹ جناب عزیر احمد (PSP) کی ہدایات پر ضلع بھر میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے۔ BBC PK News Umer kot Hira Lal Report

پولیس تھانہ تعلقہ عمرکوٹ نے مختلف جرائم میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ پولیس اسٹیشن: تعلقہ عمرکوٹ مقدمہ...