منگل، 1 اپریل، 2025

قیدی بھی انسان ہیں حیدرآباد :– سینٹرل جیل حیدرآباد میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں قیدیوں پر انسانی تشدد رشوت کے مندی بیمار قیدیوں کا اعلاج نا ہو نا. رپورٹ: انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف بی بی سی پاکستان ۔تفصیلات: BBC PK

حیدرآباد :حالیہ دنوں میں، سینٹرل جیل حیدرآباد میں جیل حکام نے ایک قیدی پر وحشیانہ تشدد کیا، صرف اس لیے کہ اس نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ سندھ کی جیلوں میں رائج ظلم و جبر اور استثنیٰ کے کلچر کی عکاسی کرتا ہے۔ قیدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے، اور انہیں بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔حيدرآباد سینٹرل جیل سپرٹنڈنٹ کے لئے سونے کا ذخیرہ سپرنٹنڈنٹ نائب ٻابهڻ نے ملاقات کا ریٹ 1500 روپے مقرر کیا ہوا ہے۔ چھوٹے قیدی سے کام کے 30,000 سے 50,000 روپے لیتا ہے، جبکہ قتل کے قیدی سے 1 لاکھ سے 1.5 لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔بی کلاس کے کولی کے 90 ھزار سے 70 ھزار ب کلاس کے فے قیدی سے 3000 مہانا جیل م فے قیدی سے 1500 کیبل نیٹ کے پانی گرم، ائیرکولر، بجلی پر چلنے والا کیٹل اور ہر جیز کے سپريڊنٽنٽ نے ریٹ مقرر کئے گئے ہیں. جیل کے کچن میں بھی اس نے ایک خاص نظام بنا رکھا ہے۔ قیدیوں کو غیر معیاری کھانا دیا جاتا ہے کیونکہ ٹھیکیدار جب سپرنٹنڈنٹ کو پیسے دے گا تو وہ قیدیوں کو اچھا کھانا کیوں فراہم کرے گا؟ قیدیوں پر ظلم کا سلسلہ جاری ہے، جیسے یہ قیدی نائب ٻابهڻ کی ذاتی ملکیت ہوںانڈر ٹرائل قیدیوں سے کام کروانا توہین عدالت میں آتا ہےسندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں انصاف مانگنے والے کو مزید رگڑا دیا جاتا ہے اگر کوئی قیدی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو شکایت کرتا ہے تو سپرینٹنڈنٹ نائب بابھن اس قیدی کو بند وارڈ کروا کر تشدد کرواتا ہے اس کے علاوہ دس کے قریب قیدی تسدد کے واقعات سے فوت ہوگئے ہیں جن میں سے محمد یوسف قمبرانی، محمد ولد خدابخش (بدین کے قیدی) محمد یعقوب ولد ٻڊل عمراڻي کے الاوا اور ب بین.انسانی حقوق کی قدرانسانی حقوق صرف قوانین یا معاہدوں میں درج الفاظ نہیں ہیں، بلکہ یہ ہر فرد کے لیے عزت، وقار اور مساوی سلوک کی ضمانت ہیں۔ کوئی بھی نظام یا طاقت ہمیں ان حقوق سے محروم نہیں کر سکتی جب تک کہ ہم خود خاموش نہ رہیں۔ اگر ہم ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے، تو ناانصافی بڑھتی رہے گی۔بین الاقوامی قوانین کے تحت ہماری ذمہ داریاںہم کئی بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہیں، جن میں شامل ہیں: • عالمی انسانی حقوق کا اعلامیہ (UDHR) – آرٹیکل 5 تشدد اور غیر انسانی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ • شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR) – آرٹیکل 10 قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کی ضمانت دیتا ہے۔ • تشدد کے خلاف اقوامِ متحدہ کا معاہدہ (CAT) – ہم اس پر دستخط کر چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود تشدد عام ہے۔ان معاہدوں کے باوجود، سینٹرل جیل حیدر آباد سمیت سندھ کی دیگر جیلوں میں ان قوانین پر عملدرآمد یا تو بہت کمزور ہے یا بالکل موجود نہیں ہے۔ سندھ جیل ایکٹ اور سندھ ہیومن رائٹس کمیشن محض کاغذی کارروائی تک محدود ہیں، جبکہ عملی طور پر کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ کرپشن، نااہلی، اور خاموشی کا کلچر ان خلاف ورزیوں کو مزید بڑھا رہا ہے۔جب تک حقیقی اصلاحات، آزاد نگرانی، اور سخت احتسابی اقدامات نہیں کیے جاتے، تب تک ایسے “معائنے” محض دکھاوے تک محدود رہیں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ نظام میں حقیقی تبدیلی لائی جائے۔ قیدی بھی انسان ہیں، اور ان کے حقوق محفوظ رہنے چاہئیں۔بشکریہ ، سرمد چانڈیو کی وال سے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں