پیر، 31 مارچ، 2025

‏ایک بچّہ دس روپے لے کر پُلاؤ والے کے پاس آیا،جیسے ہی وہ ریڑھی کے قریب پہنچا، ایک دبلا پتلا لڑکا، جو شاید مالک کا نوکر تھا، سخت لہجے میں بولا:"کیا چاہیے؟"بچّے نے ہمت مجتمع کرکے آہستگی سے کہا:"BBC PK

دس روپے کا پلاؤ دے دو۔"لڑکے نے حیرت سے اُس کے ہاتھ میں پڑے دس روپے دیکھے اور اُسے سر سے پیر تک گھور کر ہنسا۔"دس روپے میں اب کچھ نہیں ملتا، جاؤ یہاں سے۔"بچّہ تھوڑا سا پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی آنکھوں میں یوں لگا جیسے آنسو جھلملانے کو ہیں، مگر اُس نے گھبرا کر آس پاس دیکھا کہ کہیں کوئی مذاق نہ اُڑائے۔ اُسی لمحے میں، میں بھی پُلاؤ خریدنے کے ارادے سے پہنچا تھا۔ میرا جی چاہا کہ اُس بچے کی مدد کروں۔ چاہا تو یہی کہ میں خود آگے بڑھ کر اپنا بٹوا کھولوں اور اسے کہیں زیادہ چاول دلا دوں، لیکن عجیب سے حجاب کے باعث میری زبان لڑکے کو روکنے کے لیے پکارنے سے قاصر تھی۔ میں بس ہمت کر کے اتنا کہہ پایا کہ"اِسے دے دو، پیسے میں دے دیتا ہوں۔"مگر اچانک پیچھے سے ایک نرم اور بارُعب آواز ابھری:‏"ہم بچے سے پیسے لے کر اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہیں۔"یہ آواز پُلاؤ والے مالک کی تھی۔ درمیانی قدوقامت، ہاتھ میں ایک ڈوئی اور آنکھوں میں حوصلہ افزا مسکراہٹ۔ وہ اُجلا کُرتا پہنے تھا جس کے سامنے سینے پر ہلکی سی سالن کی چھینٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ آگے بڑھا اور اس نے خود اپنے ہاتھوں سے اُس بچّے کے ہاتھ سے دس روپے کا پرانا سا نوٹ لیا۔ پھر نہایت پیار اور دلجمعی سے شاپر میں چاول ڈالتا چلا گیا۔ اُسی دیگ میں سے دو تین چھوٹی سی بوٹیاں بھی نکال کر اس میں رکھ دیں اور شاپر کو مضبوطی سے بند کیا۔‏"اچھا سنو،" مالک نے اُسے پیار سے بُلایا، "یہ لو سلاد بھی لے جاؤ۔"بچّہ حیرانی اور تشکر سے تک رہا تھا۔ اُس کے ہونٹ خاموش تھے لیکن آنکھیں بول رہی تھیں۔ وہ شاپر کو دونوں ہاتھوں سے سینے سے لگا کر یوں تھامے کھڑا تھا جیسے اس میں گویا دنیا کی تمام خوشیاں قید ہوں۔ مالِک نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کی آنکھوں میں پھنسے آنسو چھلکنے کو آئے، لیکن وہ بچہ شاید اپنی آنسوؤں کو قوت بنا کر مضبوط بننا چاہ رہا تھا۔ وہ دُکھتا ہوا دل، جس میں جینے کے ہزار اندیشے تھے، اُس لمحے جیسے سکون سے بھر گیا۔‏میں نے بھی حیرانی سے پوچھ ہی لیا:"مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول کیسے دے دیتے ہو؟"پُلاؤ والے نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، مگر اس قہقہے میں کوئی تکبر یا نمود نہ تھی، بس ایک عجیب سی گہری اُداسی اور مہر و محبت کی جھلک تھی۔ کہنے لگا:"بچّے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں صاحب! میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں۔ انہیں تو انکار کرتے ہوئے زبان کانپنے لگتی ہے۔ اب دیکھیں، پانچ روپے تو بعض اوقات شاپر کی قیمت بھی پوری نہیں کرتے، سلاد تو دور کی بات ہے۔ لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھنا چاہیے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میں جس دن ان غریب بچوں کو پکا سا کھانا کھلا دیتا ہوں، مجھے لگتا ہے رب کے ہاں میری نمازیں قبول ہو رہی ہیں۔"‏اس نے بات کے دوران اپنی بڑی دیگ کی طرف اشارہ کیا جس میں سے لذیذ خوشبو اُٹھ رہی تھی۔ دیگ کے اندر ہلکی ہلکی سی چھوٹی بوٹیاں بھی نظر آرہی تھیں، جو بچوں کی آس تھی۔ کہنے لگا:"یہ چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بچّوں کے لیے ہی رکھتا ہوں۔ اگر میں ہر چیز کو نفع اور نقصان کے ترازو پر تولوں گا تو دل کا سکون کھو دوں گا۔"ایک لمحہ کو مجھے لگا جیسے وقت تھم سا گیا ہے۔ اطراف کی شور شرابے سے بھری دنیا، مہنگائی کا رونا روتے دکاندار، بڑوں کی طنزیہ باتیں، سب کچھ پس منظر میں چلا گیا۔ سامنے بس ایک ہنستا مسکراتا بچہ نظر آیا جسے امیدِ زندگی کی ایک کرن مل گئی تھی۔‏مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بچہ آہستہ آہستہ اپنے شاپر کو سنبھالتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔ میں نے ارادہ کیا کہ دیکھوں تو سہی کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ میں چپکے سے اُس کا پیچھا کرنے لگا۔ تھوڑی دُور جا کر وہ گھِسے ہوئے جوتوں کے ساتھ ایک تنگ و تاریک گلی میں داخل ہو گیا۔ وہاں چاروں طرف پرانی اور شکستہ دیواریں تھیں۔ قدم قدم پر گندگی کے ڈھیر اور بکھرا ہوا کچرا۔ مگر اُس بچے کی رفتار میں تیزی تھی، جیسے اُسے جلدی ہو کہ کہیں کوئی انتظار کر رہا ہو۔‏کچھ فاصلے پر جا کر اُس نے ایک بوسیدہ لکڑی کا دروازہ دھکیلا جو چرچراتے ہوئے کھلا۔ اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں ایک چھوٹا سا صحن تھا، جس کے کنارے پر ایک نہایت ضعیف خاتون زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی، اور ایک نحیف و نزار سی لڑکی تھی جو شاید بچّے کی چھوٹی بہن تھی۔ اُن کی نظریں دروازے پر تھیں کہ جیسے کسی معجزے کے انتظار میں ہوں۔بچہ اندر داخل ہوا تو ضعیف خاتون نے پوچھا:"تم لے آئے؟"وہ بچہ خوشی سے شاپر لہرایا اور مسکراتے ہوئے گویا ہوا:"ہاں دادی، لے آیا! دیکھو، دو بوٹیاں بھی ہیں اس میں!"‏دادی نے مغموم مگر پُرسکون نگاہوں سے اُسے دیکھا۔ یوں لگا جیسے انھیں یقین نہ آیا ہو کہ دس روپے میں یہ سب کچھ ممکن ہے۔ بچّی نے اونچی آواز میں سبحان اللہ کہہ کر شاپر کو ایک دم تھام لیا۔ پھر دادی نے لرزتے ہاتھوں سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا:"بڑا کروبار کرے وہ پلاؤ والا! جب تک جیے گا، خوشیاں ہی دے گا۔"اچانک گلی میں اُس پلاؤ والے کی ریڑھی کی گھنٹی کی آواز مجھے دور سے سنائی دی۔ مجھے خیال آیا کہ شام ڈھل رہی ہے اور شاید وہ ریڑھی والا کسی دوسرے علاقے میں جا رہا ہوگا۔ میں نے دل میں ایک خوشی کی لہر محسوس کی کہ چلیں کم از کم ایک ایسی جگہ تو ہے جہاں مہنگائی کی آندھی انسانیت کی شمع کو بجھا نہ سکی۔‏یہاں کہانی کو مزید تجسس نے اُس وقت گھیرا جب میں نے دوسری طرف سے کسی پُراسرار سایے کی جھلک محسوس کی۔ گلی کے ویران گوشے میں ایک آدمی تاریکی میں رُکا ہوا تھا۔ اس نے مجھے محسوس کرلیا کہ میں اس گھر کے اندر جھانک رہا ہوں۔ اُس کی نگاہیں مجھ پر جمی تھیں۔ مجھے ڈر سا محسوس ہوا کہ شاید وہ کوئی نوسرباز یا کوئی ایسا شخص ہو جو معصوم بچوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ دل میں خوف نے گھر کیا اور میں نے ہچکچاہٹ سے قدم پیچھے ہٹائے۔پھر اس کے قدم بھی ہلے۔ وہ سایہ دار شخص دھیرے دھیرے میری طرف بڑھنے لگا۔ میں ہمت مجتمع کر کے کھڑا رہا، مبادا کسی برا کام کرنے والے کو موقع نہ دوں۔ جب وہ میرے قریب آیا تو ایک باریش بوڑھا نکلا، جس کی آنکھوں میں نمی اور آواز میں تھرتھراہٹ تھی:‏"بیٹا جی، ڈرئیے مت، میں ان بچوں کو جانتا ہوں۔ اُن کے ماں باپ کو بہت پہلے کھو چکے ہیں۔ میں بوسیدہ مکانوں میں پھیری لگا کر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتا ہوں اور کبھی کبھار اِن کی چادر، کپڑے کے لئے مدد کر دیتا ہوں۔ بس لوگ دیکھ کر بھی دیکھتے نہیں، نظر انداز کر دیتے ہیں۔"میں نے سکون کی سانس لی۔ اس نے مجھے بتایا کہ پلاؤ والے کی ریڑھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ وہ اکثر شام کے وقت اِن گلیوں سے ہو کر جاتا ہے، اور جن لوگوں کے پاس چند سکے بھی نہیں ہوتے، انہیں وہ کبھی کبھی مفت بھی کھانا دے جاتا ہے۔ وہ بوڑھا آدمی نمناک لہجے میں کہنے لگا:‏"یہ بچہ روز کسی نہ کسی طرح چند روپے جمع کر کے آتا ہے، تاکہ اپنی دادی اور بہن کے ساتھ کھانا بانٹ سکے۔"اُس بوڑھے نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنی ٹوپی ٹھیک کی اور آہستہ آہستہ واپس اندھیرے میں لوٹ گیا۔ میں وہیں کھڑا بے یقینی سے سب سوچتا رہا۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو معمولی عمل کو عظیم صدقہ بنا سکتے ہیں، مگر اکثر ہم صرف منافع کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔شام مزید ڈھل چکی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے آسمان پر جھومتے بادلوں کے درمیان ایک چھوٹی سی چاندنی پھوٹ رہی ہے جس نے گلی کے اوپر مدھم سی روشنی بکھیر دی ہے۔ میں نے ایک بار پھر اُس پُلاؤ والے کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تو وہ جا چکا تھا۔ لیکن اس کی آواز، اُس کے دیگ کے کھولتے چاولوں کی خوشبو، اُس کی مسکراہٹ اور بچوں کے معصوم چہروں کی وہ لمحاتی خوشی جیسے میری روح میں بس گئی۔‏یہ سارے مناظر زہن کے پردے پر رک گئے تھے۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ زندگی کی اصل قیمت کسی بڑے سرمائے، کسی نفع نقصان سے نہیں جُڑی، بلکہ یہ اِس بات سے جُڑی ہے کہ ہم اپنے حصے کا پیار اور سکون دوسروں تک کس طرح بانٹ سکتے ہیں۔ شاید ہمارے اردگرد کتنے ہی بچے ہوں گے جو دس روپے تو کیا، اکثر نوالے سے بھی محروم ہیں۔ یہ پُلاؤ والا اس گھٹن زدہ دور میں ایک ایسی شمع کی طرح تھا جو خدا کی محبت کا پیغام پھیلا رہا ہے۔‏میں نے ایک گہری سانس لی اور آہستہ آہستہ وہاں سے نکل گیا۔ میری نگاہوں کے سامنے بار بار اس بچّے کا چہرہ آتا، جو دس روپے ہاتھ میں دبائے ہوئے ڈرا ڈرا سا آیا، اور ایک محبت بھرا شاپر لے کر پورے اعتماد کے ساتھ لوٹا۔ اس لمحے مجھے یقین ہوگیا کہ سچ میں، بعض لوگوں کے دل ’چاول بیچنے‘ کی مشین نہیں، بلکہ دوسروں کو سہارا دینے والے جذبوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ وہ جذبے جو ہمیں اندھیرے میں روشنی دکھاتے ہیں اور کسی پلاؤ کی خوشبو سے بھی بڑھ کر ہمارے وجود کو خوشیوں سے مہکا دیتے ہیں۔اس طویل دن کے بعد جب رات آئی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کہیں دور سے کسی بچے کی ہنسی گونج رہی ہو، اور اس کے پیچھے ایک کرم کرنے والی ہستی کی آواز:"بچّوں کے لیے کیسی مہنگائی؟ بچّے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔"یہی آواز اُس پُلاؤ والے کا حقیقی پیغام تھی، جو شاید ہمارے سماج میں امیدِ نو کی علامت ہے۔

جشن عید الفطر آپ ، ہم اور اقوام عالم کو ڈھیروں ساری خوشیاں مبارک ۔انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف بی بی سی پاکستان ۔ BBC PK

اپنی خوشیاں بھول جا، سب کا درد خرید ،"سیفی" تب کہیں جاکر ، تیری ہوگی عید۔عید کا مبارک دن خوشی ، محبت ، امن و بھائی چارگی اور سلامتی کا درس دیتا ہے ۔ عید محض رسم نہیں، عید احساسات کا میلہ ہے ، جہاں خوشیاں ہی خوشیاں بکھیری جاتی ہیں، جہاں ہمیں آپس کے چھوٹے چھوٹے تنازعات ، رنجشیں بھلا کر ،کھلے دل اور خندہ پیشانی سے معاف کرکے تمام تر محبت سے ایک دوسرے کو گلے لگا کر جام محبت بھرنے کا دن ہے ۔آج کے بابرکت اور مقدس تہوار پر ہمیں اپنے بزرگوں سے ، اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے, مسکینوں و نادار اورمصیبتوں میں مبتلا لوگوں میں امید کے چراغ روشن کرنے ہیں ، ان کے غم کو اپنا غم سمجھ کر امید کی کرن روشن ، اعتماد اور عقیدت کے پھول نچھاور کرنے ہیں۔ ہمیں یگانیت ، شعور اور استحکام کی شمع جلائے رکھنا ہے ۔ خداوند تعالٰی ہم سب کو ہمت حوصلہ ،جذبہ اور ایمانی طاقت عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔پیارے وطن پاکستان ۔۔۔۔سندھ میں ہمیشہ کی طرح عید کا تہوار روایتی جوش و خروش ، جذبے و امنگ ، رنگ و ترنگ ، احترام و والہانہ عقیدت اور خوشی و سعادت سے منایا جا رہا ہے۔ سندھ کے شہروں ، گاؤں اور قصبوں میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے اور بڑے اجتماعات کی صورت میں نماز عید ادا کی گئی ، پیارے ملک و ملت کی ترقی اور ترویج ، خوشحالی اور بقا ، باہمی امن ، اخلاص اور بھائی چارے کے لیئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں ۔ بزرگان ، بچے ، نوجوان ، رفیق اور رقیب اس مقدس تہوار پر بلا تفریق ایک دوسرے کو گلے لگایا اور خوشی کا اظہار کیا ۔ کراچی میں کروڑوں لوگوں نے عید کا تہوار روایتی جوش و جذبے سے منا رہے ہیں۔ اپنے پیاروں سے ملکر عید کی خوشیاں اور رونقیں بکھیر کر عید کے جشن کو چار چاند لگا دیئے ہیں بمصداق* آئی چمن میں بہار*۔حیدرآباد میں بھی عید کا جشن اور میلے کا سماں ہے ،*ایک عید ، مختلف انداز رنگ* لوگ جامشورو بئراج اور کوٹری بیراج پر عید اجتماع کی صورت میں عید کی خوشیوں سے سرشار بھی ہیں تو سندھو ماتا کی خشک سالی اور سندھو دریا پر 06 نئےکینالز کے معاملے پر سراپا احتجاج اور نالاں بھی ہیں۔ لوگوں ان سندھ دشمن منصوبوں کے خلاف سندھو ماتا سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے سندھو دریا (کوٹری) کے کنارے کشتیوں میں عید نماز اداکر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ملک اور سندھ کی خوشحالی کے لیئے اجتماعی طور پر بار گاھ ایزدی میں دعائیں مانگی گئیں ۔ نوابشاھ/ شہید بینظیر آباد میں بھی عید کے مقدس دن کی خوشیاں مبارک روبہ عروج پر ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی اپنے آبائی علاقے میں عید نماز ادا کی اور عوام الناس سے محبت اور خوشی کا اظہار کیا ۔سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح سکھر ، لاڑکانہ گھوٹکی ، کندھکوٹ ، جیکب آباد ، شکارپور ، کشمور ، دادو ،نوشہرو فیروز ، سیوھن شریف، مورو، بدین، ٹنڈو محمد خان ، ٹنڈوالہ یار ، ٹھٹہ، مٹھی ، اسلام کوٹ میں بھی عید میلے کا جشن جوک در جوک پر ہے۔خیرپور/پیر گوٹھ میں حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا نے اپنے مریدین کو زیارت کا شرف بخشا اور ملک و ملت کی ترقی و ترویج کےلئے اجتماعی دعائیں مانگی گئیں ۔ عمرکوٹ تھرپارکر کے علاقوں میں بھی سندھی قوم جاگ اٹھی ۔عید نماز کے بعد متنازع کینال منصوبے اور کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف شہر۔شہر میں اجتماعی مظاہرے کیئے گئے اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور سندھ کے استحصال کا الزام لگایا ۔میرپورخاص میں بھی میرپورخاص کی مرکزی عید گاہ کھار پاڑہ میں عید نماز اداکر کرنے کے بعد عبدالرحمان پنہور اور ان کے معصوم بچوں سمیت دیگر شہریوں نے سندھو دریا پر 06 کینالز نکالنے اور کارپوریٹ سیکٹر میں فارمنگ کے خلاف پلے کارڈز ہاتھوں میں اٹھاکر بھرپور احتجاج کیا ۔

اتوار، 30 مارچ، 2025

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی عید الفطر کے بابرکت موقع پر پوری پاکستانی قوم کو دل کی گہرائیوں سے عید الفطر کی مبارکباد۔"اللہ تعالیٰ ہمیں اس بابرکت دن کے حقیقی پیغام کو سمجھنے اور اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین “~ وزیرِ اعظم BBC PK

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی عید الفطر کے بابرکت موقع پر پوری پاکستانی قوم کو دل کی گہرائیوں سے عید الفطر کی مبارکباد۔

"اللہ تعالیٰ ہمیں اس بابرکت دن کے حقیقی پیغام کو سمجھنے اور اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین “

~ وزیرِ اعظم

عید مبارک ✨ 🌙اہل اسلام کو عید کی خوشیاں مبارکمریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب BBC PK

عید مبارک ✨ 🌙

اہل اسلام کو عید کی خوشیاں مبارک

مریم نواز شریف 
وزیراعلیٰ پنجاب

جئدیو مھیشوری اوم پرکاش ہیرا لعل BBC PK

ہیرا لعلاوم پرکاش

منجانب جئدیو مھیشوری BBC PK

May this Eid be filled with blessings and happiness, filling our hearts with joy as we celebrate. Let us cherish every moment, find peace in forgiveness and understanding. Eid Mubarak!

*دوستوں! آج کی پوسٹ میں 50 ہیڈ لائنز ہیں، آپ سب کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک۔۔۔*🛑 *آج دن بھر کیا کچھ ہوا؟* 🛑🛑 *30 مارچ 2025 | بروز اتوار | اہم خبروں کی جھلکیاں |*🚨 BBC PK

1) پاکستان میں شوال کا چاند نظر آگیا، ملک بھر میں عیدالفطر کل 31 مارچ کو منائی جائے گی🚨 (2) سعودی عرب، یو اے ای سمیت خلیجی ممالک میں عیدالفطر آج منائی گئی🚨 (3) عید سے قبل کھانے پینےکی اشیا کی قیمتوں کو پھر سے پر لگ گئے🚨 (4) عید کے تینوں دن رات 12 بجے تک گیس دستیاب ہوگی، سوئی سدرن نے گیس کا شیڈول جاری کردیا🚨 (5) بوہرہ برادری نے بھی آج عیدالفطر مذہبی جوش و جذبے سے منائی🚨 (6) کراچی میں عید کی چاند رات کی خوشی میں فائرنگ سے 12 شہری زخمی🚨 (7) عید کا چاند نظر آتے ہی کراچی میں مہنگائی کا جن بے قابو🚨 (8) کراچی میں مرغی کا گوشت 800، گائے 1200، بچھیا 1700 اور بکرے کا گوشت 2800 روپے فی کلو من مانی قیمتوں پر فروخت ہوا🚨 (9) کراچی میں عید کا چاند نظر آتے ہی حجاموں کی چاندنی، ریٹ دگنے ہوگئے🚨 (10) مولانا فضل الرحمان کا امن و امان کی ناقص صورت حال پر عوام کو احتیاط کا مشورہ🚨 (11) کراچی، قائد آباد شیر پاؤ کالونی منرل واٹر شاپ پر ملزمان کی فائرنگ، اہلسنت والجماعت کے علاقائی ذمہ دار قاری عبدالرحمان شہید🚨 (12) مستونگ میں تیسرے روز بھی بی این پی کا دھرنا جاری، اختر مینگل کا کارکنوں کے ساتھ عید منانے کا اعلان🚨 (13) ملک میں غیرقانونی رہائش پذیر غیرملکیوں کے انخلا کی ڈیڈلائن آج ختم ہورہی ہے🚨 (14) عید پر بھی دجالی حملے جاری، مزید 24 فلسطینی جنت پہنچ گئے، غزہ میں زندگی اذیت ناک🚨 (15) صدر مملکت کی پارٹی ورکرز اور رہنماؤں سے ملاقات، سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال🚨 (16) کراچی میں نئے ٹریفک قوانین نافذ، خلاف ورزی پر سخت کارروائی ہو گی🚨 (17) بلوچستان: دہشت گردوں کیخلاف فورسز کے آپریشنز کو مزید وسعت دینے پر اتفاق🚨 (18) عید الفطر کے دوران پنجاب میں عارضی نصب مکینیکل جھولوں پر پابندی🚨 (19) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو خصوصی عید مبارک🚨 (20) مریم نواز کا چاند رات اور عید پر فول پروف سکیورٹی انتظامات کا حکم🚨 (21) کراچی: تیز رفتار کار کی موٹرسائیکل کو ٹکر، میاں بیوی جاں بحق، بچی زخمی🚨 (22) شہباز شریف کا ازبک صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، عید کی مبارکباد دی🚨 (23) مریم اورنگزیب عام شہری بن گئیں، بھیس بدل کر لاہور کے اسپتالوں کے دورے🚨 (24) سینئر صوبائی وزیر ہسپتال کے مختلف کاونٹرز پر گئیں، وارڈز کا معائنہ، ادویات کی مفت فراہمی، صفائی کا جائزہ لیا🚨 (25) کوئٹہ نہ جانے دیا تو مستونگ میں دھرنا دیں گے، بلوچ خواتین کو رہا کیا جائے، اختر مینگل🚨 (26) کراچی: عید کی خریداری کیلئے جانے والے موٹرسائیکل سوار میاں بیوی کار کی ٹکر سے جاں بحق🚨 (27) کراچی: رمضان میں 155 منافع خور گرفتار، بھاری جرمانے، مرغی کا گوشت 820 روپے کلو فروخت🚨 (28) کراچی: کورنگی میں لگنے والی پراسرار آگ پر قابو نہ پایا جاسکا، ماہرین کی مدد طلب کرلی گئی🚨 (29) یوٹیوبر رجب بٹ نے اپنے نئے پرفیوم کے نام پر ایک بار پھر باقاعدہ معافی مانگ لی، چوہدری بصیرت علی چشتی کو وکیل مقرر کردیا🚨 (30) جان سے مارنے کی دھمکیاں؛ یوٹیوبر رجب بٹ نے پاکستان چھوڑ دیا🚨 (31) فیصل آباد: موٹروے کے قریب دوران ڈکیتی اجتماعی زیادتی کا تیسرا ملزم بھی گرفتار🚨 (32) نہروں کا مسئلہ فیڈریشن سے بڑا نہیں، اتفاق رائے ہوگا تو بات آگے بڑھےگی: رانا ثنااللہ🚨 (33) ملتان: پولیس اہلکار پر تشدد کی ویڈیو وائرل کرنیوالے 2 افراد پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار🚨 (34) جعلی بیج فروخت کرنے میں ملوث 392 کمپنیوں پر پابندی کا فیصلہ🚨 (35) عثمان خان انجری کے باعث نیوزی لینڈ کیخلاف دوسرے ون ڈے سے باہر🚨 (36) گوجرانوالہ: محرر نے لیڈی پولیس اہلکار کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، ویڈیو بناکر بلیک میل بھی کرتا رہا🚨 (37) آئی ایم ایف نے سالانہ ٹیکس وصولی کے ہدف میں 64 ارب روپے کی کمی کردی🚨 (38) لاہور میں عید سے پہلے ہی تمام سہولت بازار ختم کر دیے گئے🚨 (39) کراچی: نشئی ناتھا خان پُل سے سریا چوری کرنے لگے، پُل کی بنیادیں کمزور ہونے کا خدشہ🚨 (40) بہاولپور: تیسری جماعت کی طالبہ اجتماعی زیادتی کے بعد قتل، 2 ماموں سمیت 4 رشتہ دار گرفتار🚨 (41) حکومت پاکستان کے بے دخلی کے فیصلے نے افغانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اقوام متحدہ🚨 (42) عید کا دن ہمیں اتحاد اور یکجہتی کا درس دیتا ہے، صدر و وزیراعظم کا پیغام🚨 (43) حکومت کیخلاف مشترکہ احتجاج کے معاملے پر پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی چاہتے ہیں، کامران مرتضیٰ🚨 (44) 10 سال کے بعد 2025 کا ماہ رمضان اسٹاک ایکسچینج کیلئے بہترین ثابت ہوا، رپورٹ🚨 (45) نوابشاہ: صدر مملکت کی پارٹی قیادت اور ورکرز سے بلاول ہاؤس میں ملاقات🚨 (46) بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر رات کے اوقات میں مسافر بسوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد🚨 (47) عید کے بعد کراچی کے حقوق کیلئے ایوان اور عدالت سے رجوع کریں گے، خالد مقبول صدیقی🚨 (48) کراچی: کورنگی کراسنگ پر نئے انڈس ہسپتال کے فیز ون میں 90 بستروں کی ایمرجنسی شروع🚨 (49) پیکا قانون کے تحت کارروائیوں میں تیزی، ملتان اور ساہیوال میں 2 مقدمات درج، 3 ملزم گرفتار🚨 (50) لاہور: عید شاپنگ کرکے گھر جانیوالی خواتین سے واردات کرنے والا گینگ گرفتار*(رپورٹ: عطامحمد محمد اسلم جئدیو مھیشوری اسلام آباد ٹو، کراچی)**تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے

May this Eid be filled with blessings and happiness, filling our hearts with joy as we celebrate. Let us cherish every moment, find peace in forgiveness and understanding. Eid Mubarak! BBC PK

May this Eid be filled with blessings and happiness, filling our hearts with joy as we celebrate. Let us cherish every moment, find peace in forgiveness and understanding. Eid Mubarak!

پنجابی کہاوتاں ۔۔۔۔انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف بی بی سی پاکستان ملاحظہ فرمائیں : 01۔ سکھ نال نصیباں دے ' دکھ نال غریباں دے02۔ سرفہ کر کے سُتی تے آٹا لے گئی کتی03۔ چور نالوں پَنڈ کالہی04۔ کہنا دھی نوں ' سنانا نوہ نوں05۔ جس راہ نئیں جانا ' اوہدا ناں کیہ لینا06۔ ویہلی رن ' پروہنیاں جوگی07۔ جیناں کھادیاں گاجراں ' ٹیڈ اونہاں دے پیڑ08۔ کُتی چوراں نال رل گئی09۔ آٹا گنہدی ' ہلدی کیوں اے10۔ چور اچکا چوہدری تے غُنڈی رَن پردھان11۔ ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے12۔ انّے کتے ہرنا دے شکاری13۔ گونگے دی ماں گونگے دی رمزاں جان-دی اے14۔ رب ملائی جوڑی ' اک انّا اک کوڑھی15۔ لائی لگ نا ہوئے گھر والا تے چندرا گوانڈ نا ہو وے16۔ آپ نہ وسّی سوہرے تے لوکی متاں دے17۔ آپ کسے جہی نا تے گل کرنو رہی نا18۔ جے کوئی کُچھڑ چُکے تے جان کے پُنجے نہی ڈِگی دا19۔ جِدے گھر دانے ' اُوہدے کملے وی سیانے20۔ ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں21۔ ککڑ دی جان گئی تے کھان آلیا نوں صواد نہ آیا22۔ آٹے دی بلی بناواں ' میاؤں کون کرے23۔ مُلاں دی دوڑ مصیت تک24۔ موئیا نئیں ' آکڑیا اے25۔ دھی دی سھیلی تے ماں دی سوکن26۔ مرے دا تے مُکرے دا علاج کوئی نہ27۔ بوہے آئی جنج تے ونوں کُڑی دے کن28۔ کملی رووے یارا نوں ' لے لے ناں بهرواں دا29۔ عقل ہووے تے سوچاں ' نہ ہووے تے موجاں30۔ نکا ویکھ کے لڑیے نہ ' وڈا ویکھ کہ ڈریے نہ31۔ ٹُردے نوں کوئی نئیں ملدا32۔ ست گھر تے ڈین وی چھڈ دیندی اے33۔ بھاویں ماسی بنے سس ' اوہنوں وی ڈین والا چس34۔ اکھوں دِسّے ناں تے ناں نور بی بی35۔ جیا کِلے بدا ' جیا چوراں کھڑیا36۔ سپاں دی کھڈ وچ سپولے جمدے نیولے نئیں37۔ آئی موج فقیر دی ' لائی چگی نوں اگ38۔ جَٹ ' وَٹ تے پَھٹ بَنّن نال ای قابو آندے نے39۔ شاہاں دا قرض برا ' فکر دا درد برا40۔ فکر دی مار بری ' بیگانی نار بری.منقول BBC PK

پنجابی کہاوتاں ۔۔۔۔

انجنیئر جئدیو مھیشوری 
بیورو چیف بی بی سی پاکستان 

ملاحظہ فرمائیں : 

01۔ سکھ نال نصیباں دے ' دکھ نال غریباں دے
02۔ سرفہ کر کے سُتی تے آٹا لے گئی کتی
03۔ چور نالوں پَنڈ کالہی
04۔ کہنا دھی نوں ' سنانا نوہ نوں
05۔ جس راہ نئیں جانا ' اوہدا ناں کیہ لینا
06۔ ویہلی رن ' پروہنیاں جوگی
07۔ جیناں کھادیاں گاجراں ' ٹیڈ اونہاں دے پیڑ
08۔ کُتی چوراں نال رل گئی
09۔ آٹا گنہدی ' ہلدی کیوں اے
10۔ چور اچکا چوہدری تے غُنڈی رَن پردھان
11۔ ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے
12۔ انّے کتے ہرنا دے شکاری
13۔ گونگے دی ماں گونگے دی رمزاں جان-دی اے
14۔ رب ملائی جوڑی ' اک انّا اک کوڑھی
15۔ لائی لگ نا ہوئے گھر والا تے چندرا گوانڈ نا ہو وے
16۔ آپ نہ وسّی سوہرے تے لوکی متاں دے
17۔ آپ کسے جہی نا تے گل کرنو رہی نا
18۔ جے کوئی کُچھڑ چُکے تے جان کے پُنجے نہی ڈِگی دا
19۔ جِدے گھر دانے ' اُوہدے کملے وی سیانے
20۔ ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں
21۔ ککڑ دی جان گئی تے کھان آلیا نوں صواد نہ آیا
22۔ آٹے دی بلی بناواں ' میاؤں کون کرے
23۔ مُلاں دی دوڑ مصیت تک
24۔ موئیا نئیں ' آکڑیا اے
25۔ دھی دی سھیلی تے ماں دی سوکن
26۔ مرے دا تے مُکرے دا علاج کوئی نہ
27۔ بوہے آئی جنج تے ونوں کُڑی دے کن
28۔ کملی رووے یارا نوں ' لے لے ناں بهرواں دا
29۔ عقل ہووے تے سوچاں ' نہ ہووے تے موجاں
30۔ نکا ویکھ کے لڑیے نہ ' وڈا ویکھ کہ ڈریے نہ
31۔ ٹُردے نوں کوئی نئیں ملدا
32۔ ست گھر تے ڈین وی چھڈ دیندی اے
33۔ بھاویں ماسی بنے سس ' اوہنوں وی ڈین والا چس
34۔ اکھوں دِسّے ناں تے ناں نور بی بی
35۔ جیا کِلے بدا ' جیا چوراں کھڑیا
36۔ سپاں دی کھڈ وچ سپولے جمدے نیولے نئیں
37۔ آئی موج فقیر دی ' لائی چگی نوں اگ
38۔ جَٹ ' وَٹ تے پَھٹ بَنّن نال ای قابو آندے نے
39۔ شاہاں دا قرض برا ' فکر دا درد برا
40۔ فکر دی مار بری ' بیگانی نار بری.

منقول

اوم پرکاش ہیرا لعل منجانب BBC PK

موبائل: ازدواجی زندگی کا سب سے بڑا دشمن۔ترتیب و تدوین :انجنیئر جئدیو مھیشوری بیورو چیف بی بی سی ، پاکستان ۔ملاحظہ فرمائیں:منقول BBC PK

 آج کی تیز رفتار زندگی میں، موبائل فون ایک ایسا آلہ بن چکا ہے جو ہمیں دنیا سے جوڑتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی موبائل ہمیں اپنے قریبی رشتوں سے بھی دور کر رہا ہے۔ ازدواجی زندگی میں سب سے بڑی دراڑ ڈالنے والا اگر کوئی ہے، تو وہ ہمارا موبائل ہے۔ایک عام مگر افسوسناک منظرتصور کریں: ایک کمرہ، جس میں میاں اور بیوی ایک ساتھ بیٹھے ہیں، مگر حقیقت میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں، بلکہ ہر کوئی اپنی موبائل اسکرین میں گم ہے۔ ایک فیس بک پر اسکرول کر رہا ہے، دوسرا یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ رہا ہے، اور دن کا قیمتی وقت یونہی ضائع ہو رہا ہے۔یہ کوئی فرضی کہانی نہیں، بلکہ آج ہر دوسرے گھر کا المیہ ہے۔ ازدواجی رشتے، جو محبت، توجہ اور ایک دوسرے کی قربت کے طلبگار ہوتے ہیں، وہ موبائل کے بے جا استعمال کی وجہ سے کمزور پڑ رہے ہیں۔گھر میں موبائل کے لیے ایک جگہ مختص کریںاس مسئلے کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی موبائل کے لیے ایک مخصوص جگہ مقرر کر دیں، جہاں آپ کا فون رکھا جائے۔ جب تک کوئی ضروری کال نہ آئے، اسے مت اٹھائیں۔اس ایک عادت سے:آپ گھر میں زیادہ حاضر دماغ ہوں گے۔بیوی اور بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں گے۔ذہنی سکون اور باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔کیا ہم واقعی سمجھدار ہیں؟ہم دن بھر کام میں مصروف رہتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں، لیکن گھر آ کر بھی موبائل کے ذریعے "باہر کی دنیا" میں کھو جاتے ہیں۔ کیا یہ عقلمندی ہے؟اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں، انہیں وقت دیں۔اپنی بیوی کے ساتھ بات کریں، ان کی باتیں سنیں۔کھانے کے وقت اور رات سونے سے پہلے موبائل کو مکمل طور پر نظر انداز کریں۔اگر آپ لاکھوں کماتے ہیں، مگر اپنی فیملی کے ساتھ رہ کر بھی ان کے ساتھ نہیں ہوتے، تو اس کمائی کا کیا فائدہ؟حقیقی خوشی کہاں ہے؟حقیقی خوشی نہ تو فیس بک پر ہے، نہ انسٹاگرام پر، نہ ہی یوٹیوب ویڈیوز میں۔ اصل خوشی اپنے پیاروں کے ساتھ ہنسی مذاق میں، ان کی باتوں میں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھنے میں ہے۔آج سے یہ عہد کریں کہ موبائل کے غلام نہیں بنیں گے، بلکہ اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی عادتیں بدلیں گے۔

ہفتہ، 29 مارچ، 2025

منجانب جئدیو مھیشوری BBC PK

*دوستوں! آج کی پوسٹ میں 55 ہیڈ لائنز ہیں، ہماری دن رات کی محنت کے بدلے ایک ری ایکٹ؟؟؟*🛑 *آج دن بھر کیا کچھ ہوا؟* 🛑🛑 *29 مارچ 2025 | بروز ہفتہ | اہم خبروں کی جھلکیاں |*🚨 BBC PK

 (1) سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں شوال کا چاند نظر آگیا، کل عید ہوگی🚨 (2) متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین میں بھی کل عیدالفطر کا اعلان🚨 (3) عمان، بھارت، بنگلادیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں چاند نظر نہیں آیا، عید پیر کو ہوگی🚨 (4) اے این پی کے صدر ایمل ولی کا سعودی عرب کے ساتھ اتوار کو عیدالفطر منانے کا اعلان🚨 (5) شوال کا چاند آج پاکستانی وقت کے مطابق 3 بج کر 58 منٹ پر تشکیل پاگیا، کل چاند نظر آنے کے امکانات روشن🚨 (6) مستونگ: بی این پی کے دھرنے کے قریب خودکش دھماکا، اختر مینگل و دیگر قیادت محفوظ🚨 (7) کوئٹہ میں موبائل ڈیٹا انٹرنیٹ سروس تیسرے روز بھی معطل🚨 (8) وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کے لانگ مارچ پر حملہ کرنے والے منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں لائیں، بلاول زرداری🚨 (9) خیبر پختونخوا: مردان کاٹلنگ میں شہریوں پر ڈرون حملے کی اطلاعات، 10 افراد جاں بحق، ورثاء کا شدید احتجاج🚨 (10) مردان میں دہشت گردوں کیخلاف آپریشن، بے گناہ خواتین اور بچے جاں بحق ہونا دلخراش واقعہ ہے، بیرسٹر سیف🚨 (11) قلات میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی، 6 دہشت گرد ہلاک، آئی ایس پی آر🚨 (12) ضلع کرم میں عید سے پہلے عید، فریقین میں 8 ماہ کیلئے امن معاہدہ ہوگیا🚨 (13) عالمی بینک نے پاکستان کیلیے 30 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی، رقم پنجاب ایئر پروگرام پر خرچ ہوگی🚨 (14) کراچی: آئل ریفائنری کے قریب آتشزدگی، کئی گھنٹوں بعد بھی آگ پر قابو نہ پایا جا سکا🚨 (15) وزیراعظم کا مصری صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، عید الفطر کی مبارکباد دی🚨 (16) میانمار، تھائی لینڈ میں زلزلہ: ہلاکتیں 1644 سے متجاوز، زندہ بچ جانے والوں کی تلاش جاری🚨 (17) سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مسجد الحرام آمد، نماز تراویح ادا کی🚨 (18) پردیسیوں کی واپسی، ٹرانسپورٹرز من مانے کرایے وصول کرنے لگے🚨 (19) پیکا ایکٹ کیخلاف صحافی تنظیمیں میدان میں آگئیں، ڈی چوک میں دھرنا، گرفتاری دینے کا اعلان🚨 (20) وزیراعلی خیبرپختونخوا کا عید الفطر پر قیدیوں کی 2 ماہ کی سزا معاف کرنے کا اعلان🚨 (21) صادق آباد میں یوٹیوب چینل سے مشہور کچے کے انتہائی مطلوب ڈاکو شاہد لونڈ کو ہلاک کرنے والا عمر لونڈ قتل🚨 (22) پنجاب دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے، مقصد بدامنی پھیلانا ہے، عظمیٰ بخاری🚨 (23) عید الفطر سے قبل بانی پی ٹی آئی کا سامان اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا🚨 (24) اسلام آباد کے سیکٹر ایف 8 میں چینی خاتون کی پراسرار موت🚨 (25) حکومت نے پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں ایک روپے کی کمی کردی، نوٹیفکیشن جاری🚨 (26) پٹرول کی قیمت میں ایک روپے کمی قوم کے ساتھ مذاق ہے، تاجروں کا ردعمل🚨 (27) کراچی میں 30 سالہ آن لائن ٹیکسی ڈرائیور ڈکیتی مزاحمت پر قتل🚨 (28) کینالز منصوبے پر بات ماننی پڑے گی، ہمارے پاس وفاقی حکومت گرانے کی طاقت ہے: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ🚨 (29) کوٹ ادو: سرنگ بناکر پائپ لائن سے تیل چوری کی کوشش کرنے والے 2 افراد دم گھٹنے سے ہلاک🚨 (30) میانمار اور تھائی لینڈ میں زلزلے سے ہلاکتیں ایک ہزار سے متجاوز، گمشدہ افراد کی تلاش جاری🚨 (31) کراچی: کورنگی کراسنگ میں بورنگ کے دوران مبینہ گیس لیکیج سے آگ بھڑک اٹھی🚨 (32) امریکا: کینیڈین شہری پاکستان کے جوہری پروگرام کیلئے ٹیکنالوجی اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار🚨 (33) سونا مہنگا، فی تولہ قیمت 3 لاکھ 25 ہزار روپے ہو گئی🚨 (34) اداکار فیروز خان کو برطانوی پارلیمنٹ نے ایوارڈ سے نواز دیا🚨 (35) کندھ کوٹ میں بھنگوار اور بھٹو برادری کے درمیان فائرنگ، 4 افراد ہلاک و متعدد زخمی🚨 (36) ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور اب ہمیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں، شیخ وقاص اکرم🚨 (37) بھارت عالمی سطح پر منشیات اسمگلنگ میں ملوث نکلا؛ امریکی خفیہ ایجنسی نے بھانڈا پھوڑ دیا🚨 (38) پہلا ون ڈے: نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 73 رنز سے شکست دے دی🚨 (39) محمد یوسف نے نیوزی لینڈ کیخلاف پاکستان کی شکست کا ذمہ دار بولرز کو قرار دے دیا🚨 (40) سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کراچی لاوارث شہر بنا دیا گیا ہے، حافظ نعیم🚨 (41) بھارتی ریاست چتھیس گڑھ کے جنگلات میں سیکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کے نام پر 16 قبائلیوں کو مار ڈالا🚨 (42) پختونخوا اور بلوچستان کو دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے ہرممکن مدد فراہم کریں گے، وزیرداخلہ🚨 (43) امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کے وائس آف امریکا کی بندش کے فیصلے کو معطل کردیا🚨 (44) صدر مملکت نے قومی اسمبلی کا اجلاس 7 اپریل کو طلب کرلیا🚨 (45) صحافی فرحان ملک کے وکلا نے ضمانت مسترد ہونے کیخلاف اپیل دائر کردی🚨 (46) مصطفیٰ عامر قتل کیس منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر🚨 (47) کے الیکٹرک نے وزیر اعظم کے سردیوں کیلئے متعارف بجلی سہولت پیکج کے اعداد و شمار جاری کردیے🚨 (48) حکومتی اعلانات کے باوجود شہری چینی 180 روپے کلو تک خریدنے پر مجبور🚨 (49) کوئٹہ سے عید اسپیشل ٹرین سخت سکیورٹی میں پشاور کے لیے روانہ🚨 (50) رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ایف بی آر ریونیو شارٹ فال 725 ارب روپے تک پہنچ گیا🚨 (51) وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ کے بھتیجے کی شیر کے بچے کے ساتھ ویڈیو وائرل🚨 (52) پنجاب میں اقلیتی برادریوں کے مسائل کے حل کیلئے مینارٹی ایڈوائزری کونسل قائم🚨 (53) لاہور: گھر میں اسلحہ کے زور پر 3 کروڑ کی ڈکیتی کرنے والے ملزمان گرفتار🚨 (54) گجرانوالہ: ہوٹل کی بریانی کھانے سے دو کمسن بہن بھائی جاں بحق🚨 (55) لاہور: ٹک ٹاک بنانے کی خاطر جان لیوا کرتب کرنیوالے 4 ملزمان گرفتار*(رپورٹ: عطامحمد محمد اسلم جئدیو مھیشوری اسلام آباد ٹو، کراچی)**تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے

ماہ رنگ ، سمی ، بیبو بلوچ جبر کے اندھیروں میں روشنی کی علامت تحریر :- رامین بلوچ (پہلاحصہ) BBC PK

بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ بے شمار ناموں سے سرخ ہے مگر کچھ افراد اپنی جدوجہد، حوصلہ، جرآت ، عزم اور قربانیوں سے مزاحمت کی ایسی اساطیر بن جاتے ہیں کہ وہ خود ایک تحریک کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔۔ ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور بیبو بلوچ بھی انہی عظیم فہرست میں شامل ہیں، جو جنگی جرائم،جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں شہید کئے جانے والے بلوچ فرزندوں پر ہونے والے ریاستی جبر کے خلاف بے خوفی سے ڈٹی رہیں. ان کی جدوجہد بلوچ قوم کی دلوں میں میں آزادی، انصاف اور امن کی امید جگاتی ہے اور مزاحمت کے جذبے کو زندہ رکھتی ہے . ماہ رنگ بلوچ کو پہلی بار میڈیا کے سکرین پر اس وقت دیکھا گیا، جب وہ اپنے والد کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی ریاستی جبر پر ماتم کناں تھی۔ کم عمری میں ہی اس نے وہ تلخ حقیقتیں جھیلیں جو کسی بھی مقبوضہ سماج میں معمول، قابلِ تصوراور ناگزیر ہوتے ہیں۔ماہ رنگ بلوچ، جو کم عمری میں ہی ایک اذیت ناک حقیقت سے روشناس ہوئی،۔ اس کے لیے بچپن کے دن گڑیوں، کہانیوں، اور خوابوں کی رنگین دنیا کا حصہ نہیں بنے، بلکہ وہ اپنی پہلی پہچان ایک احتجاجی بینر کے سائے میں نعرے لگاتے ہوئے اور اپنے والد کی جبری گمشدگی کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہوئے حاصل کرتی رہی۔ اس کا المیہ ان لاکھوں بچوں کے المیے کی عکاسی کرتا ہے جو کسی بھی مقبوضہ سماج میں ظلم، ناانصافی، اور خوف کے سائے میں پرورش پاتے ہیں۔مقبوضہ سماجوں میں بچپن ایک پرتعیش خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ زمین جہاں شناخت کو طاقت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، وہاں بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے احتجاجی پلے کارڈز ہوتے ہیں، اور ان کے ذہنوں میں کہانیوں کی جگہ گمشدہ بلوچ فرزندوں کی یادیں بسی ہوتی ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کا معاملہ کسی انفرادی سانحے سے زیادہ ایک اجتماعی حقیقت کی نمائندگی کرتا ہے —ایک ایسا سماج جہاں سوال اٹھانا، حقوق کی بات کرنا، یا کسی گمشدہ پیارے کی بازیابی کا مطالبہ کرنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔دنیا کے نقشے پر کچھ سرزمینیں صرف جغرافیائی حدود میں مقید نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے باسیوں کی قسمت بھی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے۔ ایسے معاشروں میں، جہاں شناخت ایک جرم بن جائے اور سوال اٹھانے کی سزا موت یا گمشدگی ہو، وہاں ماہ رنگ بلوچ جیسی بیٹیاں جنم لیتی ہیں۔یہ حقیقت بلوچستان جیسے متنازعہ اور ریاستی جبر کی شکار خطوں میں کھل کر سامنے آتی ہے۔ جبری گمشدگیاں یہاں ایک ایسا المیہ بن چکی ہیں جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ ماہ رنگ کی نسل وہ نسل ہے جس نے اپنے والدین کو یا تو ریاستی عقوبت خانوں میں کھو دیا، یا ان کی لاشیں اجتماعی قبروں سے برآمد ہوئیں، یا پھر وہ ہمیشہ کے لیے "جبری گمشدہ" قرار دے دیے گئے —ایسا غیر یقینی المیہ جس کی اذیت موت سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ماہ رنگ بلوچ۔سمی دین، بیبو بلوچ، گل زادی، ڈاکٹر شلی بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ،سعیدہ فیصل بلوچ، سیما بلوچ جیسی بہنوں کی مزاحمتی تحریک اور ذاکر جان، و راشد کی ماں سمیت ہزاروں بلوچ خواتین کی جدوجہدمحض جبری گمشدہ افرادکی بازیابی کے لیے نہیں بلکہ نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے کے خلاف ایک مکمل تحریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تحریک کسی محدود اصلاحی مطالبہ یا کوئی جز وقتی حقوق کے لئے نہیں بلکہ اس پورے استحصالی نظام، ریاستی جبر، انسانی حقوق کی پامالی، اور قومی غلامی کے خلاف ہیں۔ جہاں کسی قوم کی ان کی زمین پر اجنبی غلامی، مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیاجائے، جہاں سیاسی جدوجہد پر پابند ی ہو، اظہار رائے کی آزادی مسدود ہو تو اس قسم کے نوآبادیاتی ذہنیت کے کے خلاف مزاحمت محض ایک سیاسی ردعمل کا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس قومی مزاحمتی تحریک کے پس پشت جبر وبربریت کی وہ اجتماعی یاداشت ہوتی ہے جو مقبوضہ قوم کے شعور کو بیدار کرکے اسے آزادی کی جدوجہد کی راہ پر گامزن کردیتی ہے۔ بلوچ وطن میں جاری مذاحمت بھی اسی تاریخی جبر اور مسلسل ریاستی بربریت کا فطری ردعمل ہے۔ جہاں عقوبت خانوں میں گمشدہ نوجوانوں کی چیخیں، مسخ شدہ لاشیں، لوٹے گئے وسائل اور کچلے گئے انسانی حقوق ایک اجتماعی تجربہ کے طور پر یہ اذیت ناک یاداشتیں نسل در نسل منتقل ہوکر قومی مزاحمت کا حصہ بن جاتی ہے۔بلوچ مزاحمت کوئی وقتی رد عمل نہیں بلکہ تاریخی تسلسل کا اٹوٹ حصہ ہے، جہاں ہر ظلم تحریک کو تازہ دم کرتاہے اور ہر شہادت جدوجہد کو توانائی بخشتی ہے۔بلوچ قوم کے لے مزاحمت بقاء اور آزادی کی جنگ ہے کیونکہ بلوچ ہزاروں سال سے نہ کسی حملہ آور کی خیر سگالی کی اور نہ ہی غلامی کے سائے میں زندگی گزارکر اپنی آزادکی پر سمجھوتہ کیا۔ بلکل اسی طرح ماہ رنگ بلوچ صرف اپنے والد کے لیے ریاستی حراست میں شہادت یا اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف نہیں اٹھیں، بلکہ ان تمام جبری گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھا رہی تھی، جو اپنے قومی حق ملکیت، آزادی اور انصاف کے لئے جدوجہد کررہے تھے، وہ محض عام فرد نہیں بلکہ بلوچ سیاسی کارکناں ہیں۔ انہیں مجرمانہ حیثیت میں پیش کرنا یا دہشت گرد قرار دینانہ صرف عالمی قوانیں کی خلاف ورزی ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ ریاست اگر انہیں حراست میں لیتی ہے تو انہیں بین الاقوامی سیاسی اور جنگی قوانین کے تحت حقوق دیے جانے چاہیں، جن میں شفاف عدالتی عمل، قانونی دفاع کا حق، ان کی سیاسی موقف کا اظہار اور انسانی وقار کے مطابق سلوک شامل ہے۔ اپنی قومی آزادی کے لے جدوجہد کو جرم قرار دینا در حقیقت نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی ہے، جہاں قابض ہر بلوچ آواز کو دبانے کے لئے جبری گمشدگی تشدد، ماورائے عدالت اور ماورائے بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشن کے اصولوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں سالوں خفیہ ٹارچر سیلوں میں جبری گمشدگی کا نشانہ بناتاہے۔یہ مسئلہ محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ قابض ریاست کی جبر و وحشت کی منظم پالیسی ہے۔جب کوئی قابض ریاست کسی فرد کو جبری گمشدہ کرتی ہے، تو در حقیقت وہ خود اپنے جرم کا اعتراف کررہی ہوتی ہے۔اس طرح کے حربے کسی ایک فرد یا خاندان کو نشانہ بنانے کا عمل نہیں،بلکہ یہ ایک قوم کی اجتماعی قومی شناخت اور اس کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہوتی ہے۔کسی قوم کواس کی مرضی کے بغیر محکوم بنانا، اس کے وسائل پر قبضہ جمانا،اس کی آزادی سلب بذات خود ایک سنگین جرم ہے۔اس طرح کی جارحیت نہ صرف قابض ریاست غیر اخلاقی اور غیر قانونی وجود کو بے نقاب کرتے ہیں۔اس طرح کے جبر و استبداد جنگی جرائم اور انسانیت کے جرائم کے زمرے میں آتاہے اور یہی جنگی جرائم در حقیقت خود بلوچ مزاحمت کو جواز فرائم کرتے ہیں جو بلوچ قوم اپنی بقاء آزادی کے لئے لڑرہی ہے ۔ بلوچ قوم کے ہزاروں نوجوانوں کی جبری گمشدگی، جعلی مقابلوں میں شہادت اور فوجی آپریشنز کی صورت میں اجتماعی سزا کا عمل کسی بھی آزاد قوم کے خلاف کھلی جنگ کی مترادف ہے۔بلوچ قوم کی تاریخی شناخت اور اس کی اپنی سرزمین پر حق ہزاروں سال پر محیط ہے۔ جبکہ پاکستانی ریاست کا مصنوعی اور نوآبادیاتی ڈھانچہ صرف پچھتر سال پرانا ہے۔ یہ کسی بھی صورت بلوچ قومی وجود کا متبادل نہیں ہوسکتا، جب کوئی بیرونی ریاست کسی قوم کی شناخت کو مٹانے اور اس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو یہ ناگزیر ہوتاہے کہ وہ قوم اپنی بقاء کی جنگ لڑے۔اگر دنیا کی دیگر مزاحمتی تحریکوں کو دیکھا جائے، جیسے کہ فلسطین میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ، یا کسی بھی آزادی کی جنگ، تو وہاں قابض قوتوں کی جانب سے جبر اور ظلم ضرور ہوا ہے، لیکن جس منظم طریقے سے پاکستانی ریاست بلوچ قوم کو جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں، اور اجتماعی سزاؤں کا نشانہ بنا رہی ہے، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ جنگی حالات میں بھی قیدیوں کے حقوق بین الاقوامی قوانین کے تحت تسلیم کیے جاتے ہیں، مگر پاکستان ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچ عوام کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ مسلط کیے ہوئے ہے، جس میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی اصولوں کی کھلی پامالی کی جا رہی ہے۔بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ خواتین کی دو دہائیوں پر محیط جدوجہد ایک ایسا ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت بن چکی ہے، جو ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ ان خواتین نے ہر جمہوری اور آئینی طریقہ کار اپنایا—عدالتوں سے رجوع کیا، احتجاج کیے، دھرنے دیے، ریلیاں نکالیں، جلسے منعقد کیے، پریس کلبوں اور سیمیناروں میں اپنی آواز بلند کی—مگر ریاست نے نہ صرف ان کی جدوجہد کو نظر انداز کیا بلکہ ان پر مزید جبر مسلط کر کے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔آج جو بلوچ خواتین ریاستی حراست میں ہیں، وہ محض چند افراد نہیں بلکہ اس اجتماعی غم اور کل بلوچ مزاحمت کی نمائندہ ہیں جو جبری گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ پر گزرتی رہی ہے۔ وہ ان ماؤں کی امیدوں کا عکس ہیں جو ہاتھوں میں اپنے بیٹوں کی تصویریں اٹھائے آج بھی ان کی واپسی کی منتظر ہیں۔ وہ ان بہنوں کی آواز ہیں جن کے بھائیوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا شہید کر دیے گئے۔ وہ ان بیواؤں کی ترجمان ہیں جن کے شوہر جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔ وہ ان بچوں کی آواز ہیں جو اپنے والدوں کی راہ تک رہے ہیں، مگر ان کے لوٹنے کی کوئی خبر نہیں۔ ان بہادر خواتین کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قوم کے اجتماعی شعور میں مزاحمت کی جو چنگاری بھڑک چکی ہے، وہ جبر کے کسی بھی طوفان سے بجھنے والی نہیں۔بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کا یہ المیہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کا اجتماعی دکھ اور کرب بن چکا ہے۔ یہ وہ زخم ہے جو وقت کے ساتھ ناسور بنتا جا رہا ہے، اور جب تک ریاستی قبضہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں گی، یہ جہدبھی اسی شدت کے ساتھ برقرار رہے گا۔ ہر ماں، ہر بہن، اور ہر بیٹی اس جدوجہد کا حصہ بن چکی ہے، جو اپنے پیاروں کی بازیابی اور اپنی قومی آزادی کے لیے برسرِپیکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماہ رنگ کی دروشم، سمی دین کی للکار، گلزادی کی آواز، بیبو کی تلخ مسکراہٹ، اور شلی بلوچ و صبیحہ کے خطبات آج بلوچستان کے سیاسی شعور کا حصہ ہیں۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو ریاستی جبر کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والا احتجاج بن چکی ہیں، ایک ایسی امید کی علامت جو ممکنہ طور پر آزادی کے سورج کے ساتھ طلوع ہوگی۔بلوچ خواتین کی صفیں آج پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ وہ نہ صرف ریاستی جبر کا سامنا کر رہی ہیں بلکہ بہادری، حوصلے، اور ناقابلِ تسخیر جذبے کے ساتھ اس کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں۔ جبر جتنا بھی سخت ہو، تشدد جتنا بھی بے رحمانہ ہو، اب بلوچ قوم موت کے خوف سے، گرفتاریوں سے، اور جبری گمشدگیوں سے ڈرنے کے بجائے ان کے ساتھ جینا سیکھ چکی ہے۔ جب کوئی قوم خوف سے آزاد ہو جائے، تو اسے غلام رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بلوچ خواتین کی جدوجہد کو ایک ناقابلِ شکست قوت بنا دیا ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جو بالآخر آزادی کی راہ ہموار کرے گی۔بلوچستان کی تاریخ میں ایسے لمحات بارہا آئے ہیں جب ظلم کی انتہا نے مزاحمت کو جنم دیا۔ ماہ رنگ بلوچ بھی اسی تاریخ کا تسلسل ہے —ایک ایسی کہانی جو جبر کے سائے میں پروان چڑھی، اور جس کا ہر باب استقامت اور بہادری کی نئی داستان لکھتا رہا۔ جب وہ پہلی بار میڈیا کے سامنے آئی، تو اس کے چہرے پر صرف غم کے آثار تھے، مگر جب دوسری بار دنیا نے اسے دیکھا، تو وہ کرب کی ایک اور گہری کھائی سے گزر چکی تھی۔ اس بار اسے اپنے والد کی مسخ شدہ لاش ملی تھی—ایک ایسا المیہ جو کسی بھی دل کو چیر کر رکھ دے، مگر ماہ رنگ نے خوف اور آنسوؤں کو پیچھے چھوڑ کر مزاحمت کا راستہ چُنا۔امریکی صحافی مدیحہ طاہر کے سامنے جب اس نے اپنے والد پر گزرنے والے مظالم کی تفصیلات بیان کیں، تو اس کے الفاظ کے ساتھ اس کی خاموشی بھی گونج رہی تھی۔ وہ رو پڑنا چاہتی تھی، مگر اس کے والد کی وہی نصیحت اس کے ذہن میں گونجنے لگی: "ہمیشہ بہادر رہنا۔" یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے اپنے غم کو جدوجہد میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔یہی بہادری اسے بولان میڈیکل کالج سے طلبہ سیاست کے میدان میں لے آئی، جہاں وہ نہ صرف بلوچستان کے تعلیمی مسائل کے خلاف آواز بلند کرتی رہی بلکہ ان سازشوں کو بھی بے نقاب کرتی رہی جو بلوچ طلبہ کے خلاف رچی جا رہی تھیں —ماہ رنگ بلوچ ہر اس محاذ پر کھڑی دکھائی دی جہاں بلوچ نوجوانوں کے حقوق سلب کیے جا رہے تھے۔لیکن اس کی جدوجہد صرف تعلیمی مسائل تک محدود نہیں رہی۔ وہ اس مزاحمتی تحریک کا چہرہ بن چکی تھی جو بلوچ قوم کے اجتماعی شعور کا حصہ ہے۔ وہ جانتی تھی کہ ریاستی جبر کی پالیسیوں کے خلاف صرف آنسو نہیں، بلکہ ایک منظم مزاحمت کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک عام طالبہ سے ایک سیاسی کارکن اور پھر ایک قومی مزاحمت کی علامت میں تبدیل ہو گئی۔لیکن اس کی کہانی صرف طالبعلمی سیاست تک محدود نہیں رہی۔ جبری گمشدگیاں اور مسخ شدہ لاشیں اس کی زندگی کا ایک تسلسل تھیں، اور پھر وہ دن آیا جب اس کے چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو بھی اٹھا لیا گیا۔ مگر اس بار وہ اپنے بھائی کی تشدد زدہ لاش نہیں دیکھنا چاہتی تھی، اس بار وہ اسے زندہ واپس لانے نکلی۔ کئی ماہ کی مسلسل مزاحمت اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں آخرکار وہ اپنے بھائی ناصر غفار بلوچ کو ریاستی حراست سے بازیاب کروانے میں کامیاب ہوئی۔ریاست کی یہ غلط فہمی کہ ماہ رنگ اپنے بھائی کی بازیابی کے بعد خاموش ہو جائے گی، ایک سطحی اندازہ تھا۔ ماہ رنگ کا قدم ایک فرد کی بازیابی کی خوائش سے کئیں زیادہ تھا،، وہ صرف اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے نہیں نکلی تھی، بلکہ وہ ایک اجتماعی نوحے کا حصہ بن گئی تھی، جو ایک قوم کے درد، غم، اور اجتماعی جبری گمشدگیوں کی بازیابی کے لیے بلند ہو ئی۔ماہ رنگ کا نوحہ ماتم نہیں، بلکہ ایک طاقتور للکار تھی۔ یہ وہ للکار تھی جو بلوچستان کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دلوں میں روزانہ گونجتی تھی۔ ان خواتین کا کردار اس مزاحمت میں اہم ہے، کیونکہ یہ وہ ہیں جو نہ صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے آواز اٹھاتی ہیں بلکہ اپنے قومی شناخت بے خوف ہو کر کھڑی ہوئی ہیں۔ ماہ رنگ کی جدوجہد ان تمام مظلوموں کی آواز تھی جنہیں ریاست نے نظر انداز کیا تھا، اور اس آواز میں اس طاقتور انکار کی گونج تھی جو ظلم کے سیاہ راتوں میں ایک نئی روشنی کی صورت میں ابھری۔یہ نوحہ دراصل ایک نئی روشنی کی کرن تھا، جو اس وقت طلوع ہوئی جب بلوچ قوم نے ظلم کے خلاف یکجا ہو کر مزاحمت کا آغاز کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بلوچستان کے ہر فرد نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کا حساب لیا جائے گا، اور اس کے لیے صرف فردی جدوجہد کافی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر مزاحمت کی ضرورت ہے۔ بلوچ قوم نے یہ ثابت کر دیا کہ جب تک وہ ریاست کے اس اجتماعی سزا کے خلاف واز نہیں اٹھائیں گے، تب تک ریاستی جبر اور ظلم کو شکست دینا ممکن نہیں۔ماہ رنگ کی قیادت اس بات کا غماز ہے کہ کسی بھی قوم کا شعور تب ہی بیدار ہوتا ہے جب وہ اپنی اجتماعی جدوجہد میں شامل ہو کر اپنی جنگ لڑیں۔اس نے اجتماعی مزاحمت کو اپنی طاقت بنایا۔ ان کی آواز ریاستی قوتوں کے خلاف ایک چیلنج بن گئی۔ یہ وہ للکار تھی جس نے بلوچ قوم کو ایک نئے جہت میں پروان چڑھایا، جس میں نہ صرف ریاستی ظلم کے خلاف مزاحمت کا عزم تھا بلکہ اس کا ایک وسیع تر سیاسی پیغام تھا۔ماہ رنگ بلوچ کی آواز اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ظلم کا خاتمہ محض فردی جدوجہد سے نہیں بلکہ قوموں کی اجتماعی مزاحمت سے ممکن ہے۔ جب تک بلوچ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنے دکھ درد کو عالمی دنیا کے سامنے نہیں لائیں گی، تب تک ان کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ اس آواز نے اس بات کو واضح کیا کہ بلوچ قوم کی جنگ صرف ایک شخص یا خاندان کی نہیں، بلکہ ایک پورے خطے اور قوم کی جنگ ہے۔ماہ رنگ کی جدوجہد ایک درخشاں مثال ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ اجتماعی مزاحمت کی طاقت ظلم کے خلاف سب سے بڑی ہتھیار بن سکتی ہے۔ اور یہ وہ مزاحمت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔

عمرکوٹ: عمرکوٹ شہر میں دراوڑ اتحاد کے سرپرست فقیر شیوا کچھی کی سربراہی میں حالیہ پولیس کانسٹیبل کی بھرتیوں میں ہندو نوجوانوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کے خلاف پریس کلب عمرکوٹ کے سامنے اللہ وآلہ چوک پر احتجاجی مظاہرہ ۔رپورٹ : ھیرالال مالہی تحصیل رپورٹر بی بی سی نیوز تفصیلات: BBC PK

عمرکوٹ: سندھ پولیس میں بھرتیوں کے سلسلے میں ہندو برادری کے نوجوانوں کے ساتھ نا انصافی اور یکسر نظر انداز کرنے کے خلاف پریس کلب عمرکوٹ کے سامنے اللہ وآلہ چوک پر دراوڑ اتحاد کے سرپرست فقیر شیوا کچھی کی سربراہی میں ناانصافیوں کے خلاف اور اپنے حقوق کی حاصلات کے لیئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ، بڑی تعداد میں متاثرین ، انکے والدین اور عوام الناس نے شرکت کی ۔ شرکاء نے ارباب اختیار اور منتخب نمائندگان سے انصاف کا مطالبہ کیا ۔

ھیرالال مالھی تحصیل رپورٹر عمرکوٹ ڈیلی بی بی سی پاکستان نیوز عمرکوٹ: ایس ایس پی عمرکوٹ جناب عزیر احمد (PSP) کی ہدایات پر ضلع بھر میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے۔ BBC PK News Umer kot Hira Lal Report

پولیس تھانہ تعلقہ عمرکوٹ نے مختلف جرائم میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ پولیس اسٹیشن: تعلقہ عمرکوٹ مقدمہ...