پیر، 31 مارچ، 2025

‏ایک بچّہ دس روپے لے کر پُلاؤ والے کے پاس آیا،جیسے ہی وہ ریڑھی کے قریب پہنچا، ایک دبلا پتلا لڑکا، جو شاید مالک کا نوکر تھا، سخت لہجے میں بولا:"کیا چاہیے؟"بچّے نے ہمت مجتمع کرکے آہستگی سے کہا:"BBC PK

دس روپے کا پلاؤ دے دو۔"لڑکے نے حیرت سے اُس کے ہاتھ میں پڑے دس روپے دیکھے اور اُسے سر سے پیر تک گھور کر ہنسا۔"دس روپے میں اب کچھ نہیں ملتا، جاؤ یہاں سے۔"بچّہ تھوڑا سا پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی آنکھوں میں یوں لگا جیسے آنسو جھلملانے کو ہیں، مگر اُس نے گھبرا کر آس پاس دیکھا کہ کہیں کوئی مذاق نہ اُڑائے۔ اُسی لمحے میں، میں بھی پُلاؤ خریدنے کے ارادے سے پہنچا تھا۔ میرا جی چاہا کہ اُس بچے کی مدد کروں۔ چاہا تو یہی کہ میں خود آگے بڑھ کر اپنا بٹوا کھولوں اور اسے کہیں زیادہ چاول دلا دوں، لیکن عجیب سے حجاب کے باعث میری زبان لڑکے کو روکنے کے لیے پکارنے سے قاصر تھی۔ میں بس ہمت کر کے اتنا کہہ پایا کہ"اِسے دے دو، پیسے میں دے دیتا ہوں۔"مگر اچانک پیچھے سے ایک نرم اور بارُعب آواز ابھری:‏"ہم بچے سے پیسے لے کر اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہیں۔"یہ آواز پُلاؤ والے مالک کی تھی۔ درمیانی قدوقامت، ہاتھ میں ایک ڈوئی اور آنکھوں میں حوصلہ افزا مسکراہٹ۔ وہ اُجلا کُرتا پہنے تھا جس کے سامنے سینے پر ہلکی سی سالن کی چھینٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ آگے بڑھا اور اس نے خود اپنے ہاتھوں سے اُس بچّے کے ہاتھ سے دس روپے کا پرانا سا نوٹ لیا۔ پھر نہایت پیار اور دلجمعی سے شاپر میں چاول ڈالتا چلا گیا۔ اُسی دیگ میں سے دو تین چھوٹی سی بوٹیاں بھی نکال کر اس میں رکھ دیں اور شاپر کو مضبوطی سے بند کیا۔‏"اچھا سنو،" مالک نے اُسے پیار سے بُلایا، "یہ لو سلاد بھی لے جاؤ۔"بچّہ حیرانی اور تشکر سے تک رہا تھا۔ اُس کے ہونٹ خاموش تھے لیکن آنکھیں بول رہی تھیں۔ وہ شاپر کو دونوں ہاتھوں سے سینے سے لگا کر یوں تھامے کھڑا تھا جیسے اس میں گویا دنیا کی تمام خوشیاں قید ہوں۔ مالِک نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کی آنکھوں میں پھنسے آنسو چھلکنے کو آئے، لیکن وہ بچہ شاید اپنی آنسوؤں کو قوت بنا کر مضبوط بننا چاہ رہا تھا۔ وہ دُکھتا ہوا دل، جس میں جینے کے ہزار اندیشے تھے، اُس لمحے جیسے سکون سے بھر گیا۔‏میں نے بھی حیرانی سے پوچھ ہی لیا:"مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول کیسے دے دیتے ہو؟"پُلاؤ والے نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، مگر اس قہقہے میں کوئی تکبر یا نمود نہ تھی، بس ایک عجیب سی گہری اُداسی اور مہر و محبت کی جھلک تھی۔ کہنے لگا:"بچّے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں صاحب! میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں۔ انہیں تو انکار کرتے ہوئے زبان کانپنے لگتی ہے۔ اب دیکھیں، پانچ روپے تو بعض اوقات شاپر کی قیمت بھی پوری نہیں کرتے، سلاد تو دور کی بات ہے۔ لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھنا چاہیے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میں جس دن ان غریب بچوں کو پکا سا کھانا کھلا دیتا ہوں، مجھے لگتا ہے رب کے ہاں میری نمازیں قبول ہو رہی ہیں۔"‏اس نے بات کے دوران اپنی بڑی دیگ کی طرف اشارہ کیا جس میں سے لذیذ خوشبو اُٹھ رہی تھی۔ دیگ کے اندر ہلکی ہلکی سی چھوٹی بوٹیاں بھی نظر آرہی تھیں، جو بچوں کی آس تھی۔ کہنے لگا:"یہ چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بچّوں کے لیے ہی رکھتا ہوں۔ اگر میں ہر چیز کو نفع اور نقصان کے ترازو پر تولوں گا تو دل کا سکون کھو دوں گا۔"ایک لمحہ کو مجھے لگا جیسے وقت تھم سا گیا ہے۔ اطراف کی شور شرابے سے بھری دنیا، مہنگائی کا رونا روتے دکاندار، بڑوں کی طنزیہ باتیں، سب کچھ پس منظر میں چلا گیا۔ سامنے بس ایک ہنستا مسکراتا بچہ نظر آیا جسے امیدِ زندگی کی ایک کرن مل گئی تھی۔‏مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بچہ آہستہ آہستہ اپنے شاپر کو سنبھالتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔ میں نے ارادہ کیا کہ دیکھوں تو سہی کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ میں چپکے سے اُس کا پیچھا کرنے لگا۔ تھوڑی دُور جا کر وہ گھِسے ہوئے جوتوں کے ساتھ ایک تنگ و تاریک گلی میں داخل ہو گیا۔ وہاں چاروں طرف پرانی اور شکستہ دیواریں تھیں۔ قدم قدم پر گندگی کے ڈھیر اور بکھرا ہوا کچرا۔ مگر اُس بچے کی رفتار میں تیزی تھی، جیسے اُسے جلدی ہو کہ کہیں کوئی انتظار کر رہا ہو۔‏کچھ فاصلے پر جا کر اُس نے ایک بوسیدہ لکڑی کا دروازہ دھکیلا جو چرچراتے ہوئے کھلا۔ اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں ایک چھوٹا سا صحن تھا، جس کے کنارے پر ایک نہایت ضعیف خاتون زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی، اور ایک نحیف و نزار سی لڑکی تھی جو شاید بچّے کی چھوٹی بہن تھی۔ اُن کی نظریں دروازے پر تھیں کہ جیسے کسی معجزے کے انتظار میں ہوں۔بچہ اندر داخل ہوا تو ضعیف خاتون نے پوچھا:"تم لے آئے؟"وہ بچہ خوشی سے شاپر لہرایا اور مسکراتے ہوئے گویا ہوا:"ہاں دادی، لے آیا! دیکھو، دو بوٹیاں بھی ہیں اس میں!"‏دادی نے مغموم مگر پُرسکون نگاہوں سے اُسے دیکھا۔ یوں لگا جیسے انھیں یقین نہ آیا ہو کہ دس روپے میں یہ سب کچھ ممکن ہے۔ بچّی نے اونچی آواز میں سبحان اللہ کہہ کر شاپر کو ایک دم تھام لیا۔ پھر دادی نے لرزتے ہاتھوں سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا:"بڑا کروبار کرے وہ پلاؤ والا! جب تک جیے گا، خوشیاں ہی دے گا۔"اچانک گلی میں اُس پلاؤ والے کی ریڑھی کی گھنٹی کی آواز مجھے دور سے سنائی دی۔ مجھے خیال آیا کہ شام ڈھل رہی ہے اور شاید وہ ریڑھی والا کسی دوسرے علاقے میں جا رہا ہوگا۔ میں نے دل میں ایک خوشی کی لہر محسوس کی کہ چلیں کم از کم ایک ایسی جگہ تو ہے جہاں مہنگائی کی آندھی انسانیت کی شمع کو بجھا نہ سکی۔‏یہاں کہانی کو مزید تجسس نے اُس وقت گھیرا جب میں نے دوسری طرف سے کسی پُراسرار سایے کی جھلک محسوس کی۔ گلی کے ویران گوشے میں ایک آدمی تاریکی میں رُکا ہوا تھا۔ اس نے مجھے محسوس کرلیا کہ میں اس گھر کے اندر جھانک رہا ہوں۔ اُس کی نگاہیں مجھ پر جمی تھیں۔ مجھے ڈر سا محسوس ہوا کہ شاید وہ کوئی نوسرباز یا کوئی ایسا شخص ہو جو معصوم بچوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ دل میں خوف نے گھر کیا اور میں نے ہچکچاہٹ سے قدم پیچھے ہٹائے۔پھر اس کے قدم بھی ہلے۔ وہ سایہ دار شخص دھیرے دھیرے میری طرف بڑھنے لگا۔ میں ہمت مجتمع کر کے کھڑا رہا، مبادا کسی برا کام کرنے والے کو موقع نہ دوں۔ جب وہ میرے قریب آیا تو ایک باریش بوڑھا نکلا، جس کی آنکھوں میں نمی اور آواز میں تھرتھراہٹ تھی:‏"بیٹا جی، ڈرئیے مت، میں ان بچوں کو جانتا ہوں۔ اُن کے ماں باپ کو بہت پہلے کھو چکے ہیں۔ میں بوسیدہ مکانوں میں پھیری لگا کر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتا ہوں اور کبھی کبھار اِن کی چادر، کپڑے کے لئے مدد کر دیتا ہوں۔ بس لوگ دیکھ کر بھی دیکھتے نہیں، نظر انداز کر دیتے ہیں۔"میں نے سکون کی سانس لی۔ اس نے مجھے بتایا کہ پلاؤ والے کی ریڑھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ وہ اکثر شام کے وقت اِن گلیوں سے ہو کر جاتا ہے، اور جن لوگوں کے پاس چند سکے بھی نہیں ہوتے، انہیں وہ کبھی کبھی مفت بھی کھانا دے جاتا ہے۔ وہ بوڑھا آدمی نمناک لہجے میں کہنے لگا:‏"یہ بچہ روز کسی نہ کسی طرح چند روپے جمع کر کے آتا ہے، تاکہ اپنی دادی اور بہن کے ساتھ کھانا بانٹ سکے۔"اُس بوڑھے نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنی ٹوپی ٹھیک کی اور آہستہ آہستہ واپس اندھیرے میں لوٹ گیا۔ میں وہیں کھڑا بے یقینی سے سب سوچتا رہا۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو معمولی عمل کو عظیم صدقہ بنا سکتے ہیں، مگر اکثر ہم صرف منافع کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔شام مزید ڈھل چکی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے آسمان پر جھومتے بادلوں کے درمیان ایک چھوٹی سی چاندنی پھوٹ رہی ہے جس نے گلی کے اوپر مدھم سی روشنی بکھیر دی ہے۔ میں نے ایک بار پھر اُس پُلاؤ والے کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تو وہ جا چکا تھا۔ لیکن اس کی آواز، اُس کے دیگ کے کھولتے چاولوں کی خوشبو، اُس کی مسکراہٹ اور بچوں کے معصوم چہروں کی وہ لمحاتی خوشی جیسے میری روح میں بس گئی۔‏یہ سارے مناظر زہن کے پردے پر رک گئے تھے۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ زندگی کی اصل قیمت کسی بڑے سرمائے، کسی نفع نقصان سے نہیں جُڑی، بلکہ یہ اِس بات سے جُڑی ہے کہ ہم اپنے حصے کا پیار اور سکون دوسروں تک کس طرح بانٹ سکتے ہیں۔ شاید ہمارے اردگرد کتنے ہی بچے ہوں گے جو دس روپے تو کیا، اکثر نوالے سے بھی محروم ہیں۔ یہ پُلاؤ والا اس گھٹن زدہ دور میں ایک ایسی شمع کی طرح تھا جو خدا کی محبت کا پیغام پھیلا رہا ہے۔‏میں نے ایک گہری سانس لی اور آہستہ آہستہ وہاں سے نکل گیا۔ میری نگاہوں کے سامنے بار بار اس بچّے کا چہرہ آتا، جو دس روپے ہاتھ میں دبائے ہوئے ڈرا ڈرا سا آیا، اور ایک محبت بھرا شاپر لے کر پورے اعتماد کے ساتھ لوٹا۔ اس لمحے مجھے یقین ہوگیا کہ سچ میں، بعض لوگوں کے دل ’چاول بیچنے‘ کی مشین نہیں، بلکہ دوسروں کو سہارا دینے والے جذبوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ وہ جذبے جو ہمیں اندھیرے میں روشنی دکھاتے ہیں اور کسی پلاؤ کی خوشبو سے بھی بڑھ کر ہمارے وجود کو خوشیوں سے مہکا دیتے ہیں۔اس طویل دن کے بعد جب رات آئی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کہیں دور سے کسی بچے کی ہنسی گونج رہی ہو، اور اس کے پیچھے ایک کرم کرنے والی ہستی کی آواز:"بچّوں کے لیے کیسی مہنگائی؟ بچّے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔"یہی آواز اُس پُلاؤ والے کا حقیقی پیغام تھی، جو شاید ہمارے سماج میں امیدِ نو کی علامت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں